میں کبھی بھی الیاس کشمیری جیسے
غیرت مند ”دہشت گرد“ کی کہانی نہ دہراﺅں اگر مجھے طاہرالقادری سمیت تمام
سیاسی اور مذہبی قیادت میں سے کسی ایک میں زیادہ نہیں تو کم از کم بھارتی
فلمی اداکاروں جتنی حب الوطنی ہی نظر آ جائے۔
یہ آج سے 13 سال پرانی بات ہے۔ 25 فروری 2000ءمیں بھارتی کمانڈوزنے آزاد
کشمیر کے گاﺅں نکیال پر حملہ کیا اور سرحد پار کر کے پاکستانی گاﺅں آ گئے ۔
وہ پوری رات اسی گاﺅں میں رہے اور 14 کشمیریوں کو شہید کر دیا ۔ ان بھارتی
فوجیوں نے پاکستانی لڑکیوں کو بھی اغوا کر لیا ۔ اگلے روز اغوا کی گئی
لڑکیوں کے سر کاٹ کر پاکستانی فوجیوں کی جانب پھینک دیے گئے۔ جس کے جواب
میں الیاس کشمیری نامی ایک جہادی کمانڈو نے اپنے 25 ساتھیوں سمیت بارڈر پار
کیا اور ان بھارتی فوجیوں کے بنکر کا محاصرہ کر لیا ۔ اپنے ایک ساتھی کے
نقصان کے بعد وہ اس بنکر کے افسر کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔
الیاس کشمیری نے اس کا سر کاٹ کر اپنے بیگ میں ڈالا اور واپس آزاد کشمیر آ
گیا۔ اس نے یہ سر پاکستانی فوج کے حوالے کر دیا اور بتایا کہ یہ اس دستے کے
افسر کا سر ہے جس نے پاکستانی سر زمین پر اپنے بوٹ رکھنے اور پاکستان کی
پاک بیٹی کو اپنے ناپاک ہاتھ لگانے کی جرات کی تھی ۔ فوج نے یہ سر اس وقت
کے چیف آف ٓرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دیا ۔ بہادری کے اس لازوال
مظاہرے پر پرویز مشرف نے الیاس کشمیری کو ایک لاکھ روپے بطورانعام دیے۔ دو
سال بعد اسی الیاس کشمیری کو پرویز مشرف نے دہشت گرد قرار دے دیا ۔ پرویز
مشرف امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی بن چکے تھے ۔ امریکا سے اس اتحاد کے بعد
الیاس کشمیری جیسے جنگجو ﺅں کودہشت گردوں کے خانے میں رکھ دیا گیا ۔ 2003
ءمیں الیاس کشمیری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر بے تحاشہ تشدد
ہوا۔بالآخرکشمیری جنگجوﺅں کے دباﺅ پر فروری 2004ء میں اسے رہا کرنا پڑا۔
الیاس کشمیری کا نام اب پاکستانی ہیرو کی بجائے ایک دہشت گرد کے طور پر لیا
جانے لگا ۔ 3 جون 2011ءکو الیاس کشمیری ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا ۔
الیاس کشمیری کی ہلاکت سے بہت پہلے یعنی2005ءمیں پاکستان اور بھارت کی جانب
سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ۔ جس کے مطابق دونوں ممالک اس بات پر
رضامند ہوگئے کہ لائن آف کنٹرول پر نئی چوکیوں کی تعمیر سمیت دیگر دفاعی
کام نہیں کیا جائے گا ۔ 2005 ءکے ان مذاکرات کے بعد سیز فائر ہوا۔ اس کے
بعد بھی ایسے بیانات سامنے آتے رہے اور جب کبھی شک ہوا کہ اس معاہدے کی
خلاف ورزی کی جارہی ہے تو عسکری قیادت کی جانب سے سرحدی فلیگ میٹنگ کی گئی۔
الیاس کشمیری کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد ملٹری حکام کو معلوم ہوا کہ بھارت
لائن آف کنٹرول کے ساتھ نئی چوکیاں تعمیر کر رہا ہے تو انہوں نے حسب معمول
فلیگ میٹنگ کی تاکہ اس معاملے کو سلجھایا جا سکے ۔اس سلسلے میںملٹری کی
اعلی قیادت نے بھی بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی ۔ ڈائریکٹر
جنرل آف ملٹری نے دو مرتبہ خود بھارتی ملٹری کے ڈائریکٹر جنرل کو فون کیا
لیکن بھارت نے یہ کہہ کر اعتراض مسترد کر دیا کہ وہ نئی چوکیاں تعمیر نہیں
کر رہا بلکہ پرانی چوکیوں کی مرمت کر رہا ہے لہذا یہ سیز فائر کے خلاف نہیں
۔ تقریبا 3 ماہ قبل پاکستانی فوج نے لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے براہ راست لائن آف
کنٹرول کی دوسری جانب تعمیرات روکنے اور سیز فائر کی خلاف ورزی نہ کرنے کی
تنبیہ کی۔ چوکیاں تعمیر کرنے والوں نے اس تنبیہ کا بھی نہ تو کوئی نوٹس لیا
اور نہ ہی کوئی جواب دینا پسند کیا ۔ بھارت مسلسل نئی چوکیاں تعمیر کرنے
میں مصروف تھا۔ یہ سیز فائر معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔پاکستان ملٹری
کی اعلی قیادت سے لے کر سرحد پار چوکیاں تعمیر کرنے والوں تک کو معاہدے کی
یاد دہانی کرا رہا تھا لیکن بھارتی ہٹ دھرمی برقرار تھی۔
سیز فائر کی خلاف ورزی اور نئی چوکیاں بنانے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر
کشیدگی بڑھ گئی اور سرحدی دستوں کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ دونوں جانب
سے ایک دوسرے پرالزامات بھی لگائے گئے۔ ایک دن بھارت نے دعوی کیا کہ
پاکستان کی جانب سے مارٹر فائرنگ کی گئی جس سے بھارتی شہری ہلاک ہو گئے ۔
ابھی تک کسی فریق نے سرحد پار نہیں کی تھی بلکہ اپنی اپنی چوکیوں سے اپنی
حدود میں رہتے ہوئے فائرنگ کر رہے تھے۔ بھارت سیز فائر کی خلاف ورزی تو کر
ہی رہا تھا لیکن اب اس نے ایک قدم آگ بڑھتے ہوئے پاکستانی سرحد پار کر لی
اور پاکستانی علاقے سوان پٹرا میں گھس کر پاکستانی دستوں پر حملہ کر دیا ۔
بھارتی فوج 30 میٹر تک پاکستانی سرحد کے اندر آ گئی جسے پاکستانی دستوں نے
واپس دھکیل دیا ۔ اس دوران ایک پاکستانی جوان شہید اور ایک زخمی ہوا ۔
بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ نے 10 جنوری کو پاکستانی موقف کی تصدیق کر دی۔ یاد
رہے کہ سرحدوں کے درمیان ایک وسیع رقبہ نو گو ایریا کے طور پر چھوڑا جاتا
ہے ۔ یہ دونوں ممالک میں شامل نہیں ہوتا ۔ افواج اس میں داخل نہیں ہوتیں ۔
جنگ کے دوران یہی نو گو ایریا میدان جنگ بنتا ہے اور دشمن کے علاقے میں
داخل ہونے سے پہلے اس نو گو ایریا کو پار کرنا ہوتا ہے ۔ اکثر اوقات افواج
اسی نو گو ایریا میں لڑتی رہتی ہیں لیکن نو گو ایریا پار نہیں ہوتا ۔
1965ءمیں جب بھارتی فوج نے بے خبری میں رات کے اندھیر میں حملہ کر کے نو گو
ایریا پار کر لیا تو بھارت کی عسکری قیادت کو یقین ہو گیا کہ اگلے روز وہ
جم خانہ لاہور میں شراب پی رہے ہوں گے۔ اس سے نو گو ایریا کی اہمیت کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ نو گو ایریا سے گزر کر سرحد پار کر لینا کھلی
جنگ سمجھی جاتی ہے ۔ بھارتی دستے پاکستانی سرحدوں کو روند کر پاکستان میں
30 میٹر تک چلے گئے اور پاک فوج کے دستوں پر حملہ کر دیا۔اگر یہ حملہ
کامیاب ہو جاتا تو بھارتی فوج کس حد تک چلی جاتی اس کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے ۔ اسی حملے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ بھارت نئی چوکیاں کیوں تعمیر
کر رہا تھا اور ان چوکیوں کا مقصد کیا تھا -
بھارتی حملے کے ایک دن بعد پاکستان کے ڈی جی ۔ ایم او نے بھارتی ڈی جی ،
ایم او کو فون کیا اور اس حملے پر شدید احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں ایک دن
بعد بھارتی حکام نے یہی الزام پاکستان پر لگا دیا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ
پاکستانی فوجیوں نے بھارتی سرحد عبور کر کے بھارتی فوج پر حملہ کیا اور دو
فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ بھارت نے مزید کہا کہ پاکستانی دستے ایک فوجی کا سر
قلم کر کے ساتھ لے گئے ۔ شاید بھارت کو فروری 2000 ءمیں الیاس کشمیری کی
جرات مندی اور قومی غیرت ابھی بھی یاد ہے۔ اسی لیے اس نے فوجی کا سر قلم
کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔9 جنوری کو ایک مرتبہ پھر دونوں ڈی جییز میں بات
ہوئی ۔ اس مرتبہ بھارتی ڈی جی نے احتجاج کیا اور بھارتی فوجی کا سر واپس
کرنے کا مطالبہ کیا۔ ۔ پاکستانی قیادت نے اس واقعہ کو بے بنیاد اور پاکستان
کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔
بھارت کو علم ہے کہ اب پاکستان میں کوئی الیاس کشمیری نہیں اور فوج لائن ٓف
کنٹرول کی پابند ہے لہذا اگر بھارت پاکستانی علاقوں میں کارروائی کرے
توسرحد پار اس کا پیچھا کرنے کوئی نہیں جائے گا۔ جب بھارتی ڈی جی پاکستان
پر جوابی الزام لگاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ پاکستان بھارتی فوجی کا سر واپس
کرے تو کاش کوئی اسے بتادیتا کہ الیاس کشمیری مارا جا چکا ہے ۔اب صرف اس کا
خوف بول رہا ہے۔ بھارت کا پاکستانی علاقے میں داخل ہو کر حملہ کرنا اسی سال
جنوری 2013 عکا واقعہ ہے ۔ پاکستانی میڈیا کی اکثریت کے لیے یہ اہم واقعہ
نہ تھا اس لیے اسے بریکنگ نیوز نہ بنایا گیا۔اس کے برعکس پورا میڈیا طاہر
القادری کو کوریج دینے میںمصروف تھا ۔ طاہر القادری کے پاس ایک قیمتی موقع
تھا کہ وہ پاکستان کے دفاع کی بات کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے
اور ہیرو بن جاتے۔ وہ ہماری فوج اور عوام کا مورال بلند کر نے میں اہم
کردار ادا کر سکتے تھے ۔مجھے دکھ ہوا کہ ریاست بچانے کی بات کرنے والے
قادری صاحب نے پاکستان پر بھارتی حملے کے خلاف ایک بیان تک نہ دیا۔ اس کے
بر عکس بھارت میں فلمی اداکار تک پاکستان کے خلاف بیان دیتے رہے ۔اپنی فوج
کا مورال بلند کرنے کے لیے بیانات کی کمپین چلائی گئی اور پاکستان کو ”سبق“
سکھانے کا کہا گیا۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ جنوری 2013 میں پاکستان پر حملے
کے وقت بھارت میں فلمی اداکار تک متحرک جبکہ ہماری ملکی قیادت اور میڈیا
خاموش تھا۔
میں کبھی بھی الیاس کشمیری جیسے غیرت مند ”دہشت گرد“ کی کہانی نہ دہراﺅں
اگر مجھے طاہرالقادری سمیت تمام سیاسی اور مذہبی قیادت میں سے کسی ایک میں
زیادہ نہیں تو کم از کم بھارتی فلمی اداکاروں جتنی حب الوطنی ہی نظر آ جائے۔ |