پروفیسر مظہر
کرپشن ، مہنگائی ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، خود کُش حملوں اور بم دھماکوں
کے باوجود ارضِ وطن کی فضاؤں میں امیدوں اور آشاؤں کی توانا کرنیں پھوٹتی
دکھائی دیتی ہیں ۔بیباک میڈیا اور آزاد عدلیہ نے اذہان و قلوب کے دھندلے
آئینوں کو یوں صیقل کیا ہے کہ اب ان میں ہر کسی کا باطنی عکس دکھائی دینے
لگا ہے ۔شعور کے نور نے شبِ تار میں دراڑیں ڈال دیں اور وہ دَور لد گیا جب
مایوسیوں کی ”بُکل“ مارے یہ قوم کہا کرتی تھی کہ
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
لاریب یہ اُن ہزاروں شہیدوں کے لہو کی کرشمہ سازی ہے جس نے وطن کی مٹی کو
بھگو کر ہمیں شعور اور آگہی کی اِس منزل تک پہپنچایا اور ہماری کچھ کر
گزرنے کی اُمنگوں کو پھر سے جوان کر دیا ۔
گھر گھر میں صفِ ماتم بچھی اور در در پہ نوحہ خوانی ہوتی رہی لیکن فراعینِ
وقت اپنی ذات کے گنبد میں گُم رہے ۔لہو ٹپکتا رہا ، جمتا رہا اورپھر جمتے
لہو کا پہاڑ کھڑا ہو گیا اور اب اسی پہاڑ کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی نور کی
کرنیں زمینی خُداؤں کو للکاررہی ہیں ۔قوم نے اپنے پیاروں کے ہزاروں لاشے
اُٹھائے اور تقدیر پہ شاکر ہو کر اُنہیں دھرتی کی کوکھ میں چھپا دیا لیکن
جب ضبط کے سارے بندھن ٹوٹے تو پھر چشمِ فلک نے وہ عجب نظارہ دیکھا جسے
تاریخ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی ۔آفرین ہے اُن ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں
اور بوڑھوں کے حوصلے پر جنہوں نے اپنے وجود کے ٹکڑوں کو سڑک پر سجا کر
قبرستانوں کا سا خاموش احتجاج کرکے پوری دُنیا کو لرزا دیا ۔کسی اورمیں
بھلا اتنی سکت اور تاب و تواںکہاں جو وہ لہو جماتی سردی میں کھُلے آسمان کے
نیچے کفن میں لپٹے اپنے پیاروں کو تکتے تکتے اسّی گھنٹے گزار دے ۔تاریخ
اُدھیڑ کے رکھ دیجئے ،آپ کو ایسا دلدوز ، اندوہناک اور کربناک احتجاج کہیں
نہیں ملے گا۔تحقیق کہ اگر بوکھلائے ہوئے حکمران گورنر راج کا اعلان نہ کرتے
تو انقلاب آتا ۔۔۔ خونی انقلاب ، جس میں یہ سبھی غرق ہو جاتے ۔انقلاب تو
خیراب بھی آئے گا کہ ”شہدائے کوئٹہ“ نے انقلاب کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے
البتہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ عوام یہ انقلاب ووٹ کی طاقت سے لائیں گے یا
سروں کی فصل کاٹ کے ۔
چشمِ بینا دیکھ رہی ہے کہ دورِ گراں خوابی گزر چکا اور وہ وقت قریب لگا ہے
کہ
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔
انگڑائی لے کر بیدار ہونے والی حق و صداقت کی آندھیوںنے ہر مقہور کے ذہن
میں یہ الفاظ رکھ دیئے ہیں کہ ہماری ماؤں نے ہمیں غلام نہیں جنا، نہ ہم
سدھائے ہوئے بندر ہیں جو ہر صاحبِ مکر و ریا کی ڈُگڈی پر ناچنے لگیں ۔منزل
قریب آ لگی تو کچھ شعبدہ باز اپنے کرتب دکھانے میدان میں اُتر آئے
۔حکمرانوں کو تو گزرے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہی ہو گااور قوم بد
دیانتوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھیکنے کے لئے بیتاب بھی ہے لیکن اِن
”درآمدی رہزنوں“ کے ذہنوں میں چھُپے زہر سے آگہی بھی ضروری ہے ۔اہالیانِ
فکر و نظر اور صاحبانِ بصارت و بصیرت کا فرض ہے کہ وہ دھرتی ماں کا قرض
اتارتے ہوئے قوم کو آگاہ کریںکہ یہ نو وارد جو یک سو قوم میں تفرقہ ڈالنے
آئے ہیں منصورِ حقیقت نہیں ابنِ ابی ہیںاور حسینیت کا پرچار کرنے والے در
اصل یزیدیت کے علمبردار ہیں کہ خلفائے راشدین کا نظام لوٹانے کا دعویٰ کرنے
والے کبھی بارہ بارہ کروڑ لاگت کے بُلٹ پروف اور بم پروف کنٹینروں میں سفر
کرتے ہیں نہ بُلٹ پروف لینڈ کروزروں میں ۔تینوں خلفائے راشدین نے یکے بعد
دیگرے شہادت قبول کر لی لیکن بیت المال سے اپنی حفاظت کے لئے ایک درہم بھی
صرف کرنا گوارا نہ کیا ۔لیکن یہ غیر ملکی مولوی موت کے خوف سے لرزہ براندام
چوہے کی طرح اپنے بُلٹ پروف بِل میں گھُسا بیٹھا ہے ۔اُس شعبدہ باز نے لانگ
مارچ سے پہلے اپنی وصیت لکھوائی حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اُس پر خود کُش
حملے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خود کُش حملہ حکیم اللہ محسود کے
حکم سے ہونا ہے اور حکیم اللہ امریکی ایجنٹ جبکہ مولوی امریکہ کا چہیتا اور
دونوں کا مقصد اور ایجنڈا ایک ، انارکی اور صرف انارکی ۔میں نے اپنے پچھلے
کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہر طالبان
کمانڈر کو حکیم اللہ کی مخبری پر ڈرون کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔کالم کی
اشاعت کے اگلے ہی روز جنوبی وزیرستان کے کمانڈر مُلّا نذیر کو ڈرون کی غذا
بنا دیا گیا ۔مُلّا نذیر کے بارے میں ہماری ایجنسیاں ہی نہیں بلکہ بہت سے
واقفانِ حال بھی جانتے تھے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کا جذباتی حامی تھا اور
اسی بنا پر اُس کے حکیم اللہ محسود سے شدید اختلافات بھی پیدا ہو چکے تھے ۔
جب کروڑوں ڈالرز سالانہ کی سیکولر دانشوروں اور این جی اوز پر سرمایہ کاری
کے باوجود امریکہ حصولِ مقصد میں ناکام رہا تو اسے بھی ادراک ہو گیا کہ
پاکستان کے دین سے والہانہ محبت کرنے والے مسلمانوں کے لیے یہ سیکولر
دانشور اور این جی اوز، ناکافی ہیں ۔تبھی اُس نے ایک ایسا مولوی بھیجنے کا
فیصلہ کیا جو دینِ اسلام کی وہی تشریح کرتا ہے جو امریکہ کو مرغوب ہے ۔میرا
دین تو جھوٹے پر ہزار لعنت بھیجتا ہے لیکن اِس”مسیلمہ کذاب “ کی پوری زندگی
ہی جھوٹ سے عبارت ہے ۔اُس نے پہلے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے مجمعے کو پچیس لاکھ
اور پچیس میل تک پھیلا دیا اور اب جب کہ خفیہ ایجنسیاں اور سارا میڈیا چیخ
رہا ہے کہ لانگ مارچ کا مجمع کسی بھی صورت میں چالیس ،پینتالیس ہزار سے
زیادہ نہیں تو مولوی صاحب اسے چالیس لاکھ قرار دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی
کہ ابھی دس لاکھ لوگ پیدل بھی آ رہے ہیں ۔جب لانگ مارچ کے شرکاءکی تعداد دس
سے پندرہ ہزار رپورٹ کی جا رہی تھی تب ایک ٹاک شو میں منہاج القرآن کے
ترجمان ریاض قریشی نے یہ تعداد ایک لاکھ بتائی اور عین اسی وقت مولوی صاحب
یہ تعداد دس لاکھ بتا رہے تھے ۔مولوی صاحب سے اندھی عقیدت میں گُم اس کے
پیرو کاروں کو عقلِ سلیم کا تھوڑا سا استعمال کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ
کیا دینِ مبیں کے علمبردار اتنے جھوٹے بھی ہوا کرتے ہیں؟۔انہیں یہ بھی مدّ
ِ نظر رکھنا ہو گا کہ
قول کے کچے لوگوں سے نسبت پر کیسا ناز
دھوبی کے کُتّے کا کیا ہے ،جس کا گھر نہ گھاٹ
جو شخص تیئیس دسمبر سے اب تک سینکڑوں بار اپنے بیانات بدل چکا ہو ، حکومت
سے تحریری معاہدہ کرکے مکر چکا ہو اور جس کے قول و فعل میں تضاد ہی تضاد ہو
اسے دینِ مبیں کا علمبردار کہنا بذاتِ خود گناہِ کبیرہ ہے ۔مولوی صاحب نے
اعلان فرمایا ہے کہ صدر ،وزیرِ اعظم اور وزراءسابق ہو گئے ، اسمبلیاں ختم
ہو چکیں اور اب سفرِ انقلاب شروع ہو گیا ۔اُس نے زرداری ، پرویز اشرف ،نواز
شریف اور اسفند یار ولی کو قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے کا حکم بھی دیا ہے
۔ایسی باتیں کوئی مخبوط الحواس شخص ہی کر سکتا ہے اور سچ کہا ہے سینیٹر
پرویز رشید نے کہ اسے شخص کو جیل بھیج دینا چاہیے یا پاگل خانے لیکن شاطر
رحمٰن ملک کا پروگرام کچھ اور ہے ۔جس طرح وہ مولوی قادری کو ڈھیل دیتے جا
رہے ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ ملک صاحب نے مولانا قادری کو بھی سوات کے
صوفی محمد کے سے انجام کو پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔حکومت نے صوفی محمد
کو ڈھیل دیتے دیتے اُس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ آپے سے باہر ہو گیا اور یہی
حربہ اب مولوی طاہر القادری کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ |