ہر طالب علم کے دل کی آواز : ہائے او ربا یہ پیپرز

ہر طالب علم کے خیالات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے بیان کیے جائیں گے پیپر دینے سے پہلے، دینے کے بعد اور دیتے ہوئے یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف مجھ جیسے طالبات کے خیالات ایسے ہوتے ہیں ۔ پیپرز سے پہلے سٹوڈینٹس کو اساتذہ اُن کا برا وقت ضرور یاد کراتے ہیں مطلب یہ کہ منتھلی ٹیسٹ ہمارے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے ہمیں پڑھ لینے کی نصیحت فرماتے ہیں کہ پڑھ لو کہ ابھی داخلہ ٹیسٹ، دسمبر ٹیسٹ اور سالانہ ٹیسٹ رہتے ہیں اور اگر پڑھنے کی یہی سپیڈ رہی تو پڑھ بیٹھے اقبال کے شاھین ۔ ایک لمحہ کے لئے ہم سہم جاتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں جب ہمیں ہمارا فیوچر (future) تاریک نظر آتا ہے تو ہم تھوڑا سوچتے ہیں بالکل ایسے جیسے کبھی نیوٹن نے گراؤنڈ (ground)میں گرتے سیب کے بارے میں سوچا تھا اور پھر گھبرا کر پڑھنے کا ارادہ کرتے ہیں ---------- یہ سب ہم گھر آ کرسوچ رہے ہوتے ہیں اور گھر کے کسی پُر سکون گوشہ میں براجمان ہوتے ہیں جیسا کہ ہمارا بستر یا پھر کوئی صوفہ وغیرہ------ سوچنے سے پہلے ہم آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن سوچوں کی مشکلات بھری دنیا سے گزرتے گزرتے، بھیانک خیالات کا رُخ موڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوزیشن بھی چینج (change) کرتے جاتے ہیں اور خیالات کا آخری دروازہ بند کرنے تک ہم سیدھے لیٹ چکے ہوتے ہیں نیند دور بھاگنے کی بجائے ہمارے سر پہ سو جانے کا ڈھول بجانے لگتی ہے اور ہم سنجیدگی سے پڑھنے کا عزم لئے، کتابوں میں منہ دیے نیند کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں --------------- لیکن اگلے دن طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ہم سب ارادے بھول جاتے ہیں اور روز کی وہی روٹین مگر ہر رات سونے سے پہلے ہم سنجیدگی سے اگلے دن پڑھنے کا ارادہ ضرور کرتے ہیں ۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور کلاس میں آنکھیں کھول کر سوتے ہوئے سننے والے لیکچرز بھی اپنے آخری مراحل پر ہوتے ہیں ( آنکھیں کھول کر ہی سونا پڑتا ہے نا اگر آنکھیں بند ہوں گی تو ٹیچر کھلوا دیں گی ناں وہ بھی ود(with) بےعزتی (insult)------------------------اور آخر کار پیپرز کی تاریخ فائنل ہوجاتی ہے یہ ڈیٹ شیٹ کسی وائرس کی طرح ہم پہ اثر انداز ہوتی ہے جسے دیکھتے ساتھ ہی ہمارے پتہ نہیں کہاں کہاں دردیں اُٹھنے لگتی ہیں لیکن یہ نوجوان نسل گھبرانے والوں میں سے نہیں ہے اور یہ شعر

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

ذہن میں آتے ساتھ ہم نارمل حالت میں آجاتے ہیں اور سنجیدگی سے پڑھنے کے بارے میں سوچتے ہیں اس بار بھی صرف ہم ہمیشہ کی طرح سوچتے ہی ہیں

پیپرز سے دو دن پہلے بھی کورس کی کتابیں کسی سلیپنگ پلز (sleeping pills) کا کام ہی کرتی ہیں ( ہمیشہ سے کرتی تھیں لیکن پیپرز میں ان کا اثر کچھ زیادہ ہوتا ہے ) لیکن نیند میں بھی ہم پیپر ہی solve کرتے ہیں ۔جب پیپر حل کرتے ہوئے ہمیں کچھ نہیں آتا تو نقل مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم cheating کرتے پکڑے جاتے ہیں اور ٹیچرز ہم سے پیپر کھینچ کر جب ہمیں باہر مارتے ہیں تو آواز آتی ہے کہ کیا بستر پہ سونا راس نہیں آیا ؟ جو نیچے ڈیرہ جما رکھا ہے--------- راتیں انہیں حملوں اور زلزلوں (جو ہمارے بستر سے گرنے سے آتے ہیں) میں گزرتی ہے

اگلے دن ہم ہوتے ہیں اور ہماری کتاب ۔ گھڑی کی سوئی کے ساتھ ساتھ ہمارا ہارٹ بیٹ (heart beat) کرتا ہے ۔ ہمارا دل و ش (wish) کرتا ہے کہ کوئی آ کر کہے کہ ہمارا تو پیپر ہی نہیں ہے مگر کون کہے؟-------------- دوپہر ہوئی، شام گزری اور رات آگئی بالکل کسی بمب کی طرح اور جب سلیبس پر نظر ڈالی تو لگا کہ سلیبس کی بالٹی میں سے ہم نے چُلو بھر پڑھ ڈالا اور اس سلیبس کی بالٹی سے ایسے دور رہنے کو دل چاہا جیسے کہ ایک ہائیڈرو فوبک پیشنٹ(hydrophobic patient) کا پانی کی بالٹی سے دور رہنے کو چاہتا ہے مگر دور رہنا ممکن نہ تھا آخر کار رات کو جاگ کر پڑھنے کا سوچا اور دل کو تھوڑا calm down کیا۔ رات کے 12 بجے پھر ایک، دو، تین اور وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ ہم نے بھی اب سرسری نظریں ڈالنی شروع کیں نیند نے ہمارے دماغ پر ہاوی ہونا چاہا مگر اس وقت ہم اقبال کے شاھین اور قائد کے خواب کی تعبیر بنے بیٹھے تھے اس لئے ایسا نیند کو ہم نے کرنے نہ دیا مگر یہ خیال دو منٹ بعد ضرور آئے کہ کاش کچھ ایسا ہو جائے کہ پیپر کینسل ہو جائے ہڑتال ہو جائے یا پھر پیپر لینے والوں کا ارادہ بدل جائے مگر گھڑی کو دیکھتے ساتھ ہم ہوش میں آ جاتے اور ہم پڑھتے چلے گئے اتنا پڑھا کہ ہمیں خود کو نہیں پتہ چل سکا کہ ہم نے کیا کیا پڑھ ڈالا آخر کار چھ بجے سے کچھ قبل آفتاب بھائی نے چندہ ماموں کو دھکا مارا اور اپنی sunlight زمین پر بھیجنے لگے ۔ اس وقت تک ہم اتنا پڑھ چکے تھے کہ جو صفحہ پلٹتے تو minid g کہتے I don't khow ۔ اس کے ساتھ ہی پیٹ میں بل اُٹھنے لگے اب ہمیں کالج جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج پہنچے تو بہت سی مجھ جیسی افسردہ اور پریشان حال شکلیں دکھائی دینے لگیں سب کا دل چاہ رہا تھا کہ پیپرز کینسل ہو جائیں مگر کمرہ امتحان میں جانا پڑا .ہماری ہمت جواب دے گئی اور ہم نے پیپر start ہونے سے دس منٹ پہلے book کو good bye بول دیا اور اپنی نشست پہ براجمان ہو گئے پھر وہی ہمارے دل کی wishes شروع کہ کوئی آکر بول دے پیپر نہیں ہو گا اور ہم گھر جائیں اور خوب سا پڑھ لیں پھر دماغ میں کوئی بولا کہ " پیپر post pone ہو گیا تے تُسی کیڑہ پڑھنا اے "(تو آپ نے کونسا پڑھنا ہے) کہا تو کسی نے ٹھیک ہی تھا ۔ مگر پھر بھی دل کرے کہ یہ پیپرز کبھی ہوں ہی ناں ۔

آخر کار سوالوں والا پرچہ پکڑنا ہی پڑا ہر سوال کسی bomb کی طرح ہمارے حواس پر blast ہو رہا تھا ہم نے ہمت بڑھاتے ہوئے پرچہ حل کرنا شروع کیا تو ہمیں سوالات اور وقت کا موازنہ کرنے پہ پتا چلا کہ سوالات ہیں آسمان کے تارے اور وقت ہے چاند ۔ مگر ہم بھی پورے ٹائم پر پیپر ٹیچر کو تھما کر room سے walk out کر گئے آخری پیپر تک ایسا ہی سب چلتا رہا اور آخری پیپر میم کو دیتے ہوئے لگا کہ جیسے ہماری قید ختم ہوئی ------------پھر رزلٹ کا انتظار اور مزے کی اگلی کلاس اور وہی صورت حال ----------پیپر میں وہی تھوڑی (Tension) اور اس پریشانی کا بہت اچھا سا مزہ ------------کہا جاتا ہی کہ student life بہت مزے کی ہوتی ہےمگر ہمیں کیا پتا ہم تو ابھی student ہیں-
Atia Nazir
About the Author: Atia Nazir Read More Articles by Atia Nazir: 7 Articles with 10715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.