بھارتی قومی سلامتی کے مشیر شیو
شنکر مینن نے کشمیر میں ایل او سی کی صورتحال سے متعلق بھارتی جنتا پارٹی
کے رہنماﺅں جیٹلی اور سشما سوراج کو بریفنگ دی۔ بی جے پی کے رہنماﺅں نے
حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کےخلاف سخت کاروائی کی جائے اور حکومت کو
یہ بھی یقین دلایا کہ اسے اپوزیشن پارٹی کی حمایت حاصل رہے گی۔45منٹ تک
چلنے والی یہ میٹنگ سشما سوارج کی رہائش گاہ پر ہوئی۔پیر کے روز وزیر اعظم
من موہن سنگھ نے پاکستان کے معاملے پر تبادلہ خیال کےلئے دو سنیئر بی جے پی
کے لیڈروں کو بلا یا اور انھیں یہ یقین دلایا تھا حکومت جو کچھ بھی ہوگا وہ
کرے گی۔ارون جیٹلی راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر جبکہ لوک سبھا میں سشما
سوراج ان کی ہم منصب ہیں۔حکومت کی جانب سے وسیع تر اپوزیشن حمایت حاصل کی
کوشش کی جارہی ہے۔جبکہ بھارتی اپوزیشن جماعتیں بھی چاہتی ہیں کہ پاکستان کو
ایک سخت پیغام دیا جائے۔کنٹرول لائن پر بھارتی میڈیا کی جانب سے اور
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت کا رویہ خاصا جارحانہ ہوچکا ہے ۔بین
الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارت پاکستان میں داخلی انتشار اور سیاسی
افراتفری کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا خوائش مند نظر آتا ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ بھارتی حکومت ، اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے رہی ہے اور
بھارت کے آرمی چیف بھی خاصا جارحانہ موڈ میں نظر آتے ہیں اور اپنے بیانات
میں سخت گیر پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نے فوجی پروگرام کے
موقع پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کی
طرح بزنس نہیں ہوسکتی۔پچھلے ہفتے جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔جبکہ
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل وکرم سنگھ اپنے جنگی عزائم پر پہلے ہی کہہ چکے
ہیںکہ ان کی فورسز کو انتقامی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہے۔بھارت میں جہاں
میڈیا یکطرفہ جنونیت کا مظاہرہ کررہا ہے توخود دوسری جانب بھارتی سنجیدہ
طبقہ اس تمام تر صورتحال پر پریشان بھی نظر آتا ہے۔بھارت کے ایک اخبار "منصف
"نے اپنے ادارئےے میں اپنے ہی میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا
ہے کہ" کسی بھی ملک یا علاقہ کی سلامتی اور امن و امان کا انحصار بڑی حد تک
الیکڑونک میڈیا کے کندھوں پر آگیا ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا ، کیوں کہ
حالیہ عرصہ میں دنیا بھر میں آنے والے انقلابات میں اس عصری مواصلاتی ذریعہ
کی اہمیت کو ہر فرد نے مان لیا ہے اور اس لحاظ سے اور بھی ضروری ہوجاتا ہے
کہ اس شعبہ سے وابستہ افراد خبروں کی ترسیل میں جذبات اور ذاتی رائے کو
ٹھوسنے سے گریز کرتے ہوئے صرف اور صرف حقائق کو ہی عوام کے سامنے پیش کریں،
لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہورہا ہے۔اکثر نیوز
چینل اپنی ٹی آر پی اور شہرت بڑھانے کی دھن میں معمولی معمولی واقعات کو
بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ایک دوسرے سے بازی مارنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں،
گویا کہ دونوں ممالک (ہندوستان اور پاکستان) حالت جنگ میں ہیں ، جبکہ حقائق
اس سے کوسوں دور ہیں۔ سرحدات پر جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں، ہر دو جانب سے
اچانک فائرنگ یا گولہ باری کے واقعات ماضی میں سینکڑوں بار ہوچکے ہیں اور
ماضی میں بھی دونوں جانب کے کچھ سپاہی ہلاک یا زخمی ہوجاتے ہیںاور فوجی
ماہرین کے بموجب یہ سرحد کےلئے معمولی واقعات ہیں۔"بھارت کے سنجید ہ حلقے
بھارتی الیکڑونک میڈیا کو ان تمام صورتحال کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں کہ
ایسا کبھی ماضی میں نہیں ہوا بلکہ اب الیکڑونک میڈیا کا تبصرہ دونوں ممالک
کے درمیان جنگ کا ماحول پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔بھارت کے سرکردہ صحافیوں
اور ذمے داران کی رائے بھی یہی ہے کہ نیوز چینل تبصروں میں ایسے الفاظ کا
استعمال کر رہے ہیں جس سے سامع کے قلب و ذہن میں ایک بر ہمی کی لہر دوڑ
جائے۔خود الیکڑونک میڈیا سے وابستہ نامور صحافی کرن تھاپر نے موجودہ حالات
میں بھارتی نیوز چینلس کے رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ"
ہندوستانی میڈیا اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور اصول و ضوابط کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جوکہ صحافتی اصول
و ضوابط کے مغائر ہے۔"جبکہ چومسکی نے پاکستانی میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے
کہا ہے کہ"انہوں نے شفافےت اور ذمے داری کا بھرپور خیال رکھا ہے ۔"ہندوستان
کے کئی ایک معروف صحافیوں اور میڈیا ہاﺅسس کی جانب سے بعض نیوز چینلس کی
کارکردگی پر سخت افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔پاکستان اس وقت بڑے نا مساعد
حالات سے گذر رہا ہے ۔جس میں داخلی طور پر سیاسی افراتفری،دہشت گردی ،
انتہا پسندی ، فرقہ وارایت سمیت چاروں صوبوں میں امن و امان کی بدترین
صورتحال ہے،جبکہ افغانستان کے راستے در اندزوں نے پاکستان کی بقا کو شدید
امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔پاکستان کی اس موجودہ صورتحال میں جبکہ پہلی بار
کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ قریب تر ہے ، طاہری
اسلام آباد دھرنے کی وجہ سے عوام میں شدید تحفظات اور بے یقینی کا ماحول
پیدا ہوچکا ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ کیجانب سے رینٹل پاور کیس میںوزیر
اعظم سمیت اہم شخصیات کی گرفتاری کے احکامات نے بھی ملکی سیاست میں تلاطم
پیدا کردیا ہے۔کنڑول لائن میں جس طرح سرحدات کی خلاف ورزی ہو رہی ہیں اور
بھارتی میڈیا جلتی پر تل کا کام کر رہا ہے تو ان تمام تر صورتحال میں
پاکستانی عوام ایک بات پر متفق ہیں کہ اگر سرحد پار کسی بھی قسم کی مہم
جوئی کو بڑھایا گیا تو پاکستانی قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک
نکاتی ایجنڈا پر متفق ہوجائیں گے اور پاکستان کےخلاف کسی بھی جارحیت پر ،
پاکستانی افواج کا صف اول کا دستہ بنے گی۔بھارت کو اپنے غیر سنجیدہ اقدامات
، جس میں ویزہ پالیسی ، تجارتی پالیسی میں نرمی کی واپسی ، وزیراعظم کا
پاکستان کے دورے سے انکار ،ہاکی کھلاڑیوں کو آئی پی سریز میں پابندی اور
جارحانہ بیانات کے بجائے امن اور علاقائی تحفظ کو ترجیح دے۔خطے میں پچھلی
چار جنگوں میں عوام کو نقصان پہنچنے کے علاوہ کسی کو کوئی فائدہ نہیں ملا
تو پھر آئندہ کسی بھی ملک کو فائدے کے بجائے نقصان ہی ملے گا اور عوام کی
ترقی کے لئے وسائل ، جنگی تیاریوں پر ہی خرچ ہوتے رہیں گے۔دونوں ممالک کی
عوام غربت ، مہنگائی اور تعلیم کی کمی کا شکار ہیں ۔ان حالات میں جبکہ پاک
سپاہ نے ازخود اپنے آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی پیدا کی ہے تو بھارت کو بھی
اپنے رجحانات میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی میڈیا بھی اپنے
کردار پر نظر ثانی کرکے خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنائے تو یہ دونوں
ممالک کی عوام اور معیشت کے لئے بہتر ہوگا۔بھارتی میڈیا یہ سوچے کہ اب دنیا
سمٹ چکی ہے ایسے کوزے میں بند نہیں کیاجاسکتا۔ |