جب سے پاکستان بنا ہے اسی وقت سے
کچھ بیرونی قوتوں اورکچھ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے منافقین نے یہ ٹھان لیا
تھا کہ پاکستان کو آگے نہیں بڑھنے دینا اور آج تک انہی کے ایجنڈے کو ہم پر
مسلط کیا گیا یہی وجہ ہے آج ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے عوم غربت کی دلدل
میں دھنسی ہوئی ہے اور کمیشن مافیا ،چور اچکے اور ڈاکو اس ملک پر عوام کے
نام پر راج کررہے ہیں اور جب اپنی کشتی میں کوئی سراخ دیکھتے ہیں تو فوری
تور پر اپنے بیرونی آقاﺅں کو مداخلت کی دعوت دے دیتے ہیں اور پھر تمام
حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں اکھٹی ہو کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں
ابھی حالیہ دنوں اسلام آباد میں کامیابی سے دکھایا جانے والا قادری شوختم
ہوگیا حکومت کی اتحادی جماعتوں اور منہاج القران کے مابین لانگ مارچ
ڈیکلریشن طے پانے کے بعد لانگ مارچ ختم ہوگیا اس لانگ مارچ کے نتیجہ میں
400سے زائد افراد ہسپتال پہنچ گئے جن میں بچے ،بوڑھے اور خواتین شامل تھی
جبکہ دھرنے کے آخری روز 153 افراد ہسپتال پہنچے پولی کلینک ہسپتال منتقل
ہونے والے 95 افراد کو ایمرجنسی جبکہ 58 افراد کو او پی ڈی میں چیک کیا گیا
بیمار افراد نزلہ ، زکام ، سینے اور گلے کے انفیکشن سمیت مختلف بیماریوں
میں مبتلا تھے اس لانگ مارچ کے نتیجہ میں ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک مہرے
کے طور پر استعمال کیا گیا جس نے اپنے جوش خطابت میں کبھی کچھ بول دیا تو
کبھی کچھ اور ہی بول دیا جسکے جواب میں وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے
بھی انکی نقلیں اتار اتار کر خوب دل کی بھڑاس نکالی اور جب کنٹینر میں
دونوں بغل گیر ہوئے تو پھر ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی خوب اشارے کیے مگر ان
سب باتوں سے ہٹ کر ایک بات بہت اہم ہے کہ جب کنٹینر میں موجود ڈاکٹر طاہر
القادری خظاب کررہے تھے اورگرمی لگنا شروع ہو گئی جس پر انہوں نے اپنا کوٹ
اتار دیا اور اسی دوران دھرنا میں شریک خواتین ،مرد اور بچے سردیوں کی بارش
میں بھیگ رہے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام اب حقیقی تبدیلی کیلیے تیار
ہیں اور اس کیلیے انہیں خواہ کسی مداری کے پیچھے بھی چلنا پڑے تو وہ تیار
ہیں اور اس وقت پاکستانیوں کو ضرورت ہے کسی محب وطن شخصیت کی جو آگے آئے
اور کھلے آسمان میں ان پاکستانیوں کا ساتھ دے آخر میں کس کے حصہ میں کیا
آیا اس کیلیے میں ایک ترمیم شدہ حکایت رومی بیان کرتا ہوں جس سے کچھ نہ کچھ
منظر نامہ آپ کے سامنے بھی آئے گا -
کہتے ہیں کہ شیر ،بھڑیے اور لومڑی نے ملکر شکار کرنے کا منصوبہ بنایاتینوں
شکار کرنے کیلیے پہاڑ پر پہنچ گئے لومڑی کے ذمہ شکار تلاش کرنا تھا بھیڑے
کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شکار کو گھیر کر شیر کے پاس لائے اور شیر اسے
شکار کرلے کچھ ہی دیر میں انہوں نے ایک گائے ،ایک بکری اور ایک خرگوش شکار
کرلیے اب تقسیم کی باری تھی بھیڑیا اور لومڑی للچائی ہوئی نظروں سے شکارشدہ
جانوروں کی طرف دیکھ رہے تھے بھیڑے نے ادب سے مال غنیمت کی تقسیم کی
درخواست کی تو شیر نے کہا کہ میں تجھے منصف مقرر کرتا ہوں تو انصاف کے
تقاضے پورے کر اور اس شکار کو تقسیم کر ۔
بھیڑیا بولا: یہ گائے آپ کا حصہ ہے کیونکہ آپ بڑے اور شہہ زور ہیں ; بکری
میرے لیے ہے کیونکہ میں متوسط ہوں اور میں نے بھی بھاگ دوڑ کی ; جبکہ لومڑی
سب سے کمزور ہے اورسب سے کم خطرہ اس نے مول لیا ہے لہذا خرگوش لومڑی لے لے
۔
شیر نے اس تقسیم پر ناراضگی کا اظہار کیااور غصے میں آکر بھیڑے کو مار
ڈالاپھر شیر نے لومڑی کی طرف رخ کیا اور بولا تیری دانائی کے بڑے چرچے ہیں
لہذا تو دانائی اور انصاف سے کام لے اور شکار کی تقسیم کر دے ۔
لومڑی عاجزی سے بولی : اے جنگل کے بادشاہ انصاف تو یہ ہے کہ نیل گائے آپ کا
ناشتہ ہے ،بکری دوپہر کیلیے اور خرگوش شام کیلیے ہے ۔
شیر بولا : اے لومڑی تو نے انصاف کو روشن کردیا تو نے ایسا انصاف کس سے اور
کہاں سے سیکھا ؟
وہ بولی : اے جنگل کے بادشاہ بھیڑے کے انجام سے ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات |