بادل آیا گرجا ،برسا اور چلا گیا

لیجئے علامہ کینیڈا کا لانگ مارچ اپنے انجام کو پہنچ گیا،کون ہارا کون جیتا،حکومت کہہ رہی یہ انکی فتح ہے جب کہ علامہ اور ان کے مصاحبین اسے اپنی شاندار کامیابی اور مقصد کی تکمیل سمجھ رہے ہیں لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ایک کہاوت یا حقیقت ،کہتے ہیں سقراط کی بیوی بڑی بدتمیز یا یوں کہہ لیں کہ سخت طبیعت عورت تھی اور اس کو دیکھتے ہی سقراط کی جان جاتی تھی(ویسے آجکل کے شوہروں کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں) سقراط کی بیوی سقر ا ط کی ڈانٹ ڈپٹ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی ایک دفعہ سقراط اپنے سٹو ڈنٹس کو پڑھا رہا تھا کہ اس کی بیوی چینی نہ ہونے کا شکوہ شکایت کرتی اور دھاڑتی چنگھاڑتی اس کے سٹڈی روم میں آ گئی اور آتے ہی جو کچھ کہہ سکتی تھی کہتی رہی سقراط چپ کر کے سنتا رہا اور جب بیگم صاحبہ دس پندرہ منٹ کی تقریر کے بعد کوئی ریسپانس نہ پا کر تھک گئیں تو غصے سے پیر پٹختے ہوئے واپس چلی گئیں اس دوران جو دو چار حیران و پریشان طالب علم بیٹھے تھے انہیں دیکھ کہ سقراط گویا ہوا پریشانی کی کوئی بات نہیں بادل آیا گرجا برسا اور چلا گیا تم آرام سے پڑھو،مجھے یہ قول یا معقولہ علامہ ناگہانی اور شیخ الکنیڈا کی ڈرامائی پاکستان آمد،جلسہ عام ، ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن اور پھر دھرنے کے آغاز پر آر یا پاکرپٹ نظام کے مرنے مارنے کی قسمیں ، وعدے یزیدی نظام ختم ، فسطائیت کو جڑ سے اکھاڑنے اور جیسے تھے کے ڈرامائی اختتام یا انجام پر یاد آیا،اگر آپ چند دن قبل کے الیکٹرانک میڈیا کے کلپ یا پرنٹ میڈیا کی کٹنگ دیکھیں تو لگتا تھا کہ اب انقلاب آ کے ہی رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اب ایمپورٹڈ انقلاب کو نہیں روک سکتی،اس دھرنے کے مظاہرین اور کارکنوں نے کمال کر دیا اور خیر کمال تو قائدین نے بھی کم نہیں کیا،کارکنوں نے قائد کی آوا ز پر لبیک کہا اور شدید ترین سخت مو سم بھی ان کے پائے اسقلال میں کوئی لغزش نہ ڈال سکا ،ا س پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے یہ وہ لوگ تھے جن کے گھروں میں گیس نہیں بجلی نہیں ،کاروبار زندگی چلانے کے لا لے پرے ہوئے ہیں اور وہ یہی سمجھ کے آئے تھے کہ اب انقلاب آ کے ہی رہے گا اور کئی ایک کو تو اسلام ا ٓباد جاتے ہوئے میں نے یہ نعرے بھی لگاتے ہوئے سنا کہ اب جا رہے ہیں تو اپنا حق لیئے بغیر واپس نہیں آ ئینگے اور پھر حق لے کر واپس آگئے،کیا پٹرول پچیس روپے لٹر ہو گیا،کیا سی این جی کی لائنیں ختم ہو گئیں،کیا آٹا چینی اور گھی کی قیمتوں میں انقلاب آ گیا،کیا پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم نا فذ ہو گیا،کیا حکومت اور تمام اسمبلیاں ٹوٹ کر عنان اقتدا ر فرشتوں کے حوالے ہو گیا،کیا امن اور انصاف کا بول با لا ہو گیا،چلیں اس کو تو چھوڑیں علامہ کینیڈا کے کتنے مطالبات تسلیم کر لیے گئے،انہوں نے تو اسلام آباد پہنچتے ہی حکمرانوں کو سابق قرار دے دیا تھا پھر سابق حکمرانوں سے ہی مذاکرت اور جنہیں یزید کہتے رہے انہی کو جپھیاں اور انہی سے مصالحت کر لی،کل تک کے چور ڈاکو اور لٹیرے آج آپ کے اتحادی واہ جی واہ،عجب تیری سیاست ،عجب تیرا نظام،حسین سے بھی مراسم اور یزید کو بھی سلام،یہ دو رنگی کیا ہے ویسے دو رنگی تو تب ہی عیاں ہو گئی تھی جب جناب نے معصوم بچوں اور خواتین کو شدید سردی میں بٹھا کر خود گرم اور وی وی آئی پی بنکر میں ڈیرے جما لیے ،جس میں باتھ روم سے لیکر سونے جاگنے اور چائے کافی سمیت دنیا جہان کے لوازمات مو جود تھے،کیا ہی اچھا ہوتا اگر جناب بھی کچھ دیر کے لیے ہی سہی باہر نکلتے تو اور اندازہ کرتے اسلام آباد کی سردی کا،یا اگر یہ نازک طبیعت پہ گراں تھا تو اپنی آل اولاد میں سے بھی صرف اپنے بیٹوں کو ہی باہر قوم کے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ بٹھا دیتے ،جناب عالی آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے اور جب اس نے آنا ہے تو یہ بنکر اور مورچے اور بلٹ پروف کنٹینر کوئی حیثیت نہیں رکھتے،عراق جنگ سے قبل اس دھرنے سے بیسیوں گنا زیادہ لوگ یورپ کے ملکوں میںجنگ کے خلاف سڑکوں پر نکلے مگر کہیں کوئی کنٹینر نظرنہیں آیا کسی سڑک پر، جب اس پر ڈھکے چھپے الفاظ میں اعتراض ہو ا تو جواب ملا جب جناب کے چاہنے والوں کو اعتراض نہیں تو دوسرا کوئی کون ہوتا ہے اعتراض کرنے والا،تو جناب والا زرداری حکومت کی کارکردگی ،عوام سے دوری بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے سیکورٹی کی بھرمار اور بے نظیر کے قاتلوں کی اب تک نہ ہونے والی گرفتاری ،چوہدری پرویز و شجاعت کا مشرف کی گود میں بیٹھ کر نئی مسلم لیگ کی تشکیل،ایم کیو ایم کے قائد تحریک کی خود ساختہ جلاوطنی اور میاں برادران کے معاہدے پر اگر ان کے چاہنے والوں کو اعتراض نہیں تو کسی اور کو کیا حق ہے اعتراض کرنے کا،دوسری دلیل ان کی جان بڑی قیمتی ہے دی جاتی ہے ویسے ہر انسان کی جان کتنی قیمتی ہے یہ بھی جناب کینیڈین شیخ کو معلوم ہو گا اور اگر ایک لمحے کو اس دلیل کو سامنے رکھ بھی لیا جائے تو کیا جنا ب شیخ اور ان کے چاہنے والے بتانا پسند کریں گے کہ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کو جب شہید کیا گیا تو نئے آنیوالے خلیفہ سوئم حضرت عثمانؓ نے کتنے بنکر بنوائے تھے اور ان کی بھی شہادت کے بعد حضرت علیؓ اسداللہ نے پہلے دو مسلمان خلفاءکی شہادت کے بعد کس قدر سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے کتنے وی آئی پی کنٹینر تیار کرائے تھے،اور چاہتے تو بالکل کرا لیتے مگر اللہ پر کامل بھروسا تھا انہی کا قول ہے کہ موت تو زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے اور پھرعین نماز کی حالت اور امامت میں جام شہادت نو ش کیا ، مگر اپنے اور اپنی عوام کے درمیان کوئی آ ہنی دیوار یا خاردار تار نہیں لگائی کیوں کہ وہ عوام کے حاکم نہیں صحیح معنوں میں خادم تھے شہادت کے آرزو مند لیڈر بلٹ پروف کنٹینروں اور شیشیوں کے پیچھے سے نہیں للکارتے کہ تمھاری تلواریں ہوں گی اور میری گردن،تمھاری گولیاں ہوں گی اور میرا سینہ مگر شرط یہ ہے کہ شیشہ نہیں ہٹاﺅ گے آگے سے ،اس طرح شاید حکومت کو علامہ صاحب یہ سہولت دینا چاہتے تھے کہ وہ حملے کا شوق بھی پورا کر لے اور انہیں بھی کچھ نہ ہو،دونوں کا کام چل جائےگا،اسلام آباد داخل ہوتے ہی آپ نے قوم کو نوید دی کہ چوروں اور لٹیروںسے اس قوم کی گردن خلاصی ہو گئی،جناب نے گرجتے ہوئے فرمایا صدر سابق ہو گیا،وزیر اعظم سابق ہو گیا ،پارلیمان سابق ہو گئی،ظلم کا نظام ختم ہو گیایزیدی ٹولہ بھاگنے کو تیار ہے خبردار انہیں بھاگنے نہیں دینا،پھر صبح گیارہ بجے انہی سابق صدر اور وزیراعظم سے کہا گیا کہ اسمبیا ں تو ڑ دو،اور اگلے دن سپریم کورٹ کے آرڈر کو اپنے حق میں کیش کراتے ہوئے مبارک مبارک کا شور اور نوید کہ آدھا مرحلہ طے ہو گیا باقی آدھا کام کل ہو جائے گا،اور اگلے دن صبح سویرے ہی الہام ہو گیا کہ آج دھرنا ختم ہو جائے گا آج آخری دن ہے،پھر چشم فلک نے یہ عجب نظارہ دیکھا کہ یزید اور فرعون فولادی بنکر میں حضرت کے پہلوبہ پہلو آکر حضرت سے اٹھکیلیاں کرنے لگ گئے،اور پھر مذاق ر ات شروع ہو گئے وہ مذاکرات جو پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے عوام کے سامنے ہونے تھے حضرت نے فرمایا تھا میں بند کمرے کے ڈائیلاگ پر یقین نہیں رکھتا جو بات ہو گی سب کے سامنے ہو گی اور پھر واقعی بند کمرے کی بجائے مذاکرات بند کنٹینر میں ہوئے اور قمر الزماں کے ،، مولی صاحب ،، مکمل طور پر ایک زرداری سب پر بھاری کی چال میں آکر ٹریپ ہو گئے،یزیدی طاقتوں سے مذاکرات کامیاب ہو گئے جناب شیخ کی ایک بات بھی نہیں مانی گئی نہ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں نہ الیکشن کمشن اور جہاں تک بات ہے 62,63 کی شقوں کی تو وہ پہلے سے آئین میں مو جود، مسئلہ صرف ان پر عملدارآمد کا تھا اور ہے حضرت فرماتے ہیں ہم نے وہ سب منوا لیاجو چاہا تو جناب آپ کے معاہدے پر آپکی طرف سے سابق قرار دیئے گئے وزیر اعظم کے دستخط ہیں اور جب ان شقوں پر عملدر آمد کا وقت آئے گا تو آپ کے یہ سابق وزیراعظم گو جر خان میں اپنے ووٹرز کے پیچھے بھاگ رہے ہوں گے اور جہاں تک بات ہے کئیر ٹیکر وزیراعظم کی تو وہ اب بھی حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے ہی بننا ہے اب آپ حکومت کو ضرور مشورہ دے سکتے ہیں کیوں کہ اب آپ بھی ان کے ہاتھ پہ بیعت کر کے ان کے اتحادی بن چکے ہیں،یہ بھی ذہن میں رکھیئے گا کہ معاہدے نبھانے کا اس حکومت کا سابقہ ریکار ڈ کوئی اتنا روشن نہیں ہے صدر مملکت فرما چکے ہیں کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے،جناب صدر پاکستان اپنی شاطرانہ چالوں سے آپ سے قبل ایم کیو ایم اور این پی کی سیاست کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں آپ نے ریاست بچاتے بچاتے ان کی سیاست کو کندھا دے دیا ہے اور آپ سمجھ ہی نہ سکے کہ آپ کے ساتھ شیطان ملک آپ کے بقول اور اس کا گرو کتنا بڑا ہاتھ کر گئے ہیں اول گرو اعظم نے رحمٰن ملک کے ذریعے آپریشن کی دھمکی دی اور زور دار بیان دلوایا فوراً بعد چڑیا والے اینکر کو خود ہی پیغام پہنچا دیا کہ خبردارہم بالکل آپریشن نہیں کریں گے یہ ہماری بچیاں اور بچے ہیں یوں فوراً ہی ہمدرد بن کے شیخ الکنیڈا کے دل میں جگہ حاصل کر لی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے،شیخ الاسلام نے نہ صرف جناب صدر کے وفد کی اپنے بنکر مین آﺅ بھگت کی بلکہ باسٹھ اور تریسٹھ پر ٹھیک ٹھیک پورا اترنے والوں کے سنہری اور زریں خطاب اہل دھرنا کو سنوانے کے لیے سب کو فرداً فرداً خطاب کا بھی موقع فراہم کیانفرت کا اظہار کیا تو رحمٰن ملک سے اگر وہ بھی تشریف لے آتے تو ان کے لیے بھی باسٹھ تریسٹھ کی شق پوری ہو جاتی،قبلہ محترم شیخ الاسلام صاحب صرف اگر یہ ہی پوچھ لیتے کہ آنے والوں کی کریڈیبلٹی کیا ہے ان میںایک صاحب ایسے بھی تھے جن کو اپنے اکاﺅنٹ میں آنیوالے چار کروڑ کا پتہ ہی نہیں کہ کس نے بھیجے ہیں اور کیسے ان کے اکاﺅنٹ میں آگئے،اس وفد میں کتنے پورا ٹیکس ادا کرتے تھے بلکہ ایک صاحب نے تو زندگی بھر اس ٹیکس جیسی برائی کو منہ نہیں لگایا،جو بچلی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ،شیخ الاسلام دو دن قبل وزیر اعظم کی گرفتاری کے آرڈر پر قوم کو مبارکباد دے چکے تھے اور ساری قوم جانتی ہے کہ یہ حکومت عدلیہ کا کتنا احترام کرتی ہے اور دوسرے دن اس وزیراعظم سے معاہدے پر دستخط کرانے کی بجائے مطالبہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے سپریم کورٹ جس پر جناب کو مکمل اعتماد ہے اور اس کی گارنٹی مانگتے رہے آخر تک ، کے حکم پر عملدرآمد کر کے قومی مجرم کو گرفتار کرو پھر دھرنا ختم کریں گے،مگر وائے ناکامی کہ وہی وزیراعظم بھی موجود ،وہی صدر بھی ، وہی الیکشن کمشن بھی موجود،کئیرٹیکر گورنمنٹ کا فارمولا بھی وہی،اعلامیہ ڈکلیرشن لانگ مارچ انہی حکمرانوں کے دستخطوں پر اعتماد،نہ الیکشن کمشنر کی مہر نہ عدلیہ اور فو ج کی ضمانت ،ان حالات میں معاف کیجیے گا اس ڈکلریشن لونگ مارچ کی حیثیت ڈکلریشن ڈھونگ مارچ سے زیادہ کچھ نہیں،اس ڈھونگ پر آپ نے قوم کے غریب مساکین کے کروڑوں اربوں فضول پریکٹس پہ اڑا دیئے اور نہ کسی آنکھ میں شرم ہے نہ حیا صرف ناچنے اور بھنگڑوں پہ زور ہے،خیر شرم اس وقت نہیں آئی جب عورتوں اور بچیوں کے بازوﺅں سے زیور اور غریب ناداروں سے مکان بکوائے جا رہے تھے کہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں،کتنا اچھا ہوتا اگر آنجناب قوم کی جھونپڑیاں اور بچیوں کی چوڑیوں کی بجائے اپنا ماڈل ٹاﺅن کا محل بیچ دیتے تو پورے لانگ مارچ کا خرچ نکل آتا،پندرہ کروڑ پچاس لاکھ حکومت کے بھی اس مارچ کی نذر ہو گئے تاجروں اور دکانداروں کے اربوں کا خسارہ اس سب کے علاوہ ہے،اس قوم نے بھی کیا قسمت پائی ہے کبھی قرض اتار کے ملک سنوارنے کے نام پر لٹے ،کبھی کپڑا اور مکان کے لیے لٹے اور کبھی مکان اور زیور بیچ کر کسی نو سر باز کی عیارانہ اور مکارانہ سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے،کاش کوئی ایک ہی جنونی جیالا اور متوالہ کارکن آگے بڑھ کر شیخ الاسلام کے گریبان تو کجا دست بدستہ ہی عرض کرتا کدھر گیا وہ انقلاب جس کی امید پہ ہم نے اپنا سب کچھ بیچ دیا اور جناب کے پیچھے ہو لیے اب بیچ راہ میں چھوڑ کر رات کی تاریکی میں معاہدہ کر کے آپ کدھر چل دیے،آپ نے ہمیں کہا کہ قافلہ حسینی کی طرح میں بھی آپ کو اجازت دے رہا ہوں کہ جس نے جانا ہے چلا جائے مگر ہم ڈٹے رہے کہ شاید اب ہمارے دکھ درد اور تمام دلدر دور ہونے کا وقت آن پہنچا،جناب شیخ اگر آپ ہمیں ایک لمحے جانے کی اجازت اور دوسرے لمحے جانیوالوں کو غدار کا لقب نہ بھی دیتے،اگر آپ قافلے کے بزرگوں کو حضرت علیؓ کا،جوانوں کو جناب علی اکبرؓ کا،بچوں کو جناب علی اصغر ؓ عورتوں کو حضرت زینبؓکا اور بچیوں کو جناب سکینہؓ کا واسطہ نہ بھی دیتے تب بھی ہم بمہ اپنے اہل و عیال کے آپ کے ساتھ مو جود تھے اور مو جود رہتے،مگر یہ کیا جن کو آپ نے یزید کہا ان سے جپھیاں اور معاہدے ہم تو روٹی کپڑا مکان اور بجلی گیس کے لیے آپ کے ساتھ آئے تھے ہم تو وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے آپ کا دست و بازو بنے مگر کوئی بھی نہیں جو یہ پوچھنے کی جراءت کر سکے کوئی ایک بھی نہیں کہ اپنے ہاں کے لیڈروں کا چلن ہے ای ایسا ، لیڈرجب چاہتے ہیں دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو گود مین بٹھا لیتے ہیں،جب چاہتے ہیں خود ساختہ جلا وطنی اختیا ر کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ڈکٹیٹروں اور آمروں کے ساتھ معاہدے کر کے دوسرے ملکوں میں سرور پیلس آباد کر لیتے ہیں،جب چاہتے ہیں گوروں سے حلف وفاداری اٹھا کر اپنے ملک کے خلاف لڑنے کی قسم دیکر کینیڈا کی شہریت لے لیتے ہیں کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا کسی کی مجال نہی ایک سے ایک بڑا ایکٹر اور فنکار موجود ہے شیخ الاسلام نئی انٹری ہیں اور کہا گیا کہ یہ مسلمانوں کے جے سالک ہیں،میں یہ نہیں کہتاکہ یہ مسلمانوں کے جے سالک ہیں یا جے سالک مسیحیوںکے طاہر القادری ،مگر ایک بات مشترک ہے کہ دونوں بلا کے ذہین فنکار ہیں جنہیں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا بڑی اچھی طرح آتا ہے،اب کون بڑافنکار ہے اور کون چھوٹا یہ فیصلہ آپ بہتر کر سکتے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،