طب و نفسیا ت پر مضامین کی اشا
عت
جب سے ہم نے ” ماہنامہ عبقری “ میںروحانیت، طب و نفسیا ت کے بارے میں لکھنا
شرو ع کیا ہے ، ہمیں نو جوانوں کے خطو ط مل رہے ہیں ۔ ہر کسی کے اندا زِ
تحریر میں فر ق پا یا جا تا ہے ہے لیکن الجھن سب کی ایک ہے اور ہر کوئی
اپنے آپ کو ایسے مر ض کا مریض بنا ئے بیٹھا ہے جو اس کی نگا ہ میں پر اسرار
اور لا علا ج ہے ۔ یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھیں کہ ہمیں جن نوجوانو ں
کے خطوط مل رہے رہیں ، ان کی عمر پندرہ سے بائیس سال کے درمیان ہے ۔ بڑی
عمر کے لو گو ں کے بھی خطو ط آتے ہیں ۔ ان میں اکثر و بیشتر کئی کئی بچو ں
کے با پ ہیں ۔ وہ بھی انہی الجھنو ں میں مبتلا ہیں ،جن میں نوجوان گر فتار
ہیں ۔ یہ بھی پیشِ نظر ر کھیں کہ نوجوانوں میں صرف لڑکے نہیں ، لڑکیا ں بھی
شامل ہیں ، یعنی ان مضامین سے لڑکیا ں بھی استفا دہ حاصل کر سکتی ہیں ۔
ذہن با لغ ہونے سے گریز کر تا ہے
نفسیاتی الجھنیں، جن کا منبع بچپن ہو تا ہے، اس عمر میں تلخ حقائق یا معمے
سے بن کر سامنے آتی ہیں ۔جب لڑکپن نو جوا نی میں مدغم ہو رہا ہو تا ہے ،
عمر کا یہ حصہ سب سے زیا دہ نا زک اور خطرناک ہو تا ہے ۔ چو دہ پندرہ سال
کی عمر کو پہنچ کر بچہ اپنے جسم میں تبدیلیا ں محسوس کر نے لگتا ہے ۔ یہ
تبدیلیا ں سولہ سال کی عمر میں نمایا ں ہو جا تی ہیں ۔ لڑکو ں میں جسمانی
تبدیلیاں اتنی زیادہ نہیں ہوتیں جتنی لڑکیو ں کی۔ قدرت بچے کو بلو غت کے
دور میں داخل کر رہی ہو تی ہے ۔ قدرت کے اس انقلا ب کو ظہور پذیر ہو نا ہی
ہوتا ہے۔ جسمانی تبدیلیو ں کے ساتھ ساتھ احساسات اور جذبا ت میں بھی ہلچل
بپا ہو جا تی ہے ۔سو چو ں کا انداز اور زاویہ بدل جاتاہے ۔
جسم تو بالغ ہو جا تاہے ، ذہن بالغ ہونے سے گریز کر تاہے ۔ لہذا ذہن جسم کا
ساتھ چھو ڑ دیتا ہے ۔ جسم اور ذہن کی اس لاتعلقی کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ بچہ
ان جسمانی تبدیلیو ں کو ایک معمہ سمجھ کر والدین سے ان کے متعلق پو چھنا
چاہتا ہے لیکن شرم و حجا ب کی وجہ سے اور والدین اور بچو ں کے درمیان بے
تکلفی کے فقدان کی وجہ سے پو چھ نہیں سکتا ہے۔
بچیو ں میں بلو غت پر انقلا بی تبدیلیاں
لڑکیو ں کی بلو غت تو ایسی انقلابی ہو تی ہے کہ اکثر بچیا ں گھبرا جاتی ہیں
مگر انہیں بتانے والا کوئی نہیں ہو تا کہ قدرت کا ایک کرشمہ رو نما ہو رہا
ہے اور خدائے ذوالجلا ل اسے مکمل انسان بنا رہا ہے ۔ عمر کا یہ حصہ جو
لڑکپن اور جوانی کا سنگم ہو تا ہے ، دوراہا بن جا تاہے جہا ںآکر بچہ زندگی
کے حقا ئق کو سامنے کھڑا دیکھتا ہے ۔ ہمارے ہا ں کا کو ئی بھی بچہ ان حقائق
سے نبر د آزمایاانہیں قبول کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہوتا کیونکہ بچو ں کو
تیار کیا ہی نہیں جاتا ۔ پا کستا ن کے اوسط درجہ گھرانوا ں میں بچوں سے
توقع رکھی جا تی ہے کہ وہ جلدی جلدی بڑے ہو ں اور کہیں کوئی کا م دھندا
ڈھونڈ کر چا ر پیسے کما لائیں ۔ انہیں ذہنی طور پر جوانی کے لیے قبل از وقت
تیا ر نہیں کیا جا تا مگر انہیں یہ احساس ضرور دلا دیا جاتا ہے کہ اب تم
بچے نہیں ہو ۔
بچہ آسانی سے بچپن کی محفو ظ اور بے فکر زندگی سے دستبردار نہیں ہوا کر تا
۔ چنا نچہ جب وہ ذہنی طور پر تیا ر ہو ئے بغیر اس مقام پر پہنچتا ہے جہا ں
اسے کہا جا تاہے کہ اب تم بچے نہیں ہو تو وہ ایسے دورا ہے پر سرا پا سوا ل
بن کر کھڑا ہو جا تا ہے جہا ں سے ایک را ستہ فرار کا بھی نکلتا ہے ۔ بیشتر
بچے اسی را ہ پر چل نکلتے ہیں اور وہ تصوروں میں بچے بن جا تے ہیں ۔ بعض
نونہالوں پر خامو شی طاری ہو جا تی ہے اور بعض منہ زور ہو جا تے ہیں ۔
الجھن دونو ں کی ایک ہی ہو تی ہے ، رد عمل میں فرق ہو تاہے ۔ یہ ان اثرات
کا نتیجہ ہو تاہے جنہیں بچہ بچپن سے ذہنِ لا شعور میں جمع کر تا چلا آتا ہے
۔ اس کی ذمہ داری والدین اور اسا تذہ پر عائد ہوتی ہے۔
انسان فطر تاً مہم جو
کہا جا تا ہے کہ انسانی فطر ت تن آسانی ، جنسی ہیجان اور فرا ر کی طرف زیا
دہ ما ئل ہو تی ہے ۔ بعض نا م نہا د مفکروں اور فلسفیو ں نے اسے ایک اٹل
حقیقت بنا رکھا ہے ۔ ہمیں اس سے اتفا ق نہیں ۔ یہ حقیقت نہیں بلکہ مفروضہ
ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان فطر ی طور پر مہم جو اور خطرا ت پسند ہو تاہے
اگر انسان فطر تا ً جنسی ہیجان اور تساہل کو پسند کر تاتو آج کر ئہ ارض پر
صرف درندے آباد ہو تے، بنی نو ع انسان کا نام و نشان نہ ہو تا۔ آپ کے لیے
یہ مشا ہد ہ نیا نہیں کہ بچہ جب اپنے پا ﺅں پر چلنے لگتا ہے تو وہ چین سے
نہیں بیٹھتا اونچی جگہ چڑھنے اور اپنے جسم سے بھی زیا دہ وزنی چیزیں اٹھانے
کی کو شش کر تا ہے اور وہ کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کے اندر فرار
اور تساہل جیسے رجحانات ، گھر کا ماحول پیدا کر تا ہے ۔چنانچہ جب بھی اسے
ایسے خطرے اور کسی ایسی حقیقت کا سامنا ہو تا ہے جس کے متعلق اسے قبل از
وقت آگا ہ نہیں کیاجا تا ، وہ را ہِ فرار اختیا ر کر لیتا ہے اور تصوروں کی
دنیا میں پنا ہ لیتا ہے ۔
ہم جن نو نہا لو ں کا تجزیہ اور علا ج پیش کر رہے ہیں ، وہ حقائق سے بھا گے
ہوئے ہیں ۔ وہ تصوروں میں اپنی دنیا آبا د کیے ہوئے ہیں یا وا پس بچپن میں
چلے گئے ہیں ۔ اپنے آپ کو فریب دینے کی کو شش نہ کریں کہ ایسابچہ شاید کوئی
کوئی ہو گا ۔ ہمارے ہا ں نوے فی صد سے زیا دہ بچے زندگی کی حقیقی راہو ں سے
بھٹکے ہوئے ہیں ۔ انہیں گمراہ کرنیو الے خود ان کے اپنے والدین اور ان کے
سکولو ں کے اساتذہ ہیں اور معاشر تی احوال و کو ائف کا بھی نما یا ں عمل
دخل ہے ۔
انسا نی زندگی میں کامل رہبر کی ضرورت
والدین اور اساتذہ کو ان کی ذ مہ داریو ں سے آگا ہ کر نے اور خطر ات سے خبر
دار کرنے سے پہلے ہم اس الجھن کی وضاحت پیش کر نا چاہتے ہیں جس نے ساری ہی
نئی پو د کو گمراہ اور پریشان کر رکھا ہے ۔ وہ سہتے ہیں ، کہتے نہیں ۔انہیں
کوئی رہبر نہیں ملتا ، کوئی خضرِ راہ ان کا ہا تھ تھام کر انہیں اس راہ پر
نہیں ڈالتا جو قدرت نے انسان کے لیے متعین کی ہے ۔ ہمیں نونہا لو ں (لڑکو ں
اور لڑکیو ں )کے خطو ط ملتے رہتے ہیں جن میں وہ اپنی الجھن کو وضاحت سے
بیان کر تے ہیں ۔ گذرے ہو ئے چو دہ بر سو ں میں ہمیں کم و بیش پانچ لا کھ
ایسے خطو ط مل چکے ہیں اور یہ سلسلہ اسی رفتار سے جا ری ہے ۔ وہ اپنی اس
الجھن کو الجھن نہیں ، مرض لکھتے ہیں ۔ ان کی نگا ہ میں یہ مر ض لا علاج
اور پر سرار ہے ۔ ہر ایک کے مر ض کی علاما ت یہ ہیں : (1)جسم بے جا ن ہو جا
تا ہے (2) دل پر گھبرا ہٹ اور خوف طا ری رہتا ہے (3)دما غ ماﺅف ہو جا تا ہے
(4)دنیا اور زندگی سے نفر ت ہو جا تی ہے (5)مو ت سر پر کھڑی محسو س ہوتی ہے
(6)مر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ (7)مو ت سے ڈر آتا ہے ۔ (8)پڑھنے کا شو ق ہے
مگر پڑھنے کو جی نہیں چاہتا ۔ سوچنے اور فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہو جا تی
ہے۔ (9) جسم کمزور اور چہرے کا رنگ زرد ہو تا جاتا ہے ۔ (10)پنڈلیا ں بالکل
بے جان ہو جا تی ہیں، پنڈلیو ں میں درد بھی ہو تاہے (11)احسا سِ کمتری
پریشان رکھتی ہے (12) کلا س میں استا د سوال پوچھ بیٹھے تو کھڑا ہو تے ہی
دل پر گھبرا ہٹ طاری ہو جا تی ہے۔ ہاتھوں اور پا ﺅ ں سے پسینہ پھوٹ آتا ہے۔
زبان بند ہو جا تی ہے اور غشی سی آنے لگتی ہے ۔ جواب یا د ہو تا ہے مگر ذہن
سے نکل جا تا ہے ۔دو چار آدمیو ں کی موجو د گی میں منہ سے آواز نہیں نکلتی
۔ بولو تو زبان ہکلا تی ہے ۔ (13)آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جا تاہے
(14)آنکھو ں کے سامنے تارے نا چنے لگتے ہیں (15)کسی سے بات کرنے کو طبیعت
نہیں چا ہتی ۔کوئی بات یا د نہیں رہتی ۔ حافظہ کمزور ہو جا تاہے ۔ رونے کو
جی چاہتا ہے ۔ یہ تمام علامتیں لڑکو ں اورلڑکیو ں کی یکسا ں ہیں ۔ لڑکیو ں
نے اپنے خطوط میں یہ اضافہ کیا ہے کہ مر دو ں سے نفرت ہے ۔ والدین شادی کی
با ت کرتے ہیں تو دما غ پر گھبرا ہٹ اور دل میں نفرت پیدا ہونے لگتی ہے ۔
ان میں سے بعض نونہالوںنے کتا بو ں اور فلسفے میں جا پنا ہ لی ہے مگر وہا ں
بھی انہیں معمول کاسامنا ہوتا ہے ۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہو ں نے
اساتذ ہ قسم کے شاعروں کے اشعار کو فلسفہ حیا ت سمجھ لیا ہے ۔
مثلا غالب کا یہ شعر
قیدِ حیا ت و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
مو ت سے پہلے آدمی غم سے نجا ت پائے کیو ں
فلسفہ حیا ت اور فلمی گیت
ایسے نو جو انوں کی تعداد بھی کم نہیں جو فلمی گیتوں کو فلسفہ ¿ حیا ت سمجھ
بیٹھے ہیں ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو لکھتے ہیں۔ ....” اگر غم ہی اصل
زندگی ہے تو جینے کا فائدہ ہی کیا ؟ میں کسی کو ہنستے دیکھتا ہو ں تو اس پر
غصہ آتا ہے اور میں اسے جاہل سمجھتا ہو ں ۔ میں زندہ رہ کر کوئی بڑا کام کر
نا چاہتا ہو ں یا بڑا نام پیدا کر نا چا ہتا ہو ں مگر زندگی اتنی بے مقصد
کیو ں نظر آتی ہے کہ مر جانے کو جی چا ہتا ہے ، دماغ سوچ سو چ کر تھک گیا
ہے اور دل پر ایک بو جھ یا خوف سا رہتا ہے جسے میں اچھی طرح بیا ن نہیں کر
سکتا ۔ خدا کے وا سطے مجھے را ستہ دکھائیں “
یہ نو جوان حقائق اور فلسفے کے درمیا ن جو تاریکی ہے اس میں بھٹک گئے ہیں
۔ہم اس رجحان کی وضا حت اور علا ج آگے چل کر بیا ن کریں گے۔ ان میں سے کئی
ایک نوجوان یہا ں تک لکھ ڈالتے ہیں کہ اگرآپ نے میرا علاج نہ کیا تو میں
خود کشی کر لو ں گا ۔ ” جب یہ زندگی ہی بے مقصد ہے تو میں جی کے کیا کرو ں
گا۔“
یہ ایک ایسا خطر ہ ہے جس نے ہمیں مجبو ر کر دیا ہے کہ ہم اصل با ت کھل کر
بیا ن کر دیں ۔ نوجوانوں کے مندرجہ با لا ” مرض“کی اصل تشخیص سے با خبر ہو
تے ہوئے بھی ہم اس اہم مسئلے کو ” ماہنامہ عبقری“ کے صفحا ت پر لانے سے
گریز کر تے رہے کیونکہ مو ضو ع کا برا ہِ را ست تعلق جنسیا ت سے ہے۔ مو ضوع
کی نزاکت اور عریا نی کے خدشے کے پیش نظر ہم پر حجاب ساطا ری رہا ۔ بہت سو
چ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ والدین اور بچو ں کے درمیان یہی حجا
ب حائل رہا ہے جس نے بچو ں کو جو انی کی دہلیز پر آکر نفسیا تی خلفشار اور
جسمانی الجھنوں میںمبتلا کر دیا ہے ۔ |