پاک و ہند لائن آف کنٹرول پر
پاکستانی فوجیوں کے بے رحمی سے قتل کے معاملے کی جانچ پڑتال اقوامِ متحدہ
کے آبزرور مشن سے کرانے کی پاکستانی پیشکش بھی ہندوستان قبول کرنے کو تیار
نہیں،اس کی ایک خاطر خواہ وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان پاک و ہند سرحدی تنازع
کو کسی بھی طور پر بین الاقوامی مسئلہ نہیں بننے دینا چاہتا، اس کی ایک وجہ
تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب کارستانیوں میں آپ ہی لوگوں کا ہاتھ ہو
سکتا ہے جبھی تو آپ مسئلے کو عالمی فورم پر لے جانا نہیں چاہتے۔ چدم برم نے
ایک میٹنگ کے بعدیہ کہا ہے کہ ان کا کلیئر موقف ہے کہ وہ اس معاملے کو کسی
بھی طور بین الاقوامی رنگ دینے یا اقوامِ متحدہ سے اس کی تفتیش کرانے کو
بھی بالکل تیار نہیں اور پاکستانی پیشکش کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا
گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ خود اس معاملے کو دیکھے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔
اگر بھارت کا ہاتھ صاف ہے تو آپ کے پاس اسے جانے میں کیا اعتراض ہے۔ آج
پھرایک رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی شہری کو راولا کوٹ کے کنٹرول لائن پر
بے رحمانہ فائرنگ کے نتیجے میں شہید کر دیا گیا، ہند کے کچھ تجزیہ کار بھی
یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دوستی کے رشتے میں خلل ڈالنے والے چند ایسے عناصر ہو
سکتے ہیں جو دونوں ملکوں میں دوستی کے ناطے کوپِنپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
اس تجزیئے کے بعد ہندوستان کو سوچنا چاہیئے اور اس بات کی کھوج لگانی
چاہیئے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس میں ملوث ہو سکتے ہیں ، اور پہلی فرصت
میں ان عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے انہیں حرکت میں آنا چاہیئے نا کہ
الزام در الزام کی روایت کو برقرار رکھنے میں ہی وقت کا ضیاع کرتے رہنا
چاہیئے۔
دونوں طرف کے معتدل اشخاص اور لیڈروں کی بڑی کوششوں کے بعد گذشتہ سال اس
میں کچھ بہتری آئی تھی۔ اور اب روز انہ کی سطح پر کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف
دونوں ممالک سفر کر رہے تھے ، یہ کہا جا سکتا تھا کہ حالات بڑی حد تک پٹری
پر آگئے تھے۔ ایسے میں اس دوستی کے ناطے کو پٹری سے اتارنے والوں نے اپنا
کھیل شروع کر دیا تاکہ دونوں ممالک ایک بار پھر ایک دوسرے سے دور ہوجائیں۔
اس بارے میں ” امن کی آشا “ کو بھی سوچنا چاہیئے کہ کون ہے جو اس ناطے میں
دڑاڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک دہائی قبل جنگ نہ کرنے کا
معاہدہ ہوا تھا جس کی دونوں ممالک پاسداری کرتے آئے ہیں، سرحد پر حالیہ
جھڑپیں ہیڈ کوارٹرز کی سطح کا مسئلہ نہیں یہ اس سے نچلی سطح کا معاملہ ہے
اس کو دونوں طرف کے حکام مل جل کر حل کرتے رہے ہیں۔ حالیہ مسئلہ بھی جلد از
جلد حل ہو جائے تو بہتر ہے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو یہ ڈر ہے کہ
اس کو جلد از جلد حل نہ کیا گیا تو ہندوستان میں دائیں بازو کی جماعتیں اور
دیگر انتہا پسند گروپ اسے لپک لیں گے ان کی طرف سے اسے نہ صرف ایشو بنایا
جائے گا بلکہ وہ اس کو مزید پیچیدہ سطح تک لے جائیں گے ۔
ایک طرف سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امن کے علمبردار پاک و
ہند رشتوں کو استوار کرنے میں کافی کامیابی حاصل کی تھی تو دوسری طرف لائن
آف کنٹرول پر اشتعال انگیز گولہ باری اور سپاہیوں کی بے رحمانہ قتل اور
ساتھ میں شہریوں کی بے رحمانہ قتل سے تعلقات میں دراڑ پیدا ہونے لگی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے سیاستدان دونوں ممالک میں تعلقات
بڑھانے میں بار بار اپنا عزم دہراتے ہیں لیکن اسے ستم ظریقی ہی کہہ سکتے
ہیں کہ تعلقات کو بگاڑنے میں کچھ ایسی طاقتیں بھی لگی ہوئی ہیں جو دونوں
ملکوں کو اچھے دوست کی طرح دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ حال ہی میں جنوبی
ایشیاءکے تین سو سے زائد نامور صحافیوں کی ایک میٹنگ امرتسر اور لاہور میں
منعقد ہوئی تھی جس میں سول سوسائٹی کے کارکنوں نے اس بات پر زور دیا کہ
مستحکم اور مضبوط تعلقات ہی دونوں ملکوں کو اپنے مسائل کو پُر امن طریقے سے
حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اسلام آباد تو یہ بات بار ہا باور کرا رہا ہے کہ مسئلے کی تحقیقات اقوامِ
متحدہ یا تیسرے فریق سے کرایا جائے مگر اس تجویز پر حکومتِ ہند کوئی خاص
توجہ دینے کو تیار نہیں، اگر ہندوستان بین الاقوامی ثالثی کی پیشکش کو قبول
کر لیتا ہے تو ویل اینڈ گُڈ، وگرنہ دونوں کو اپنے باہمی معاملات کو سفارتی
طریقے سے ہی حل کیا جائے گا۔ جب کشیدگی چل رہی تھی تو اسی وقت امن کی آشا
کے تحت پاکستانی اسکالر، سیاست دان اور دانشور اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کے
ساتھ تعلقات کو بڑھانے کیلئے پر میٹنگ کر رہے تھے۔ اس میں ایک بھارتی وزیرِ
مملکت اور ایک بولی ووڈ کے ڈائریکٹر سمیت کئی اور دوسرے سطح کے لوگ بھی
موجود تھے، پاکستان سے سابق وزیر جاوید جبار اور نجم سیٹھی اور دوسرے
دانشور بھی شرکت کر رہے تھے اس سے یہ بات تو صاف ہے کہ دونوں ملکوں میں سول
سوسائٹی آپسی بھائی چارہ کو بڑھاوا دینے میں پُر عزم ہیں حالانکہ انہیں اس
بات کا علم بھی ہے کہ اس عمل میں ان سب کو کئی اقسام کی دشواریاں بھی پیش
آئیں گی۔
ہمیشہ سے ہندوستان کی بائیں بازو کی ایک جماعت شیو شینا کا یہ روایت رہا ہے
کہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں کھیلنے کے حوالے سے دھمکیاں دیتے
رہتے ہیں، کبھی کرکٹ کے کھلاڑیوں کو تو کبھی کبڈی کے کھلاڑیوں کو، رواں
دنوں میں ہاکی کے کھلاڑیوں کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ وہاں ہاکی کی
سریز جاری ہے۔اور بالآخر ہمارے ہاکی کے کھلاڑیوں کو اس ایونٹ سے نکال دیا
گیا ہے۔ دوستی کے سفر پر گامزن دونوں ملکوں کا یہ سفر تو جاری ہے مگر اس
طرح کے ہتھکنڈوں اور یہ ہتھکنڈے تیار کرنے والی جماعت کو بھی لگام دینا بے
حد ضروری ہے کہ جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی کی فضا پروان چڑھتی
ہیں۔ پڑوسیوں کو اس بارے میں بھی خاص خیال رکھنا چاہیئے، کیونکہ پاکستان
چاہتا ہے کہ ان کے کھلاڑی ہمارے یہاں آکر کھیلیں اور اُن کے یہاں ہمارے
کھیلنے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں، آپ اس تضاد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کی سرحدوں پر دو طرفہ جھڑپوں سے ایک بار پھر حالات بگڑنے پر
امریکہ نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان میں دائیں بازو کی جماعتیں
بھی کچھ حد تک پاکستان اور بھارت کے ساتھ دوستی کو پروان چڑھتا نہیں دیکھنا
چاہتیں، بیانات سے حالات بہتر کم ہوتے ہیں اس سنجیدہ معاملے پر عملی
اقدامات کی ضرورت ہے ، امید ہے کہ دونوں ملک کے کرتا دھرتا افراد جلد اس
مسئلے کو سلجھانے کے لئے حرکت میں آئیں گے۔ اس لئے ہندوستان کو بھی اپنے
ملک میں ہندو تواوادی فاشسٹ جماعتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع دیئے بغیر
مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی
چاہیئے کہ وہ خلوصِ دل سے سرحد پر امن و امان کو یقینی بنائے۔ یہ بات کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دونوں ممالک نیوکلیائی طاقتیں ہیں اور ان کے
درمیان تین بار جنگ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی کی
رفتار بری طرح متاثر ہو چکی ہے لہٰذا اب دونوں ملکوں کے درمیان امن کی
کوششوں کیلئے تو جگہ ہے مگر ایک اور جنگ کی بالکل گنجائش نہیں۔ |