ہم خواہ مخواہ شرمندہ ہیں

دنیا ہمیں لاکھ بے شرم کہے مگر سچ یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم بے حِس تو ہیں، بے شرم ہرگز نہیں۔ شرمندگی ہی تو ہے جو ہر معاملے میں ہم سے لپٹ کر رہ گئی ہے۔ محنت کرنے سے ہمیں شرم آتی ہے، علی الصباح بیدار ہونے سے ہمیں شرم آتی ہے، کسی بھی کام کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے سے ہمیں شرم آتی ہے۔ یہ شرمندگی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ کہیں کچھ پک رہا ہو تو ہمیں ہاتھ بٹاتے شرم آتی ہے۔ جب سب کچھ تیار ہو جاتا ہے تو دستر خوان پر بیٹھتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ اب ہر بات میں تو شرم اچھی نہیں ہوتی نا!

ہماری شرمندگی میں کچھ کمی لانے کی خاصی موثر کوشش برطانیہ کے ایک اسپتال نے کی ہے۔ انگلینڈ کے قصبے ریڈچ میں مشہور زمانہ یونانی فاتح الیگزینڈر سے موسوم الیگزینڈر اسپتال نے تو ہمارے دل و دماغ کو فتح کرلیا۔ یہ انگلینڈ کا واحد اسپتال ہے جس کی کارکردگی ہمیں جانی پہچانی سی لگی ہے۔ اسپتال کی انتظامیہ نے 38 خاندانوں سے معافی مانگتے ہوئے ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ کئی برسوں پر محیط مدت کے دوران اسپتال کے ڈاکٹرز اور نرسوں نے درجنوں مریضوں کی نگہداشت کے معاملے میں خاصی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ نرسوں پر الزام ہے کہ وہ بعض مریضوں پر شدید طنز کیا کرتی تھیں۔ ایک خاتون کو گیارہ ہفتوں تک اِس حالت میں رہنا پڑا کہ نرسوں نے اُنہیں نہلانے دُھلانے کی زحمت گوارا نہیں کی! ایک صاحب دو ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد بھی جانبر نہ ہوسکے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا گیا کہ اُن کی موت فاقوں سے واقع ہوئی!

برطانیہ کِسی زمانے میں سُپر پاور ہوا کرتا تھا۔ اب اُس کی کیا حالت ہوگئی ہے۔ مرزا تنقید بیگ کو بال کی کھال نکالنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ الیگزینڈر اسپتال سے متعلق خبر پڑھی تو کہنے لگے۔ ”گورے اِتنے گئے گزرے نہیں ہوسکتے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے وہاں جاکر آباد ہونے والوں نے گوروں کو بھی نا اہلی کا روگ لگا دیا ہے۔“

ہم نے عرض کیا کہ گورے بھی اِنسان ہیں۔ کوتاہی تو اُن سے بھی سرزد ہوسکتی ہے۔ مرزا کہنے لگے۔ ”اِس میں کیا شک ہے کہ گورے بھی اِنسان ہیں مگر بھئی اب وہ جس ٹائپ کے اِنسان ہوتے جا رہے ہیں اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن پر ہمارا ٹھیک ٹھاک سایا پڑگیا ہے!“

ہم نے عرض کیا مرزا! آپ سابق آقاؤں کو خواہ مخواہ گریس مارکس دے رہے ہیں۔ جو بُرا کرے وہ بُرا ہے۔ ہمارے اسپتال ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو اُن پر لعن طعن جائز ہے اور اگر گورے کوتاہی کے مرتکب ہوں تو اُس کا الزام بھی ہم اپنے سَر لیں، یہ کہاں کی دانش مندی اور انصاف ہے؟

مرزا کا جواب تھا۔ ”تم نہیں سمجھو گے۔ بر صغیر کے لوگ جہاں بھی گئے ہیں، نا اہلی کے بر اعظم ثابت ہوئے ہیں! اِنہوں نے اچھی خاصی سابق سُپر پاور کو بھی غفلت اور نا اہلی کا روگ لگادیا ہے۔ کبھی کِسی نے سوچا تھا کہ گوروں کے اسپتال ایسی غیر معیاری خدمات پیش کریں گے؟ ایک زمانہ علاج کے لیے گوروں کے دیس پہنچتا ہے۔ لوگ بے وقوف تو نہیں ہیں نا کہ بلا سبب گوروں پر بھروسہ کریں۔ کوئی بات ہے تب ہی تو لوگ گھوم پھر کر ولایت یعنی انگلینڈ پہنچتے ہیں۔“

مرزا سانس لینے رُکے تو ہم نے موقع غنیمت جان کر لقمہ دیا کہ گوروں کے دیس میں جنوبی ایشیا اور بالخصوص بر صغیر کے لوگ شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، میڈیا، سماجی خدمات، خوردہ فروشی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں بر صغیر کے لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا خوب منوایا ہے۔

اب ہم سانس لینے رُکے تو مرزا پھر برس پڑے۔ ”اِسی بات کا تو رونا ہے۔ گوروں کے پاس جو اچھائیاں تھیں وہ تو ہمارے لوگوں نے لے لیں اور اپنی تمام خرابیاں اُن کی نذر کردیں۔ یہ تبدیلی کچھ ایسے ڈھنگ سے واقع ہوئی ہے کہ گورے بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بے چارے اب تک بد حواسی کے عالم میں ہیں۔“

ذرا ”ہائٹ آف غلامی“ ملاحظہ فرمائیے! مرزا کو گوروں میں کبھی کوئی خامی اور خرابی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم جب اپنوں کے اعلیٰ معیار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ گوروں کے دیس میں ”دیسی لوگوں“ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اثرات کا رونا رونے لگتے ہیں!

ہمیں بھی یقین نہیں آتا کہ گورے اور ایسی غفلت! ہمارے سیاست دان، بیورو کریٹس، بزنس مین اور فنکار ذرا سا نزلہ زکام ہونے پر بھی لندن کی فلائٹ پکڑتے ہیں۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ وہ علاج کے لیے گوروں کے دیس کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ وہاں کے اسپتالوں میں خاصی اپنائیت بھری طبی خدمات جو میسر آتی ہیں! انگلینڈ کے اسپتال بھی اب اُنہیں اپنے اپنے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ جھڑکیاں تو ہمارے ہاں کی نرسیں بھی دیتی ہیں اور طنز بھی کرتی ہیں مگر بھئی گوری نرسوں کی جھڑکیوں اور طعنوں میں جو مزا ہے وہ ہم دیسی نرسوں میں کہاں سے لائیں؟ یعنی اپنے اسپتالوں میں غفلت برتی جائے تو پسند نہیں آتی اور گوروں کی غفلت پر بھی لوگ فدا ہوئے جاتے ہیں اور خوشی خوشی پاؤنڈ اسٹرلنگ میں بل چُکاتے ہیں! ذرا غلامی کی شان تو ملاحظہ فرمائیے! یہاں پیار سے نہلایا بھی جائے تو کوئی قدر نہیں کرتا۔ ہاں، گوروں کے اسپتالوں میں گیارہ ہفتوں تک بے نہائے دھوئے پڑے رہنا قبول و منظور ہے!

اگر انگلینڈ میں مزید تین چار اسپتال الیگزینڈر اسپتال جیسا ”معیار“ اپنالیں تو ہماری آنکھوں میں آس کے ستارے چمک اُٹھیں گے۔ ہمارے ہاں جو قومی خزانے یا عوام کو جی بھر کے لوٹتا ہے وہ علاج کے لیے گوروں کے دیس کا رخ کرتا ہے۔ کیا پتہ غریبوں کی مناجات رنگ لائیں اور اُن کی محنت کی کمائی پر ڈاکے ڈالنے والے انگلینڈ میں کسی ایسے ہی اسپتال میں گوروں کی غفلت شعاری اور نا اہلی کا شکار ہو جائیں! ولایت والوں کو ہمارا یقین کرنا چاہیے کہ ایسی کسی بھی صورت میں ہم متعلقہ اسپتال سے معافی کا مطالبہ کریں گے نہ ہرجانے کا!

یہ طے کرنا ابھی رہتا ہے کہ طبی سہولتوں کی فراہمی کے معاملے ہم گوروں کے ہم پلّہ ہوگئے ہیں یا وہ اپنے معیار کا گراف گراکر ہم سے آ مِلے ہیں! مرزا جیسے لوگ کہاں سمجھتے ہیں۔ وہ اب بھی یہی سوچ رہے ہوں گے کہ انگلینڈ کے اصل باشندوں کی نا اہلی میں بھی کوئی بات تو ہوگی! اُن کے خیال میں عین ممکن ہے کہ جسے ہم نا اہلی اور غفلت شعاری سمجھ رہے ہوں وہ اعلیٰ معیار کا کوئی ایسا درجہ ہو جہاں تک فی الحال ہمارے ذہن کی رسائی ممکن نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524807 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More