اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا
اور عقلِ سلیم عطا فرمائی کہ فیصلہ سوچ سمجھ سے کیا کرے اور حدیث میں آتا
ہے کہ اگر کوئی ظلم ہوتا دیکھو تو ہاتھ سے روکو، نہیں طاقت تو زبان سے اگر
یہ بھی نہیں تو دل میں تو برا کہے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے-
پاکستان جیسی ارضِ پاک اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کو عطا کی جس کے وجود
کی بنیادہی اک پاک نظریہ ہے بقول قائد اعظم رحمتہ اللہ کہ پاکستان ہم نے
صرف زمین کا ٹکڑا حاصل نہیں کیا بلکہ یہ اک اسلامک لیبارٹری ہے کہ جہاں ہم
اسلام کی آزادانہ پریکٹس کر سکیں لیکن وہ اک علیحدہ بات ہے کہ آج تک ممکن
نہ ہو سکا۔جا بجا اس ملک میں مذہبی اور سیاسی ٹھیکداروں نے اسلام کو خون کے
آنسو رولایاقوانین کو اپنی من مانی پر توڑا جوڑا، اور تفرقے کو اتنی ہوا دی
کہ ساری قوم اس ہوا کہ دوش پر آج تک سوار ہے کفر کا بارود اتنا رکھا ہوا ہے
کہ ہر اک دوسرے پر کفر کے میزائل فائر کرتا جاتا ہے اسی جنگ میں عوام نے اک
اللہ اک رسولﷺ اک قرآن ہونے کے باوجود پاکستان کے لیئے کچھ نہیں سوچا بس
اپنے مسلمان اور دوسرے کے کافر ہونے کو آج تک ثابت کرنے میں مگن ہے
اورمسلمان کوئی نہیں مل پا رہا اور غیر ملکی طاقتیں ملک کے درپے ہیں ناجانے
یہ قوم کیوں اس آگ میں کود پڑی ہے کیا یہ مسلمانوں کا بغداد میں چنگیزخان
کے ہاتھوں زوال بھول گئی اور چنگیز کی تلوار کو یہ امتیاز نہیں تھا کہ
کونسا مسلمان سنی ،شیعہ یا دیوبندی ہے اس نے تو بس قتلِ عام کیا عورتوں ،
بچوںاور بزرگوں تک کو معاف نہ کیا اب بھی وقت ہے اے مسلمان جاگ جا ہوش کے
ناخن لے کہیں ایسا نہ کہ تمارا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں کے صفحوں میں کسی
لائبریری کی الماری میں جا پڑے۔
پاکستان کو اک اور مرض بھی اندر سے کھائے جا رہا ہے وہ مرض ارضِ پاکستان کی
نااہل حکومتیں جمہوریت کا لبادہ آوڑے اس پاک وطن کو وہاں لا کھڑا کر دیا
جہاں سے آگے تباہی کی حدود شروع ہو جاتی ہیںاور پاکستانی قوم کےلیے مرضِ
کہن بن چکا ہے اک کنویں کے مینڈک کی طرح کے اُس کےلیے وہ کنواں ہی
سمندرکیوں کہ وہ اس سے باہر نکلا ہی نہیں اسی طرح ہمارے لیے یہ حکومت ہی
جمہوریت ہے ہم پر معقولہ صادق آتا ہے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا انگریز
سے آزادی لی تو ملک کے چند امیر لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئے اور اک ایسے
فرسودہ نظام میں پھنس گئے جیسے عمر قید کی سزاہوجو مرنے سے ہی ختم ہو
گی۔ہمارے ملک کا آئین صرف غریب کےلیے حرکت میں آتا ہے امیر کےلیے نہیں ۔حکمران
آئین کو اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتے ہیں مگر عوام کا آئین میں کوئی حق
نہیںآئین جائے بھاڑ میں وزیرِاعظم اسلامی جمہوریت پاکستان کوکو ئی گرفتار
نہیں کرسکتاعدالت وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کے آرڈر کا حق نہیں رکھتی سلام
پیش کریں ایسی جمہوریت کوجو آئین آئین کا شور تو کرے مگرحالت یہ ہے کہ جن
سے صوبائی عدالتیں اور سپریم کورٹ بے بس ہو کر کہیں کہ یہ حکومت کوئی
کارکردگی نہیں دکھا سکی کوئی آرڈر نہیں مانتی جہاں آپ کی اسمبلی میں
آپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ مفاہمت کر کے بیٹھی ہو اور صرف اپنے مفاد کےلیے
اپوزیشن بن جائے جیسے ابھی پوری قوم نے دیکھا کہ اپنے مفاد کو خطرہ لگا تو
سر جوڑے بیٹھ گئے جبکہ پانچ سال کسی عوامی مسلے پر یوں غور نہیں کیاوہاں
عوام کا اور ملک کا کیا حال ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
اورڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو کوئی حق نہیں کہ مطالبہ کریں کہ عبوری حکومت
غیر جانبدار بنائیں الیکشن سسٹم کو آئین کے مطابق لاگو کریںآئین کی شق نمبر
باسٹھ،تریسٹھ اور دو سو اٹھارہ کو اس کی روح کے مطابق نافذ العمل بنائیں
بہت ساری چیخیں سنائی دیںقادری صاحب آپ کیا کر رہے ہیں جو آج تک نہیں ہواآپ
اس کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ وہ آئین کی کتاب میں دفن ہیں وہیں رہنے دیںاگر اس
کو لاگو کریں گے تو الیکشن میںحصہ کون لے گا؟ لیکن بہت زور لگانے پر حکومت
نے گولی دے کر اسلام آباد کے جناح ایونیو کو خالی کروا لیا لیکن یادرہے یہ
معاہدہ اسی حکوت نے دستخط کیا جس نے چند سال قبل کہا تھا کہ معاہدہ ہی ہے
نا کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہے بہرحال اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
معاہدے پر دستخط ہو گئے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمل درآمد کیسے ہو
گاکیا الیکشن کمشن کو اتنے اختیار دیئے جائیں گے کہ وہ پولیس اور پولنگ
سٹیشن پر ملازمین کو تبدیل کر سکے چلیں یہ تو سارے ڈاکٹر قادری صاحب کے
مطالبات ہیں نا لیکن عوام سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے
اس پر عمل درآمد کیلیے اتنی مشقت اور سردی کی شدید راتوں میں کھلے آسمان
تلے بیٹھ کر احتجاج کرنا پڑا تو کیا ایسی جمہوریت جمہوریت ہے ویسے ڈاکٹر
صاحب آپ جلدی کر گئے اس معاہدے پر عمل درآمد کی ذمانت نہ آپ نے عدلیہ سے لی
نہ فوج سے آپ حُسنِ ظن پر چھوڑ گئے مگر مجھے کوئی اعتبار نہیں اس حکومت کا
بہرحال اللہ آپ کے اس کام کے قوم کےلیے سودمند اور مثبت نتائج
لائے(آمین)آخر پر مجھے حبیب جالب کی نظم یاد آ گئی شائد قوم سمجھ سکے اور
جب کوئی نمائندہ ووٹ کےلیے سبز باغ دیکھائے تو ان کے ذہن میں یہ نظم ہو۔
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لےکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا |