بحرالعلوم حضرت مفتی عبدالمنان
اعظمی جنہیں ہم کل تک ’’صاحب قبلہ‘‘اور’’مدظلہ العالی‘‘کہہ کرپکارتے تھے آج
’’علیہ الرحمہ ‘‘کہہ کریادکرتے ہیں۔حضرت بحرالعلوم صاحب علیہ الرحمہ
بلاشبہہ بہت بڑے تھے، اتنے بڑے کہ بڑے بڑے حضرات بھی ان کے سامنے زانوے ادب
طے کرتے نظرآتے تھے ۔کہاجاتاہے کہ استاذکی پہچان شاگردسے ہوتی ہے ۔ہم جب ان
کے شاگردوں کی فہرست پرنظردوڑاتے ہیں توایسے ایسے علماکے اسماے گرام ہمارے
سامنے جگمگاجاتے ہیں جواس وقت برصغیرمیں اکابرین اہل سنت میں شمارہوتے ہیں
اورجن کے علم وفکراوربصیرت وقیادت کاطوطی پورے ہندوستان میں بولتاہے ۔فقیہہ
ملت مفتی جلا ل الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ،شیخ القرآن حضرت مولاناعبداﷲ
خا ں عزیزی علیہ الرحمہ، محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفیٰ قادری،صدرالعلماء
علامہ محمداحمدمصباحی،مفکراسلام علامہ قمرالزماں اعظمی نیزان جیسے بہت سارے
علماومشائخ دورِ حاضر کے منظرنامے میں نمایاں طورپرچمکتے دمکتے دکھائی دیتے
ہیں۔
حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ مکمل طورپراشرفیہ کے پروردہ تھے ۔انہوں نے
قاعدۂ بغدادی سے لے کرفضیلت تک پوری تعلیم اشرفیہ کے ہی صحن میں حاصل کی
اورپھرایک وقت ایسابھی آیاکہ وہ اشرفیہ میں بحیثیت مفتی اوربحیثیت شیخ
الحدیث تشریف لائے اورتقریباً پینتیس سالوں تک درس وتدریس سے وابستہ رہے
۔یہاں بیٹھ کرحضر ت بحرالعلوم نے علوم وفنون کے وہ دریابہائے کہ ہزاروں
طلبہ نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس چشمۂ شیریں سے استفادہ کیا۔کسی مفکرنے
کہاہے کہ تاج محل کی تعمیربہت آسان ہے لیکن شخصیت کی تعمیربہت مشکل ہے
۔حضرت بحرالعلوم کے ممتازشاگردو ں کاجائزہ لینے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ
انہیں یہ فن خوب آتاتھا ۔ انہوں نے اپنے طلبہ کوتراش خراش کرسیرت ،اخلاق
،کرداراوران کے عادات واطوارکوایسامنورکردیاتھا کہ آج ان کے طلبہ کے قریب
رہنے والے بھی اس روشنی سے منورہورہے ہیں ۔
امام احمدرضاقادری علیہ الرحمہ کا برصغیرکے مسلمانوں پراتناعظیم احسان ہے
کہ قیامت تک یہاں کے مسلمانوں کی گردنیں اس عظیم احسان کے بار سے خم رہیں
گی۔انہوں نے فتاویٰ رضویہ کی صورت میں عطایانبویہ کے جوانبارلگائے وہ ایک
عرصے تک منظرعام پرنہ آسکے ۔اﷲ عزوجل حضرت حافظ جی علامہ عبدالرؤف صاحب
قبلہ اور حضرت بحرالعلوم صاحب قبلہ علیہماالرحمہ کوکروٹ کروٹ جنت کی بہاریں
نصیب فرمائے کہ انہوں نے اس سمت توجہ فرماکرامتِ مسلمہ خصوصاً برصغیرکے
مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل فرمائی اورفتاوی رضویہ کی کئی جلدوں کی
ترتیبِ جدید،تذہیب ،تبیےض اورتخریج نیزفہرست سازی کی۔آج برصغیرکی شایدہی
کوئی لائبریری ایسی ہوجہاں یہ کتاب موجودنہ ہو۔میراذاتی خیال یہ ہے کہ
فتاویٰ رضویہ جیسی اہم اوروقیع کتا ب اگرکسی لائبریری میں نہیں ہے تووہ
اچھی اور بھرپور لائبریری نہیں کہی جاسکتی اورخاص کراس کاشعبۂ فقہ تواس وقت
تک ناقص اورغیرمکمل ہی رہے گاجب تک اس میں فتاویٰ رضویہ نہ ہو۔
فتاویٰ رضویہ کی ترتیب جدیداورتذہیب کاکام آسان نہ تھا ،فتاویٰ رضویہ کے
صفحات جوکرم خوردہ ہوچکے تھے اوران صفحات کی روشنائی ماندپڑچکی تھی ،ان
مقامات پرموضوع اورماسبق کے مطابق عبار ت تحریرکرناحضرت بحرالعلوم جیسے لوگ
ہی کرسکتے تھے ۔کسی ایسے ویسے کی کتاب ہوتی توآسانی سے ا س کی تذہیب وترصیع
کی جاسکتی تھی لیکن یہا ں تومعاملہ امام احمدرضاجیسے عبقری کاتھا ان کے
شایانِ شان کرم خوردہ مقام پربالکل صحیح اورمناسب عبارت تحریرکرنابڑے چیلنج
کاکام تھا ۔اس سلسلے میں حضرت بحرالعلوم نے صرف محنت ہی نہیں کی بلکہ دماغ
سوزی اورفکرکی آتش میں جل کراس کام کوپوراکردکھایااوراس پرخاروادی سے آسانی
کے ساتھ نکل آئے ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضارضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے خط(مکتوب نہیں) اورتحریروں کوپڑھناآسان کام نہ
تھا۔علمااورمفتیان کرام بھی اسے بمشکل پڑھ سکتے تھے مگرحضرت بحرالعلوم بڑی
روانی اوربرجستگی کے ساتھ اسے پڑھتے چلے جاتے تھے۔یقیناحضرت بحرالعلوم نے
اﷲ عزوجل اوراس کے حبیب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے فضل وکرم کاوافرحصہ
پایاتھا۔ برصغیرکاآج شایدہی کوئی ایسادارالافتاء ہوجہاں کے مفتیانِ کرام اس
سے استفادہ نہ کرتے ہوں۔خاص کر نوآموز مفتیوں کے لیے توفتاویٰ رضویہ سے
استفادہ کیے بغیرچارۂ کارہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے بغیرصحیح ڈھنگ سے
فتویٰ لکھ ہی نہیں سکتے۔اس جہت سے دیکھیں تو علما اورمفتیا نِ کرام پرحضرت
بحرالعلوم کایہ اتنابڑااحسان ہے جسے آسانی سے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
میں بچپن سے ہی حضرت بحرالعلوم کااسم گرامی سنتاچلاآرہاہوں لیکن دیکھنے کی
سعادت پہلی بارمبارک پورمیں ہوئی ۔الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورمیں جب داخلہ
لیاتویہ مسرت بھی ہم رکاب تھی کہ بڑے بڑے علمااورارباب قلم جوزیادہ
تراشرفیہ سے فیض یافتہ ہیں ان سب سے شرف ملاقات اورزیارت کی سعادت حاصل
ہوگی ۔حضرت بحرالعلوم اس وقت الجامعۃ الاشرفیہ میں تونہیں تھے البتہ
ہرجمعرات کوگھوسی سے اپنے وطن مبارک پورتشریف لاتے رہتے تھے ۔مبارک پورمیں
حضرت بحرالعلوم کوپہلی بارایسی حالت میں دیکھاکہ یقین ہی نہیں آیا۔حضرت
موٹرسائیکل پرسوارتھے، ہاتھ میں سوٹ کیس تھا غالباً کہیں باہرسے آئے تھے
اوران کے صاحب زادے موٹرسائیکل ڈرائیوکررہے تھے ۔اس کے بعدایک دوبارحضرت کے
صاحب زادے مولانامحمدشکیب ارسلان مصباحی کے کتب خانے ’’حق اکیڈمی‘‘میں ان
کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ان کی بے نیازی،سادگی اورگوشہ نشینی نے
مجھے ان کی شخصیت کاگرویدہ بنادیااورمیرے سطحِ دل پران کی عقیدت کی تہ جم
گئی ۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ میں ایک دوست کے ساتھ ایک بار حق اکیڈمی میں
کافیہ کی شرح تحریرسنبٹ خریدنے گیاتھا،گولک کے پاس حضرت بحرالعلوم تشریف
فرماتھے ۔ میرے کہنے پرحضرت کے پوتے نے مجھے کتاب لاکردی۔ قیمت معلوم ہونے
پرہم لوگ پس وپیش کرنے لگے۔ اس دوران نہ جانے ہم لوگوں سے کیاکوتاہی ہوگئی
کہ حضرت نے ہلکی سی خفگی کااظہارفرمایا۔ا س واقعے کی خلش میں آج تک اپنے دل
پرمحسوس کرتاہوں۔
کئی باردل میں خیال آیاکہ حضرت سے شرف ملاقات حاصل ہواوران کی باتوں سے دل
کی دنیاآبادکی جائے لیکن اب تک یہ سعادت حاصل نہ ہو سکی تھی ۔ ۲۰۰۶ء میں
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے عرس مبارک میں مبارک پورسے گھوسی
حاضرہوا۔مدرسہ اہل سنت شمس العلوم کی مسجدمیں عشاکی نمازپڑھی ۔نمازکے بعد
معلوم ہواکہ حضرت یہیں شمس العلوم کے کسی کمرے میں تشریف فرماہیں ۔میں بھی
اپنے ساتھیوں کے ساتھ حضرت کے کمرے میں پہنچ گیااوردست بوسی کرکے ایک طرف
بیٹھ گیا۔حضرت کے اردگردکئی مدارس کے طلبہ تھے اورحضرت طلبہ کونصیحت
فرمارہے تھے ۔اسی دوران ایک طالب علم نے شکایت کی کہ حضور!مجھے نسیان کامرض
ہے جوپڑھتاہوں بھول جاتاہوں۔توحضرت نے اسے قیمتی نصیحت فرماتے ہوئے حضرت
امام شافعی کایہ قول سنایا:
شکوت الیٰ وکیع سوء حفظی
فارشدنی الیٰ ترک المعاصی
واخبرنی بان العلم نور
ونوراﷲ لایھدی لعاصی
(حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذگرامی حضرت امام وکیع سے
اپنے سوے حفظ کی شکایت کی توانہوں نے مجھ سے فرمایاکہ معاصی سے اجتناب
کرواوریہ بتایاکہ علم اﷲ کانورہے اوریہ نورکسی گنہ گاربندے کوحاصل نہیں
ہوتا۔)
ممبئی میں مقیم ایک مولاناصاحب نے بتایاکہ ایک مرتبہ ممبئی کے کسی ایک جلسے
میں مقررخصوصی کسی وجہ سے نہ آسکے ،جلسے والے بہت پریشان ہوئے ۔اتفاق سے
اسی دوران حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ بسلسلۂ علاج ممبئی ہی میں قیام
پذیرتھے ۔جلسے والوں نے حضرت موصو ف سے گزارش کی توحضرت بیماری کے باوصف
بخوشی وہاں تشریف لے گئے اوربڑازبردست اورفکرانگیزخطاب فرمایا۔غالباًوہاں
تقریرموضوع ذات پات تھا ۔اس ضمن میں حضرت علیہ الرحمہ نے حضرت سلمان فارسی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاواقعہ سنایا۔ خودبھی روئے اورسامعین کوبھی خوب رلایا۔
حضرت کی زندگی کاجائزہ لینے کے بعدیہ کہاجاسکتاہے کہ ان کی پوری زندگی
کاخلاصہ صرف اورصرف کام رہاہے۔ انہوں نے جس خاموشی اور اخلاص کے ساتھ دین
کی جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں وہ دوسروں کے لیے لائق تقلید ہیں۔ عموماً
ایسا ہوتا ہے کہ کسی مفتی کی نثر اتنی خوش اسلوب، موسیقیت اور چاشنی سے
بھرپور نہیں ہوتی لیکن حضرت کے مقالات اس بات کے شاہد ہیں کہ حضرت کا اسلوب
تحریر بھی جاذبیت اور رعنائی سے معمور ہے۔ان کے خوب صورت جملے ان کی تحریر
کے چہرے پر حسن وزیبائش کاغازہ ملتے اوراسے اور چمک دار اور بامعنی بنا
دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سارے لوگ بلکہ خواص اور علمابھی ہیں کہ جو
دوسروں کی چاپلوسی کرکے اور جھوٹے القابات وخطابات سے بڑے بنتے ہیں مگر
حضرت اپنی خدمات اوراخلاق کی بنیاد پر بڑے ہیں اور اتنے بڑے ہیں کہ انہوں
نے بے شمار بڑوں کو پیدا کیا ہے۔ ان کی عاجزی اور تواضع کا یہ عالم ہے کہ
بحر العلوم کا لقب جو قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے
انہیں دیا اور حضور حافط ملت نے ان اس کی تصدیق فرمائی۔ جب حافظ ملت جیسا
فردِ کامل اس کی تصدیق فرمادے تو کسی کی کیا مجال کہ اس پر چیں بجبیں ہو
مگر حضرت بحر العلوم اس لقب کو اپنے لیے ناپسند فرماتے تھے۔ ان سے براہِ
راست استفادہ کرنے والے تو جید علما اور اکابر ہیں ہی ان استفادہ کرنے
والوں سے بھی استفادہ کرنے والوں میں ایک سے ایک جوہر قابل موجود ہیں۔
بلامبالغہ اس کی فہرست ہزاروں سے متجاوز ہے ۔ حضرت بحرالعلوم ہندوستان میں
اساتذہ کی آخری کڑی تھے۔ ہندوستان میں علم وفن اور تحریر وقلم کی دنیا میں
جن کا طوطی بولتا ہے وہ یا تو ان کے شاگرد ہیں یا ان کے شاگردوں کے شاگرد۔
یقینا وہ شجر سایہ دار تھے جو نصف صدی سے زائد عرصے تک اپنے ٹھنڈے اورگھنے
سائے سے اسلامیانِ ہند کوراحت پہنچاتے رہے۔
حضرت بحرالعلوم صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی مبارک شخصیت کاایک
پہلوتوایساہے جس پرقربان ہونے کوجی چاہتاہے ۔عصری ماحول کے جبر اور آپسی
رسہ کشی کے طوفان نے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں ،شیخان طریقت اوراحتیاط
پسندحضرات کوزبردستی دنگل میں کھڑاکردیاہے۔بات بات پرفتویٰ بازی اوراناکی
جنگ کاوہ بازار اتناگرم ہے کہ کوئی کسی کی سننے کوتیارنہیں۔اس تناظرمیں
حضرت موصوف کی وہ تنہاذات گرامی ہے جوسب سے الگ تھلگ رہی اورکسی گروپ کی
حمایت ومخالفت کیے بغیراپنے کام میں مگن رہی ۔یہاں پر’’بحرالعلوم ‘‘کے لقب
کی معنویت اپنی پوری جلوہ طرازیوں کے ساتھ سامنے آئی ۔یقیناوہ بحرالعلوم
تھے کیوں کہ جوزیادہ بھراہواہوتاہے وہ کم بولتاہے اورجوخالی ہوتاہے آوازیں
اسی سے نکلتی ہیں ۔سمندرکی گہرائی کی کوئی تھاہ نہیں مگراس کی موجوں میں
اتنااضطراب نہیں جتنا دریاکی موجوں میں ہوتاہے ۔صحیح کہاہے کسی شاعرنے
کہہ رہاہے موجِ دریاسے سمندرکاسکوت
جس کاجتناظرف ہے اتناہی وہ خموش ہے
حاشاکلایہاں کسی بزرگ یاکسی عالم دین کی توہین نہیں ہے مگرموجودہ حالات کے
منظرنامے میں حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کی اہمیت کواجاگرکرنامقصودہے۔
حضرت بحرالعلوم کی پوری زندگی یہی بتاتی ہے کہ زمانہ کچھ بھی کہے یاکرے
مگرہمیں ہمیشہ اپناکام کرتے رہناچاہیے ۔ان کی کتابِ حیات کاایک اہم سبق
تواضع اورانکساری ہے ۔ان کے بڑے ہونے کے پیچھے اگران کی تبحرعلمی کاہاتھ ہے
تووہیں ان کی تواضع اورانکساری نے بھی ان کواکبرالکبائربنایاہے ۔ بعض لوگ
صرف علم کی بنیادپربڑے ہوتے ہے اوربعض صرف اخلاق وکردارکی بنیادپرمگرحضرت
بحرالعلوم علم کی بنیادپرتوبڑے تھے ہی اخلاق ،کردار،عادت ، اطوار، انکسار
اورتواضع کی بنیاد پربھی بڑے تھے ۔حدیث مبارک من تواضع رفعہ اﷲ تعالی کی
برکتیں انہیں حاصل تھیں۔
پورے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہربھی جتنی بڑی تعدادمیں حضرت
بحرالعلوم کے شاگرد یا ان شاگردوں کے شاگردیاشاگردوں کے شاگردوں کے
شاگردہیں ،اتنے شاید کسی اور کے نہیں اور سب کسی نہ کسی جہت سے دین متین کی
خدمت لگے ہیں سب کا ثواب حضرت بحر العلوم کو پہنچتا ہے۔ مختصر طورپر کہا
جاسکتا ہے کہ حضرت بحر العلوم کی خدمات وہ خدمات ہیں جن میں ٹھہرا ہوا شباب
کبھی ڈھلنے والا نہیں۔خاص کر حضرت موصوف کے دوکام تو ایسے ہیں جو لازوال
ہیں ۔ایسالگتاہے کہ ان پر شباب آکر ٹھہر گیا ہے۔ ویسے بھی کسی بھی مصنف کی
ساری کتابیں لازوال نہیں ہوتیں ۔بیشتر کتابیں زمانۂ تصنیف کے ابتدائی دنوں
میں اپنا رختِ سفر باندھ کر کفن بردوش ہوجاتی ہیں، کچھ پروقت کی گرد جمنے
میں ذرادیر لگتی ہے، ان میں کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر وقت کی رفتار کے
ساتھ شباب آتا ہے اور ان ہی میں ایک ہی دو ایسی ہوتی ہیں جن میں شباب آکر
ٹھہر جاتا ہے۔ حضرت بحر العلوم کے فتاویٰ ’’فتاویٰ بحر العلوم‘‘اور فتاویٰ
رضویہ کی ترتیب وتہذیب،یہ دوایسے کارنامے ہیں ایسا لگتا ہے کہ شباب یہا ں
آکررک ساگیاہے، مرورِایام کے باوجودبڑھاپاانہیں پہنچ نہیں سکتا۔اﷲ عزوجل ان
کی قبر انور کو انوار وتجلیات سے بھردے اور ہمیں بھی ان کی طرح اخلاص
اوردردمندی سے خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے۔
٭مدیراعزازی ماہ نامہ سنی دعوت ا سلامی ممبئی
مدیرمسؤل ماہ نامہ پیام حرم جمداشاہی بستی یوپی |