ہجرت پر مجبور صفاپور کے دو دوست،شیام کول اور عبدالصمد وانی

چند روز قبل ایک دن معمول کے مطابق فیس بک میں وادی کشمیر کے سینئر صحافی یوسف جمیل کی ایک پوسٹ دیکھی جس میں وادی کشمیر کے ایک صحافی شیام کول کی وفات کی اطلاع دی گئی تھی۔کچھ یاد سا آیا لیکن یاداشت واضح نہ تھی۔میں نے یوسف جمیل صاحب کی اسی اطلاع کے نیچے شیام کول جی کے بارے میں اطلاع دینے کی درخواست کی ۔امریکہ میں مقیم ایک کشمیری خاتون نے شیام کول جی کی وفات کے حوالے سے دو انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے لنک ارسال کئے۔شیام کول کا نام میرے ذہن پہ دستک دے رہا تھا،اپنائیت کی ایک مہک سی محسوس ہوتی تھی۔آج ہی دیکھا تو ایک کشمیری دوست نے شیام کول جی کے بارے میں سرینگر سے سینئر کشمیری صحافی جناب طاہر محی الدین کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ”چٹان“ کا لنک ارسال کیا تھا۔ شیام کول جی کے بارے میںمنوھر لالگامی کے تحریر کردہ اس کالم میں ایک جگہ لکھا تھا ” شیام جی کے نام سے اپنے ہم پیشوں میں مشہور شیام کول صفاپور کے رہنے والے تھے۔“یہ جملہ پڑہنا تھا کہ یاداشت کی گمشدہ کڑیاں مل گئیں۔مجھے یاد آ گیا کہ یہ شیام کول جی میرے والد مرحوم خواجہ عبدالصمد وانی کے بچپن کے دوست تھے ۔کشمیر کے جابرانہ منقسم حصوں میں جدا رہنے کے باوجود ان کی دوستی کا سلسلہ قائم رہا۔شیام کول جی کی عمر79سال تھی اور سوگوار خاندان میں ان کی اہلیہ ،ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔ان کی بیٹی گرجا کول بھارتی روزنامہ ”ہندوستان ٹائمز“ میں ایڈیٹر نیشنل افیئرز ہیں۔منوھر لال کا لکھا کالم پڑھا تو شیام کول جی سے ایک قریبی تعلق کا احساس ہونے لگا،ان کی تصویر کوغور سے دیکھاتو ان کا کردار ان کے چہرے سے جھلکتا نظر آیا،بے ساختہ ان سے ایک دلی تعلق محسوس ہوا۔

شیام کول جی میرے والد محترم کے بچپن کے دوست تھے۔یہ بات مجھے اپنے والد کی وفات کے بعد پتہ چلی۔وانی صاحب کی وفات(31دسمبر2001ئ)کے چند دنوں بعد سرینگر سے ایک عزیز کی معرفت کسی انگریزی اخبار میں شائع ہونے والا شیام کول جی کا ایک آرٹیکل موصول ہوا۔اس کو پڑھ کر میں بچپن کے دو دوستوں کی محبت کی کہانی پڑھ کر بہت متاثر ہوا۔میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی کو 14سال کی عمر میں وادی کشمیر سے ہجرت پہ مجبورکیا گیا اور شیام کول جی کو 1990ءمیں اپنا وطن وادی کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔میں نے شیام جی کے اس کالم بعنوان ” خواجہ عبدالصمد وانی کی یادمیں،میرا بلبل کہاں گیا“ اس کا اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا۔

شیام کول کے اس کالم میں دوست کے بچھڑنے کا دکھ تھا ،کشمیر کے حسن برباد کی آہ و فغاں تھی اورایک حساس انسان کا ماتم بھی تھا۔صفا پور کے یہ دونوں دوست بعد میں ریاست کشمیر کے نامور صحافی بنے۔ شیام کول جی اس کالم میں لکھتے ہیں ، ” مجھے اس کا آخری خط 2001ءموسم گرمامیں ملا ۔اس خط میں ایسا لگا کہ صمد کو وطن کی یاد آ رہی ہے،وہ اپنے گاﺅں کی خوبصورتی کو بھولا ہے نہ اس کے خوشبودار پھولوںاور کچے پکے راستوں کو گم ہونے دیا ہے۔وانی اپنے خط میں لکھتا ہے کہ میں صفا پور کی یادوں میں کھو جاتا ہوں۔پھر لکھتا ہے ،میں اکثر سوچتا ہوں کہ آیا کبھی وہ وقت آئے گا جب ہم پھر سے اپنے گاﺅںکے ملحق چنچ ناگ،باٹا ناگ،حمام بل ناگ،چلک سیر ناگ اور دورا گف ناگ(صفاپور میں پانی کا چشمہ)ایسی جگہوں میں دوست مل بیٹھیں گے؟سہی چنار کے درخت اور وہی سبزہ ہو گا؟مجھے کورش(پہاڑ) کی یاد بھی آتی ہے جس نے صفاپور کو اپنی گود میں لیا ہوا ہے۔میں ابھی تک مانس بل اور مانس ناگ کے پانیوں کو نہیں بھولا“۔شیام کول لکھتے ہیں کہ” صفاپور میں وانی کا گھر میرے گھر سے ذرا فاصلے پر تھا۔اس کے محلے کا نام وانی محلہ تھا۔1947ءکے آس پاس وانی اور میں دونوں زیر تعلیم اور دوست تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب قبائلیوں کے حملے کے بعد شیخ عبداللہ نے اپنی حکومت قائم کی تھی۔اس حکومت نے عوام کو ریڈیو سیٹ مہیا کیئے تھے تا کہ وہ با آسانی خبریں سن سکیںپنجایت ہاﺅس میں ہم روزانہ شام کو ریڈیو سنتے تھے۔ہمارے گروپ میں خاص طور پر محی الدین میر،غلام قادر صوفی ،حبیب اللہ بدو،غلام نبی وانی،راقم اور عبدالصمد وانی شامل ہوتے۔ہم لوگ تو شیخ عبداللہ کے حامی تھے مگر عبدالصمد وانی کی یہ سوچ نہ تھی ،وہ چودھری غلام عباس کا شیدائی تھامکمل مسلم کانفرنسی تھا۔وانی کو کھیل کود سے دلچسپی نہ تھی وہ تو مطالعہ کا شوقین تھا۔صمد وانی کبھی کبھار اخبارات میں لکھتا اور اس نے اپنا قلمی نام ’بلبل‘ رکھا تھا۔اور ایک روز ہم نے سنا کہ وانی اپنے دوستوں کے ہمراہ باڈر کراس کر کے مظفر آباد پہنچ گیا ہے۔“شیام کول مزید لکھتے ہیں”وانی اگرچہ شہرت یافتہ صحافی اور معروف صحافی بن چکا تھا مگر اندر سے وہ تنہا تنہا تھا۔وہ اپنی سوچوں میں گم رہتا تھا۔وہ مجھے تحفے بھی بھیجتا رہتا تھا۔ایک بار اس نے ناصر کاظمی ایسے بڑے شاعر کے کلام پر مبنی کتب بھیجیں،اس کا ایک شعر ، میں ایسے جھمگٹے میں آ گیا ہوں ، جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے ، کیا یہ وہی صفا پور کا عبدالصمد وانی ہے؟۔“

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ کشمیریوں کا بچھڑے رہنے،اپنے وطن سے بے گھر رہنے کا سلسلہ ستم ختم ہو، آنجہانی شیام کول جی کی روح کو وائمی امن و سکون ،ان کے سوگوار خاندان کو صبر جمیل عطا کرے،آمین ۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699123 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More