قوم کے قائدین نے وعدے کیے کہ جب
ہم حاکم بنیں گے تو خدا کے حکم کو خدا کی سرزمین پر نافذ کریں گے ۔عہد کیا
جاتا ہے کہ خدائے ذوالجلال کا واحد قانون ہی ملک میں نا فذ ہوگا ، اور جو
شریعت اس نے اپنے محبوب نبیﷺ کے زریعے بھیجی وہی نافذ العمل ہو گی وہ عوام
کے پاس وعدوں ،اور عہدوں کے انبار لے کر آئے پختہ عہد کئے اور لاالہ الا اﷲ
کہ کر مسلمان ہونے کی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی کیے۔کہ وہ معاشرے کو
خدائے واحد کے اصولوں کے مطابق چلائیں گے۔عوام نے ان کی پکار پر لبیک کہا
اور ان کو تختِ شاہی اپنے ووٹوں کے عوض عطا کیا ۔اپنے زخم اور ناسوروں کے
مندمل ہونے کی لیئے،اپنی شخصی آزادی اور تحفظ کیلئے،بہت سی دولت اور
جائیدادوں یا دولت کے لیئے نہیں صرف روٹی کپڑا مکان اور تحفظ عزت کیلیئے ان
کو فرش سے عرش پہ بٹھا دیا مگر خود کو قوم کے مخلص کہنے والوں کے وعدے تخت
پاتے ہی اس طرح ہوا میں تحلیل ہو گئے کہ،
سپنا ہی ہو گیا،
اور قوم کی لوحِ تقدیر میں ان گنت مزید زخم کندہ کر گئے ۔ہر پانچ سال بعد
ایک نیا زخم ،ایک نیا تجربہ، اتنے تجربے تو میڈیکل والے بھی نہیں کرتے ہوں
گے جتنے تجربوں سے پاکستانی قوم گذرتی ہے ۔مگر آفرین ھے اس قوم کی ثابت
قدمی پر کہ زخم خوردہ ہونے کے با وجودپھر نیا زخم کھانے کو اٹھ کھڑی ہوتی
ہے یہ اس کی معصومیت نہیں تو اور کیا ہے ؟۔
،،، زخم کھانے پھر تیرے در پہ چلے آئے،،،
ملک میں جمہوریت،جمہوریت کا راگ الاپنے والے ہمارے لیڈران و برادران جو آپس
میں عوام کے سامنے ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے تکتے اور اوپر اوپر سے
سلطان راہی اور مصطفی قریشی بنے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دل سے آواز آرہی ہوتی
ہے ۔فکر نہ کر ادھ تیرا ادھ میرا،میرا ویر رَل کے کھانواں گے۔اور عوام کبھی
اس کے پیچھے اور کبھی اِس کے پیچھے بھاگتی نظر آتی ہے ۔ووٹوں کی پاداش میں
لیڈروں کو حکومت اور عوام کو بیروزگاری،غربت،بھوک افلاس اور ضروریاتِ زندگی
سے محرومی کے تحفے ملتے ہیں ۔اور تب وہ سوچتی ہے کہ؛
،،،بے وفا تیرے وعدوں پہ اعتبار کیوں کیا،
اور ساتھ ساتھ مسلسل اسی کرب میں مبتلا زندگی کی گاڑی کو ہانپتے کانپتے
کھینچتی چلی جاتی ہے اور کرے بھی تو کیا کرے ایسے میں ایک طرف سے بگولے
اٹھتے ھیں اور ان سے ایک جادوگر برآمد ہوتا ہے۔عوام حیرت اور دلچسپی سے
اپنی آنکھوں کے چھجے پر ہاتھ رکھ کر آنے والے شہ سوار کو دیکھتی ہے جو آتے
ہی اسے تبدیلی اور انقلاب کی نوید سناتا ہے اور ایک ایسا منشور سناتا ہے کہ
عوام کے سوختہ دل اور زخمی جگرکی تلافی اس کے علاوہ کسی اور سے ممکن نہیں
لہذا عوام نعرے لگاتی اس کے ساتھ چل پڑتی ہے ۔پھر سے خوابوں کے بیوپاری
عوام کے خوابوں کو بیچنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، سفر شروع ہوتا ہے اور ایک
سونامی کی شکل اختیار کر لیتا ہے جوشیلی اور نوجوان نسل اسے ہاتھوں ہاتھ
لیتی ہے جہا ں اس کے قدم پڑتے ہیں وہاں عوام اپنا دل اور آنکھیں بچھاتی ھے
۔اتنے میں ایک اور شور اٹھتا ہے اور کی کچھ اور ایسے لوگ آملتے ہیں ہیں جو
اس سے قبل عوام کو خوب دھکے اور ٹھوکریں مار چکے ہیں۔عوام مبہوت اور
سراسیمہ ہو کر ان کو تکتی رہ جاتی ہے۔اور اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹنے لگتا
ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ؛
،ھیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ،
تب عوام جگر تھام کے رہ جاتی یے۔ اب اس کی نظریں ایک بار پھر سے افق سے
ہویدا ہونے والی کسی نئی صبح کے منتظر ہیں کہ کوئی نجات دہندہ آئے اور اس
کے لئے نجات دہندہ ہو ۔ وہجانتی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں اسلام کا نفاذ
ہی بہتریں حل ہے ۔ سیاست اور حکومت کی وادی تو سیاسی شہ سواروں نے اپنے لئے
وقف کر رکھی ہے اور قوم ان کے سامنے ایک کٹھ پتلی ہے ۔سیاست کی تگ و دو کے
لئے مخصوص قسم کے اخلاق و ضمیر اور مزاج کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف اور صرف
دولت مندوں میں پروان چڑھتا ہے کیونکہ غریب آدمی کا معدہ اسے ہضم کرنے کی
استطاعت نہیں رکھتا ۔سیاست کا اصل جوڑ توڑ ہے اور اس میں سب سے کم حیثیت
اصول پرستی کو حاصل ہے ۔اسلام کے نفاذ کے نام پہ ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں ۔لوگ
راتوں رات ضمیر بیچ کر کرسیاں خریدتے ہیں عوام کو اسلامی نظا م کا لالچ دے
کرما رکیٹ لے جایا جاتا ہے اور بے حقیقت ووٹوں کے عوض ان کے خوابوں کا سودا
کر دیا جاتا ہے ۔اور اس منڈی میں سیاسی معزز صبح وعدہ کر تا ہے اور شام کو
تورتا ہے اور پھر ایک وعدہ good night کے ساتھ اور صبح اس سے انحراف good
morning کے ساتھ کرتے ہیں ۔بلاشبہ یہ عوام کی خدمات اور بے جا اعتماد کا
معاوضہ ہے ۔
مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری اسلام ہے اور اس وہ کسی اور بات سے بلیک میل
ہوں یا نہ ہوں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام پہ ضرور سر خم کرتے ہیں ۔اور اس
بات سے شہ سوارِ سیاست فائدہ اٹھاتے ہیں ۔یہ ملک بھی بس اﷲ کے آسرے پہ ھی
چل رہا ہے اور بے بس عوام کبھی ایک کا منہ تکتی ہے کبھی دوسرے کا ، جو وعدہ
کرتا ہے خواب دکھاتا ہے ان کا ہاتھ تھام لیتی ہے اسے اپنی آستین میں پالتی
ہے اور اپنا خون چسوا کہ مضبوط کرتی ہے اور اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا
ہے ،کہ وہ مارِآستین اسے ہی ڈس لیتا ہے ۔حق کی جنگ کا چکمہ دے کر ہڑتالیں
،جلوس اور املاک کی تباھی کروا کر حکومت کو مضبوط سے اور عوام کو غریب سے
غریب تر کر دیا جاتا ہے ۔ پس سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب اس کے ہاتھ ان کے
گریبانوں تک نہیں پہنچ سکتے جو ان سب حالات کے ذمہ دار ہیں تو وہ کیوں
انہیں تخت پہ بٹھاتی ہے ، کیوں انہیں بار بار خود کو تباہ کرنے کا موقع
دیتی ہے ۔کیا چند منافقانہ تقریریں کر کے وہ ھماری تقدیر کے مالک بن جائیں
یہ درست ہے ؟ خدارا اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور جذباتیت سے نکل کر
سوچیں آزمائے ہووں کو نہ آزمائیں چاھے وہ کتنے ہی بہروپ بدل کے سامنے آئیں
۔۔ |