طاہر القادری کے لاہور سے اسلام
آباد تک” گاڑی مارچ“ اورپارلیمنٹ کے قریب دھرنے کی ”مہم جوئی“ کو جمہوریت
کے خلاف حملہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔طاہر القادری نے کہا ہے کہ
ان کے سات نکات تسلیم کرنے تک دھرنا جاری رہے گا۔ساتھ ہی منگل کو عمران خان
نے بھی الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنے ساتھ نکات پیش کر دیئے
ہیں۔ اس سے پہلے بھی رات کوطاہر القادری نے تقریر میں جو انداز اپنایا ، وہ
بڑا عجیب نظر آیا۔ان کا ہزاروں لوگوں کے سامنے حکومت کے خلاف بغاوت کا
اعلان اور دوتین دن میں حکومت تبدیل ہونے کے ان کے دعوے پر وعدے کا شک بھی
ہوتا ہے ۔انہوں نے لاہور میں الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کیا لیکن اسلام آباد
پہنچ کرانہوں نے عوامی منصف بنتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو صدر
مملکت سمیت برخاست کر یا اور اگلی صبح نئے احکامات دینے کا اعلان کیا ۔طاہر
القادری نے رات دو بجکر دس منٹ پہ اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا
مارچ 39گھنٹوں میں لاہور سے اسلام آباد پہنچا اور اب انقلاب کا آغاز ہو چکا
ہے۔ ایک ملین افراد ابھی پیدل آ رہے ہیں۔مجھے ان کی آمد کا انتظار ہے۔ڈی
چوک میں عوامی اسمبلی ہو گی۔سٹیج پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک میں ہو گا۔تم سب
اپنی حفاظت خود کرو۔ چالیس لاکھ کے اس مارچ میں ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹے
گا۔امن کے پیکر بن کر ڈی چوک پہنچنا ہے۔میں صبح عوامی ،جمہوری انقلاب کا
افتتاحی خطاب ہو گا اور عوام کے فیصلے ہوں گے۔ صدر آصف زرداری،وزیر اعظم ،وفاقی
وزراءجو اب سب سابقہ ہیں ،نواز شریف سب کو دعوت دیتا ہوں کہ یہ چالیس لاکھ
کا اجتماع ہے،تمہارا دھوکے،جعلی ووٹوں کا مینڈیٹ ختم ہو چکا ہے۔چالیس پچاس
لاکھ لوگوں نے اپنا مینڈیٹ واپس لے لیا ہے۔کل ہم خود فیصلے کرنے والے
ہیں،۔اس دوران یوے جیوے قائد جیوے کے نعرے لگتے رہے۔طاہر القادری نے نجی ٹی
وی چینلز کو اچھی کوریج پر سراہا اور کہا کہ ان کا کردار سنہری حروف میں
لکھا جائے گاطاہر القادری نے دعوی کیا کہ کل پرسوں حکومت بدل چکی ہو گی
چناچہ پولیس اہلکار افسروں سے نہ ڈریں۔اسمبلیاں ،حکومتیں کل ختم کر دی
جائیں تا کہ عوام فیصلے کریں۔میں حسینی مشن لیکر آیا ہو اور یزید کا تخت
آئینی جمہورہت طاقت سے ختم کرنا ہے ۔جب تک میں یہاں ہوں اور فیصلے عوام کے
حق میں نہ ہو جاتے،انقلاب کامیاب نہیں ہوتا تو ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔
قادری صاحب کی غلط بیانی عجیب لگی کہ انہوں نے کیسے الیکٹرانک میڈیا کے
مطابق تیس سے چالیس افراد کو چالیس لاکھ افراد قرار دے دیا اور مزید یہ کہ
صبح تک مزید دس لاکھ افراد قادری صاحب کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے وہاں پہنچ
جائیں گے۔دوسری طرف طاہر القادری کے ادارے نے موجود افرادکی تعداد چار لاکھ
ہونے کا دعوی کیا۔میڈیا کے مطابق تیس چالیس ہزار افراد وہاں موجود تھے جسے
طاہر القادری صاحب نے پورے یقین سے چالیس لاکھ قرار دیا۔ایسی ڈھٹائی سے غلط
بیانی کے اندازان سے متعلق شکوک و شبہات کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ اگر چند
ہزار افراد ملک یرغمال بنانے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کی تقدیر سے کھیلتے
ہیں اور متعلقہ محکمے و ادارے خاموش رہیں تو یہ بات بھی تعجب انگیز ہونی
چاہئے۔طاہر القادری نے عبوری حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کے حاوی عمل دخل کے مقصد
سے لاہور سے اسلام آباد گاڑیوں کا مارچ کیا اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے بلو
ایریا میں دھرنا ہوا۔دعوی تو چار ملین(چالیس لاکھ ) افراد کا تھا لیکن عملی
طور پر یہ تعداد ہزاروں تک سمٹ کر محدود ہو گئی ۔ طالبان ،دہشت گردوں کے
خلاف جنگ اور کشمیر کی کشیدگی کے تناظر میں افواج پاکستان کو مکمل
سیاسی،عوامی پشت پناہی کی ضرورت ہے،اس صورتحال میں فوج کو سیاسی حکومتی
امور میں ملوث کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو ملک و عوام کا خیر خواہ ثابت
کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ جنرل ضیاءکے اس ریفرنڈم کا واقعہ ہے جس میں عوام سے سوال کیا گیا تھا کہ
کیا آپ اسلامی نظام کی حمایت کرتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں تو مطلب یہ لیا
جائے گا کہ جنرل ضیاءالحق آئندہ پانچ سال کے لئے ملک کے امیر امومنین منتخب
ہو جائیں گے۔لڑکپن کا دور تھا،پی ٹی وی پہ مسلسل نشر ہونے والے انقلابی
نغموں کو سن کر خون نے جوش مارا اور میں ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن پہنچ
گیا۔حالانکہ ابھی میری عمر اٹھارہ سال بھی نہ تھی۔پولنگ سٹیشن میں عملے کو
فارغ بیٹھے دیکھا۔ووٹر لسٹوں کی جگہ دو تین صفحات ہی موجود تھے۔میرے جیسے
اکا دکا جوشیلے افراد نے ووٹ ڈالے ۔میں واپس گھر آیا اور والد صاحب کو علم
ہوا کہ میں نے ووٹ کا سٹ کیا ہے تو وہ ناراض ہوئے کہ تمہیں غلط کام نہیں
کرنا چاہئے تھا۔والد صاحب نے کہا کہ میں آزادی اظہار پہ قدغن کا قائل نہیں
لیکن تمھارا تو ووٹ ہی نہیں بنا،اس کے باوجود تم نے ووٹ ڈال کر غلط کام کیا
ہے۔اس پر میں نے جواب دیا کہ اچھے مقصد کے لئے غلط راستہ اختیار کرنا جائز
ہے۔سالہا سال بعد جا کر یقین آیا کہ واقعی اچھے مقصد کے لئے بھی غلط راستہ
اختیار کرنا سراسر غلط اور ناجائز ہے۔
طاہر القادری نے حکومتی اور سیاسی خرابیوں کا جواز دیتے ہوئے ”فوج ،عدلیہ،سب
پر مبنی عبوری حکومت“ کے مطالبے میں لانگ مارچ کی مہم جوئی میں مصروف
ہیں۔یعنی جس طرح جنرل ضیاءصاحب کی منطق یہ تھی کہ اسلام کو پسند کرنے کا
مطلب انہیں صدر بنانا ہے اسی طرح طاہر القادری صاحب مختلف ملکی سنگین
خرابیوں کو جواز بناتے ہوئے ان جمہوریت مخالف حلقوں کو تقویت پہنچا رہے
ہیںکہ عبوری حکومت کی تشکیل میں غیر متعلق حلقوں کو شامل کر کے جمہوریت کے
تسلسل کو ”ڈسٹرب “،”ڈی ریل“ کیا جا سکے۔طاہر القادری نے اپنے مطالبات میں
کہا ہے کہ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے،عبوری حکومت حقیقی غیر
جانبدار،غیر سیاسی ،ایماندار اور طاقتور ہو۔اطلاعات دینے والے تمام ادارے
تین ماہ کے لئے الیکشن کمیشن کے تابع ہوں۔الیکشن آئین کے آرٹیکل 62-63اور
آرٹیکل 218کے تحت ہوں۔حسب توقع فوجی حکومتوں کے حمایتی عناصر کی طرف سے
طاہر القادری کے پروگرام اور لانگ مارچ کی حمایت کی جا رہی ہے۔تحریک انصاف
،ایم کیو ایم،ق لیگ سے لیکر شیخ رشید احمد اور سردار عتیق احمد طاہر
القادری کے حمایتی کے روپ میں سامنے آ گئے ہیں ،یوں مخصوص تعارف والے
گروپوں،افراد کی طاہر القادری کو حمایت جمہوری تسلسل میں تعطل پیدا کرتے
ہوئے غیر متعلقہ اداروں،شخصیات کو عبوری حکومت بنانے کے فیصلے میں شامل
کرنے سے جموریت دشمن عناصر کے عزائم واضح ہو چکے ہیں۔
ایک طرف ملک کی سلامتی کئی عنوانات کے لحاظ سے سنگین ترین خطرات سے دوچار
ہے اور دوسری طرف ملک کو بچانے سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان
میں جمہوریت کے بجائے آمریت پر مبنی صورتحال کو حاوی رکھنے کی کو شش
کارفرما نظر آتی ہے۔ پاکستان میں بہتری کی کرن عوامی جمہوری نظام کا تسلسل
سے جاری رہنا ہےَ ۔ طاہر القادری صاحب کا نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“
عوام کے لئے نیا نہیں ہے ،وہ اس نام پر پہلے بھی بیوقوف بنائے جا چکے
ہیں۔ریاست اسی وقت بچ سکتی ہے کہ جب ملک میں عوامی حاکمیت کے نظام کو مقدم
قرار دیا جائے۔اداروں ،مضبوط شخصیات کو عوامی حاکمیت کے دائرہ کار میں لاتے
ہوئے ہی ریاست کو بچایا جا سکتا ہے۔صد افسوس کہ ہمارے ارباب اختیار نے
گزشتہ چون سالوں کی آمرانہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے بھیانک نتائج سے
بھی کچھ نہ سیکھا،اب ملک میں آئین کو مقدم و بالا تر سمجھتے ہوئے مضبوط
سیاسی نظام حکومت کی جانب پیش رفت کرنی چاہئے۔اگر یہ راہ اختیار نہیں کی
جاتی تو بلوچستان کا سنگین ترین مسئلہ،کراچی کا سنگین مسئلہ،طالبان سے
بھرپور جنگ بلکہ خانہ جنگی کا مسئلہ،فرقہ وارانہ ہلاکتوں کا مسئلہ حکومتی
،نا انصافی ،امن و امان کی سنگین صورتحال ، حکومتی وسرکاری سطح کی بد
انتظامی،اقرباءپروری،رشوت،الغرض بدکرداری کے عریاں نظاروں سے پیدا صورتحال
میں ملک و عوام کے لئے بد سے بدتر نتائج کو بھی خارج از امکان قرار نہیں
دیا جا سکتا۔اگر ہم نے پاکستان کو بچانا ہے،اس کی تعمیر کرنی ہے تو ہمیں
آئین و قانون کو مقدم اور عوامی حاکمیت کو یقینی بنانا ہو گا۔اب تو ہمیں
حکومت کی مضبوطی، جو حقیقی طور پر ریاست کی مضبوطی ہے، کے لئے ایک ’ ’سٹیپ
‘ ‘چڑہنا آ جانا چاہئے ۔ |