موت کا سوداگر

جمشید خٹک

ڈائنا مائیٹ کے موجد الفرڈ نوبیل 1833 میں سٹاک ہوم (سویڈن) میں پیدا ہوا۔ 1896 میں انتقال کرگئے۔جس کے موت پر اخبارات میں سرخی لگی ’’ موت کا سوداگر ‘‘ مرگیا۔الفرڈ نوبیل کل 355 ایجادات کے موجد ہیں۔جس میں سب سے مشہور ایجاد ڈائنا مائیٹ ہے۔اُس کے ان ایجادات کے بدولت الفرڈ نوبیل ایک امیر شخص بن گیا۔جب الفرڈ نوبیل کے بھائی کا انتقال ہوا۔تو اخبارات میں سرخی لگی کہ موت کا سوداگر مرگیا۔یہ الفرڈ نوبیل کے فوتگی سے کچھ عرصہ پہلے ہوا۔جس نے الفرڈ نوبیل کو نہایت ہی رنجیدہ اور پریشان کیا۔اس موت کے سوداگر کے لقب سے الفرڈ نوبیل کو نہایت تکلیف پہنچی ۔لیکن اُسکی آخری وصیت نے سب کو حیران کردیا۔وصیت کے مطابق اُسکی ساری دولت کو انسانیت کی خدمت کرنے والے اعلیٰ ترین کارکردگی دکھانے والے اشخاص میں تقسیم کی جائے ۔ 29 جو ن 1900 کو اُسکی وصیت کے مطابق نو بل فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد انعامات کی تقسیم اور دیگر فرائض کو احسن طریقے سے نبھانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ایک نجی سرمایہ کار کمپنی کے طرز پر فاؤنڈیشن کا انتظام چل رہا ہے ۔ابھی تک اس کمپنی کے کل اثاثوں کی قیمت 560 ملین ڈالر تک پہنچی ہے ۔ہر سا ل اس فنڈ سے منتخب کردہ اشخاص کو باقاعدہ طور پر کمیٹی سے نامزدگی کے بعد انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔تقسیم انعامات کے موقع پر ایک خصوصی پروگرام کا انقعاد کیا جاتا ہے ۔جس پر ہزاروں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔اور کئی سو لوگوں کو دُنیا بھر سے اس تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے ۔پہلی دفعہ مدر ٹریسا نے تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کیا ۔ کہ یہ رقم مبلغ 7000 ڈالرز کو تقریب پر خرچ کرنے کی بجائے 2000 بے گھر افراد میں تقسیم کیا جائے۔

10 دسمبر کو ہر سال دُنیا کے سائنسدانوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والو اشخاص کو متعلقہ شعبے میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کو نوبل انعام سے نوازا جاتا ہے ۔یہ تقریب سٹاک ہوم (سویڈن ) میں منعقد کی جاتی ہے ۔ 1900 میں نوبل پرائز فاؤنڈیشن کا ادارہ قیام عمل میں لایا گیا۔1901 میں فزکس ،کیمسٹری ، ادب اور میڈیسن میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے کیلئے نوبل پرائز کا آغاز ہوا۔امن نوبل پرائز کی تقریب اوسلو (ناروے) میں منعقد ہوتی ہے ۔جبکہ باقی نوبل انعامات کیلئے تقریب سٹاک ہوم (سویڈن ) میں منعقد کئے جاتے ہیں۔نوبل انعامات میں ایک عدد سونے کا تمغہ ایک عدد ڈپلومہ سر ٹیفیکیٹ اور نقد انعام 2012 کیلئے کل انعامی رقم کی مالیت تقریباً 1.2 ملین ڈالر رکھی گئی ہے ۔ 1901 سے لے کر 2012 تک 553 دفعہ 863 اشخاص کو نوبل انعامات سے نوازا گیا۔جبکہ بعض سکالر ز کو ایک سے زیادہ دفعہ نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح 865 افراد اور 21 اداروں میں نوبل انعامات کے حقدار قرار دئیے گئے ہیں۔

ہر سال دسمبر کے مہینے میں سٹاک ہوم (سویڈن) میں دُنیا کے ممتاز ، سکالرز ، سائنس دانوں کو متعلقہ شعبے میں اعلیٰ کارکردگی پر نوبل پرائز سے نوازا جاتا ہے ۔شروعات میں ذہین سکالرز اور سائنسدانوں کی علمی کاوشوں کو تسلیم کرتے ہوئے۔انہیں ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔زندگی کے تمام شعبوں میں اُن افراد کو نوازا گیا۔ جنہوں نے واقعتا اُن شعبوں میں حیرت انگیز کارنامے دکھا کر ایک نئی ایجاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔نئی دریافت سے متعلقہ شعبے میں ترقی کے چارچاند لگا دئیے ۔ سب سے پہلا انعام 1901 میں دیا گیا۔

پاکستان میں ڈاکٹر عبدالسلام سمیت دو غیر ملکوں فزکس کے اساتذہ کو نوبل انعام دیا گیا۔موجودہ دور میں اعلیٰ کارکردگی کی معیارکا پیمانہ تبدیل ہوا نظر آتا ہے ۔سائنسدانوں ا ور سکالرز کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر بھی نوبل انعام دیا جاتا ہے ۔اس سے قبل نیلسن منڈیلا جیسے سیاست دانوں کو اگر اس انعام سے نوازا گیا ہے۔ تو بے شک تمام دُنیا کے اکابرین نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کے متعرف ہیں۔مگر آج کل جن لیڈرز کو امن کا نوبل پرائز کا حق دار قرار دیا جا رہا ہے ۔اُن کے بارے میں اکثریت کی رائے مختلف ہے ۔لیکن امریکہ صدر اوبامہ کو ایوارڈ دینے پرکئی اُنگلیاں اُٹھیں ہیں ۔اور نوبل پرائز کی حقیقت پر کچھ سیاسی چھاپ نظر آتے ہیں۔
ابتداء میں نوبل انعام کی تقسیم پر کسی طرف سے بھی اُنگلی نہیں اُٹھائی گئی تھی لیکن آہستہ آہستہ نوبل فاؤنڈیشن کے کمیٹی کے اراکین نے چند ایسے لوگوں کو نامزد کیا جو اس انعام کے حقدار نہیں تھے ۔ جس کی وجہ سے نو بل انعام پر شکوک وشبہات کا اظہارکیاگیا ۔سائنس ، اکنامکس ، میڈیسن ، لیٹریچر کے انعامات میں اور نوبل پرائز حاصل کرنے والوں پر کسی قسم کا شک وشہبے کا اظہار نہیں کیا گیا ۔لیکن امن نوبل انعام پر کئی چہ مگوئیاں ہوئیں حتیٰ کہ کمیٹی کے ممبران کو اس فیصلے پر تنقید کی وجہ سے مستعفی ہونا بھی پڑا۔

امن نوبل انعام ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ رہا ہے ۔پہلی دفعہ جب 1973 میں جب امریکہ کے ہنری کسنجر اور شمالی ویت نام کے مسٹر تھو کو امن نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا۔تو نوبل کمیٹی کے ارکان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔جس کی بناء پر کمیٹی کے ارکان کو مستعفی ہونا پڑا۔

1994 میں جب فلسطین کے یاسر عرفات اور اسرائیل کے شمون پیرز اور یتھزک رابین کی نامزدگی ہوگئی ۔ اُس وقت بھی ان نامزدگیوں کو پذیرائی نہیں ملی ۔اس نامزگی پر کافی لے دے ہوئی ۔اور ناروے کے ممبر کو اس کمیٹی سے الگ ہونا پڑا ۔ کئی اداروں نے اس نامزدگی کو قبول نہیں کیا۔

2009 میں امن نوبل انعام کا قرعہ امریکہ کے صدر بارک اوبامہ کے نام نکلا۔جس کی مخالفت میں کئی لوگوں نے منفی خیالات کا اظہار کیا۔حتیٰ کہ صدر اوبامہ نے خود بھی اپنے آپ کو اس انعام کا مستحق نہیں سمجھا۔دوسرے انعام یافتہ امریکن صدر جمی کارٹر اور الگور کو بھی شک کی نظروں سے دیکھا گیا۔اس کے علاوہ ادب اور سائنس کے دوسرے نوبل انعام بھی متنازع رہے ہیں۔ 2004 میں الفریڈ ے جیلنک کاانعام بھی تضادات کا شکاررہا۔اسی طرح یہ بھی شکایت رہی ہے ۔کہ بہت سے لیڈرجو اس کے حقدار تھے اُن کو نوبلی انعام سے محروم کیا گیا ہے جس میں گاندھی ، روز ویلٹ ، کروزن اکینو کے نام شامل ہیں۔ایک اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے ۔کہ ان انعامات کی بارش صرف یورپ اور امریکہ پر برستی ہے ۔اگر نوبل پرائز کے اعداد وشمار کا تجزیہ کیا جائے ۔ تو امریکہ کو 64 ایوارڈز کمیسٹری میں ، 51 ایوارڈز

اکنامکس میں ، 11 ایوارڈز لٹریچر میں ، 21 ایوارڈز امن کیلئے ، 88 ایوارڈز فزکس کیلئے اور 95 ایوارڈز میڈیسنز میں دئیے گئے ہیں۔ٹوٹل 338 ایوارڈزامریکن باشندوں اور اداروں کو مل چکے ہیں۔

جرمنی میں 102 افراد کو نوبل پرائز کا حق دار قرار دیا گیا ہے ۔برطانیہ میں نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی تعداد 118 ہے ۔سوئٹرزلینڈ میں 26 اشخاص کو اس انعام سے نوازا گیا ہے ۔ سویڈن میں 30 افراد نوبل انعام کے مستحق قراد دئیے جاچکے ہیں۔روس کے 27 سکالروں کو اس انعام کا حق دار قرار دیا جا چکا ہے ۔فرانس 65 ، نیدر لینڈ 19 ، جاپان میں 20 ، اٹلی 20 ، اسرائیل 10 ، بھارت 7 ، ایران 1 اور پاکستان میں صرف ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبل انعام حاصل کیاہے۔امن نوبل انعام کی فہرست میں نیلسن منڈیلا کا نام نہایت نمایاں ہے۔نیلسن منڈیلا کی کئی دہائیوں پر مشتمل قید وبند کی جدوجہدکو تسلیم کرتے ہوئے اس اعزاز سے نوازنا واقعی ایک حقیقت پسندانہ اقدام تھا۔

اعتراضات کے باوجود نوبل انعام بین الاقوامی سطح پر ایک اعلیٰ پائے کا انعام قرار دیا گیا ہے ۔اوریہ انعام وصول کرنے والے واقعی اس کے حقدار ہیں اور اُن کے کاوشوں اور علمی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اُن سکالرز کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک نہایت ہی فخر کی بات ہے ۔اس قسم کے اداروں کاقیام علم کی حوصلہ افزائی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔قوموں کی تاریخ میں اس قسم کے انعامات اور بین الاقوامی سطح پر اس کی اہمیت ایک اہم حیثیت کا حامل ہے ۔جس سے قوم کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.