دراصل مولانافضل الرحمٰن کی
شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان
سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق ، ایک
متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور
ایک بےباک مجاہد بیک وقت جمع ہیں۔ ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی
وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے
اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع
شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ
اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
دوسری قسم کی شخصیتیں وہ ہوتی ہے کہ جنکی عظمت انکے سوانح نگاروں کو بھی
شہرت وعظمت کے مقام پر لا مقام کھڑاکرتی ہے۔شخصیت نگار کو کسی حسین شخصیت
کے حسن سے بھرپور حصہ ملتا ہے۔ اسکی مثال مولانافضل الرحمٰن کی شخصیت کو
پیش کیا جاسکتا ہے۔ مولانافضل الرحمٰن کی شخصیت میں بہت ہی غیر معمولی
اہمیت کیوں پیدا ہوگئی ؟ سچ یہ ہے کہ زرنگارقبائیں دیکھ کرنگاہ کتنے مواقع
پر بہکی ہوگی مگر وائے ناکامی کہ ان قباﺅں میں انسان کم ہی ملا۔فرمانرواﺅں
کے طنطنے دیکھے، ادیبوں کے چمنستان ہائے نگارش دیکھے، شعراءکی زمزمہ سنجیوں
سے استفادہ کیا، جادو بیان خطیبوں کی طلاقت لسانی کے شعبدے دیکھے ، اہل علم
کی نکتہ آفرینیوں سے بہرہ پایا ، مذہبی شخصیتوں کو عقائد واحکام کی و ضاحت
کرتے اور وایمان کی فیصلے کرتے دیکھا مگر کم ہی ایسا ہوا کہ انسانیت کے حسن
سے دامن نگاہ بھرا ہو۔
مگر مولانافضل الرحمٰن کے اندر انسان کو موجود پایا،اسے انسان عظیم
پایا۔۔مولانا کی عظمت تاریخی لحاظ سے یہ ہے کہ اس نے حالات کے دھارے پر
بہنے والے انبوہ ہائے کثیر کے بالمقابل دھارے سے لڑنے کا مسلک اختیار کیا
ہے ۔ بہنے والے وہ بھی ہیں جو پانی پر شکوہ تخت بچھائے بہہ رہے ہیں ۔ وہ
بھی جو خوبصورت بجروں میں بہہ رہے ہیں اور وہ بھی جو غوطے کھا کر بہہ رہے
ہیں، یہ بہنے والے ایک ایک کرکے ڈوب بھی رہے ہیں۔ مادہ پرستی کے اس طوفان
مغرب میں جو قیمتی عنصر دھار کیخلاف لڑرہا ہے یا کم سے کم قدم جمائے کھڑا
ہے یا کھڑ ارہنے کی سعی کر رہا ہے اسکے درمیان قائد جمعیت مولانا فضل
الرحمان کو ایک منفرد امتیازی مقام حاصل ہے۔ کیونکہ وہ وقت کی ہوا کیساتھ
چلنے پر ایک لمحہ کیلئے کبھی راضی نہیں ہوئے بلکہ برابر ہوا کا رخ بدلنے
کیلئے کوشاں ہیں۔ مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں۔
در اصل کسی دینی ملت کی ساری زندگی کشمکش کی زندگی ہو تی ہے کیونکہ اسے ایک
واضح عقیدہ اور ایک معینہ ضابطہ کے تحت پورے تمدن کو چلانا ہوتا ہے مگر
حالات کی ہوائیں موافق ہی نہیں ، مخلف ہوکر بھی چلتی ہے۔ مخالف ہواﺅں کے
چلنے پر سفینہ تمدن کا رخ اپنے نصب العین کی طرف رکھنا ایک کٹھن کام ہے۔
یہی کٹھن فریضہ ملت اسلامیہ کے سر عائد ہے یہ فریضہ خلافت راشدہ کے دور تک
ملت اسلامیہ نے بخوبی سر انجام دیا مگر بعد بدلتے حالات کا مقابلہ کما حقہ
جاری نہ رہا۔ ایک اصولی نظام کا رخ تاریخ کس قدر موڑ لی گئی مسلمانوں پر
ماضی میں ایسے دو بڑے خوفناک دور آئے۔ ایک عباسی دور ، دوسرے سلطنت مغلیہ
میں اکبر کا دور۔۔۔۔ ان دونوں موقعوں پر جو قوت سفینہ ملت کی ناخدائی کررہی
تھی وہ طوفانی ہواﺅں اور موجوں کے سامنے خم کھاگئی اور ان دونوں مو قعوں پر
طوفان سے لڑنے اور نظریہ اصول کو بحال رکھنے کی سعادت ان مردان خدا کے حصے
میں آئی جنکے پاس ایمان، علم اور کردار کے سوا کوئی طاقت نہ تھی۔ اور اب
تیسرا سنگین ترین دور درپیش ہے جسمیں باہر سے فکری ، سیاسی اور ثقافتی
یلغار کے اثرات کا طوفان خطرناک رفتار سے پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں
لے رہا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے اور ان میں سے اٹھے ہوئے ارباب قیادت جن
پر قلعہ کے بچاﺅ کے زمہ داری عائد ہوتی ہے امریکہ کی زہنی غلامی کے روگ نے
ان سے تاب مقاومت سلب کرلی ہے اور وہ ہنستے مسکراتے اور خوش آمدید کہتے
ہوئے کنجیاں دشمن کے حوالے کررہے ہیں۔عالم وہ ہوگیا ہے۔
یہی وہ خطرناک مرحلہ تھا جس کیلئے اقبال نے یہ احساس قوم کو دلانا چاہا تھا
کہ تم میدان جنگ میں ہو اور یہ موقعہ نوائے جنگ سے لطف اندوز کا نہیں بلکہ
اس مرد خونگر نے دور حاضر کی خلاف اس بھروسے پر اعلان جنگ بھی کردیا تھا کہ
قوم کے نوجوان اسکے اعلان پر صف بستہ ہوجائےں گے ۔آج اگر وہ نغمہ طراز جہاد
اٹھ کے دیکھے کہ اسکے شاہین وعقاب کس شان سے پسپا ہوتے ہیں تو اپنے رجز کو
واپس لیکر شائد وہ مرثیہ پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔ بہر حال اقبال کے اعلان
جنگ کی لاج رکھی تو مولانا فضل الرحمان نے خودہی تہذیبی و فکری اور سیاسی
جنگاہ میں سینہ سپر نہیں ہوئے بلکہ قوم کے اندر سے جید اور صاحب کردار عنصر
کو اپنے گرد سمیٹا اور آج اگر معرکہ گرم ہے تو اس شخص کے دم سے۔۔۔۔!
مولانا فضل الرحمان نے اس کوشش میں اپنی پوری صلاحیتیں کھپادی ہیں کہ حالات
کے سامنے جھک کر اپنے اصولوں کو مسخ کرنے کے بجائے ہم اصولوں کو قائم رکھنے
کیلئے حالات سے جنگ کریں ۔ اسلام کو ہم اپنی سہل طلبی کی وجہ سے تاریخ کے
دھارے کے تابع نہ کردیں بلکہ تاریخ کو تابع کردیںکہ وہ اسلام کے
منشاءکیمطابق رہے ۔ مولانا کا مشن یہ ہے کہ ہم امریکی تہذیب وسیاست اور
مغربیت کے سانچے میں آرام سے نہ ڈھل جائیں بلکہ امریکی نظام اور مغربیت کے
مقابل میں اسلامی نظریہ حیات و تہذیب بر پا کریں۔ درحقیقت اپنی خودی کے
تحفظ اور اپنی ہستی کے بازیافت کا پیغام ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اسلام کو انفرادی مذہب کی حیثیت سے نہیں پوری زندگی
کے بہترین نظام عدل کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے اور بے شمار دلوں کو اسکی
بہتری کے اعتراف پر مجبور کردیا ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں اس نظام کو عملا
قائم کرنے کی جدوجہد کیلئے نوجوان طاقت کو اٹھا کھڑا کیا ہے ۔ مولانا فضل
الرحمان نے قوم کو پکار لبیک کہنے والوں کو جمع کیا ،ان کو جماعتی نظم میں
پرو یا ، ان کی تربیت کی ، نصب العین کیلئے ان کو وقت ، قوی اور مال کی
قربانی کا درس دیا، ان کو سیاسی وعمرانی مسائل کو گہرا شعور دیا، ان کو
مفاد کی کشمکش سے بے نیاز رہ کر زندگیوں کو انسانی اور ملکی خدمات کیلئے
وقف رکھنے کا جذبہ دیا پھر اس بھم شدہ قوت کے بل پر ایک طرف الحاد پسند
امریکہ ، مغرب پرست اور جاہ طلب عناصر کی مزاحمت نظریاتی اور سیاسی میدانوں
میں جاری رکھی دوسری طرف ملک کے عوام کو اسلامی نظام کیلئے تیار کرنے کی
مہم چلائی ۔ وقت کے مسائل سے جمہور کو آگاہ رکھنے کیلئے دینی مدارس اور
جمعیت سے وابستہ سلجھے ہوئے خطیبوں اور مقررین کی ایک بہت بڑی ٹیم میدان
میں اتاری نوجوان طلبہ کو کو الحاد ، کمیونزم اور مغربیت کا مقابلہ تعلیمی
دائروں میں کرنے کیلئے خطوط کا بہم پہنچائے اور ان کو تربیت دی۔
بد قسمتی سے مولانا کو نہایت گٹھیا حریفوں سے سابقہ پڑا اور زمانے نے اس
داعی اصلاح و فلاح اور داعی جہاد کا خیر مقدم اولا غالیوں ، پھبتیوں الزام
تراشیوں اور اتہام و بہتان سے کیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک برابر
جاری رہا ہے قید وبند کے دور آئے ، ظلم وجور کی یہ بھٹی ہر داعی کیلئے گرم
کی جاتی ہے کیونکہ بغیر اس سے گذارے کھرے کھوٹے کھونے کا امتیاز نہیں
ہوسکتا۔ اسی لئے عشق کی نگری کا دستور یہ ہے کلمہ خیر کہئے اور گالیاں
کھائے ۔ پھول برسائے اور کانٹوں سے دامن بھرئیے ، موتی لٹائے ، اور پتھر
کھائیے، بے لوث خدمت کیجئےاور مجرم ٹھرئیے راستی کی مسلک پر چلئے اور تعزیر
بھگتئے ۔ مولانا کی شخصیت بفضلہٰ تعالیٰ ان تمام بھٹیوں سے گزر کر کندن بن
چکی ہے اور آج امتحان بلا کی لذت کشی نے ایسی صورت پیدا کردی ہے کہ مولانا
فضل الرحمان راہ حق کی علامت ٹھرئیے ہیں ۔
عینی مشاہدہ ہے کہ صد ہائے لوگ آتے ہیں ، ایک نظر میں مولانا فضل الرحمان
کو دیکھتے ہی اور بس اتنے ہی سے ان کی امیدیں امنگیں اور ہمتیں استوار ہو
جاتی ہیں ۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ تجدید و احیائے اسلام کاکام اس تاریک ترین
دور میں میں بھی ہوسکتا ہے ۔ انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ رات کتنی لمبی ہو اس
کی کوکھ سے صبح ضرور جنم لے گی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مولانا کے
اندر جو انسان عظیم پایا جاتا ہے وہ بحیثیت انسان کشمکش اور امتحان ہی کے
مراحل میں نہیں بلکہ غیر معمولی درجے کی شہرت واعزاز کے درمیان بھی برابر
حسن پاش رہاہے ۔ انکی طرف سے کسی کو کچھ بھی گٹھیا پن کا تجربہ نہیں ہوا۔
بعض نے انہیں نظر انداز کرنا چاہا گویا وہ موجود ہی نہیں ۔ انہوں نے اس سے
آنکھیں بند کرلیں لیکن انکے مساموںکو بھی دکھائی دیا کہ ایک کوہ گراں سامنے
کھڑا ہے اور یہ تردید نہیں کی جاسکتی کہ وہ موجود نہیں ہے یا وہ محص ایک
ذرہ ناچیز ہے۔ بعض نے بہت اونچی مسندیں بچھا کر مصنوعی مناصب کی بلندیوں سے
انہیں دیکھا کہ شائد اس طرح انکے مقابلے میں پست رہ جائے گا مگر اس سر بلند
وبالا کی قامت کوتاہ نہ ہوسکی۔ ایسی درخشاں شخصیت کی سوانح نگاری یا شخصیت
نگاری کی ذمہ داری اٹھانے والوں کیلئے ایک اہم کام یہ ہے کہ انکی شخصیت کا
مرتبہ اور مقام اور موقف واضح کریں۔ ہونے کو یہ کام از خود ہورہاہے اور ایک
شمع روشن کے گرد جتنا بھی غبار کیوں نہ پھیلا رہے وہ اپنے تعارف کیلئے اسکی
محتاج نہیں ہوتی کہ کوئی قصیدہ خواں یہ بیان کرے کہ یہ شمع ہے اور اسکی
روشنی بھی ہے ۔ سو مولانا فضل الرحمان کیلئے بھی ان کا اپنا ایمان وکردار
ان کا مقام متعین کرنے کیلئے کافی ہے ۔ مگر معاصرت زدہ عناصر (خصوصا سیاسی
حلقے) جب کسی کام کے آدمی کے گرد غلط فہمیوںکا غبار پھیلا دیتے ہیں تو بہت
سے لوگ استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں تا آنکہ حقیقت خود ان پر آشکار
ہوا۔
بڑا سوال یہ ہے کہ معاشرے میں تاریخ میں اور اپنے دور میں ان کی جگہ کیا ہے
؟ معاشرے میں لوگوں نے انہیں زیادہ سے زیادہ علما ءکی صفوں میں جگہ دی ہیں
۔ تاریخ کشاکش کے لحاظ سے انہیں حریفوں نے ایک اقتدار طلب شخصیت کے رنگ میں
دیکھانا چاہا ہے اور دور کے لحاظ سے انہیں بیرونی اور اندرونی مخالفین نے
مغرب کے اسلام دشمن پروپیگنڈہ کی مروجہ اصطلاح کی مطابق ایک قدامت پسند اور
رجعتی شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ معاشرے کے موجودہ طبقوں میں
کسی بھی مقام پر مولانا کی ذات پوری طرح نصب نہیں ہوتی ان کیلئے ایک نئی
جگہ درکار ہے کیونکہ وہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں طبقوں کے درمیان
قوم وملت کیلئے ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے کھڑے ہیں ۔ تاریخی کشمکش کے
لحاظ سے وہ اسلامی نظریہ اور اصولوں کی بالا دستی عطاءکرنے کیلئے کوشاں ہے
۔ امریکی معبودیت اور مادیت کا طلسم توڑ کر انسانیت کے لازوال اخلاقی قدروں
پر تمدن کی بنیاد رکھنے کے خواہاں ہے ۔ مگر کم لوگ اور مخالفین میں میںتو
بہت ہی کم لوگ انکے صحیح مقام کو جان سکتے ہیں ۔ |