پیرس سے گوجرانوالہ

آہ ۔۔۔پیرس بھی کیا خوب صورت جگہ ہے خوشبوﺅں کی دنیا خوبصورت عمارتیں پیارے پیارے چہرے بس پاپا آپ اس دنیا کے سب سے اچھے باپ ہیں جو مجھے اس سال چھٹیوں میں یہاں وزٹ پہ لائے So lucky I amوحید کے لب پہ یہ جملے تھے کہ اسے تیز بارش اور شور نے پریشان کردیا ۔ کسی کی آواز اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی وہ آنکھیں بند کےے سوچ رہا تھا کہ یار یہ آج ابّے کو کیا ہو ا یہ چلّا کیوں رہے ہیں کہ بارش اور تیز ہوگئی وہ ہڑبڑا کہ اُٹھا اور اپنے اطراف کی دنیا کو غور سے تکنے لگا۔

اسے شور اور آوازوں کی پروا نہ تھی اس کا دل تو زورزور یہ سوچ کے منہ کو آرہا تھا کہ اس نے جو کچھ دیکھا وہ صرف خواب تھا یہ پیرس نہ تھا بلکہ کراچی کے علاقے سرجانی ٹاﺅن کا چھوٹا سا مکان تھا۔ سترہ سالہ وحید پریشانی میں زور زور سے سر کھجانے لگا۔ لیکن اب ابّے کی آواز اور الفاظ اُسے ٹھیک طرح سنائی دے رہے تھے۔

’نا تو کیا نیند میں پاپے پاپے کی رٹ لگا رہا تھا۔ اُٹھ جا ہٹ حرام دیکھ ذرا دن چڑھ گیا ہے گا ویسے ہی گھر میں پانی نہیں تھا تے دو ڈول تو میں تیرے اوپر پھینک دیے نا۔ ہور میں کی کراں توں وی ناں اُٹھتا ہی نہیں۔ چل شاباش پُتر اُٹھ جا۔ وحید نے جھٹ سے اپنے ابّے کی طرف لپک کے اُس کی ٹانگیں پکڑیں اور چاپلوسی دکھاتے ہوئے اُنہیں دبانے لگا ۔ وحید کا باپ بیٹے کی اس حرکت پر مسکرا اُٹھا اور زور دار قہقہے کے ساتھ وحید کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’بول پتر اب کی ہو یا۔ نا اب کیا فرمائش اے تیری‘۔
وحید نے آﺅ دیکھا نا تاﺅ بغیر روکے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بولا۔
’وہ ابّا مجھے چھٹیوں میں پیرس بھیج دے نا‘۔

وحید کے باپ نے بیٹے کو غور سے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا ’پُتر توں وی صویرے صویرے مذاق کر رہا ہے گا۔ مسخری نہ مار چل کالج کی دیر ہو رہی ہے۔ میں تینوں چھوڑ کے علاقے میں دودھ سپلائی کر لوں گا‘۔
وحید کو یک لخت غصہ آگیا ۔ غصّہ سے اُس کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔

’ابّا جب میں ایک دودھ بیچنے والے کا بیٹا ہوں تو کیوں پڑھایا تو نے مجھے بڑے کالج میں کیوں مجھے بڑے بڑے خواب دیکھنے پہ مجبور کر دیا۔ مجھے پتہ ہے مجھے بھی دودھ ہی بیچنا پڑے گا۔ بلا وجہ ابّا تو نے لاکھوں روپے میری پڑھائی میں ڈال دےے۔ اب بھی میں جانتا ہوں تو نے پیسے جمع کر کے رکھے ہیں پر نہیں تو مجھے نہیں دے گا کہ میں چھٹیوں میں کچھ تفریح ہی کر لوں۔ وحید کے باپ کو اپنے بیٹے کی بد تمیزی پہ غصّہ آنے کی بجائے بہت پیار آرہا تھا۔ اور کیوں نہ ایسا ہوتا اُس کا اس دنیا میں وحید کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ وحید کی ماں کے انتقا ل کو پانچ سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ وحید ان کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلہ تھا۔ وحید کا باپ قاسم پہلے پہل ایک چھوٹی سی دودھ کی دکان چلاتا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا باڑہ بنا لیا اور کراچی کے مختلف علاقوں میں دودھ فروشوں کو سپلائی کا کام شروع کیا۔ اب اس کے نام کے ساتھ چودھری لگایا جانے لگا تھا کیوں کہ پیسہ کی ریل پیل ہونے لگی تھی۔ چھوٹا موٹا دودھ بیچنے والا قاسم آج اپنی دن رات کی محنت کی وجہ سے قاسم چودھری بن گیا تھا۔ اُسے اپنے کام سے محبت تھی۔ قاسم چودھری کی کل کائنات وحید ہی تو تھا۔ وحید کو اس نے شہر کے بہت بڑے کالج میں پڑھایا ۔ وحید اپنے دوستوں میں یہ بتاتے ہوئے بہت شرم محسوس کرتا کہ اُس کا باپ ایک دودھ سپلائی کرنے والا ٹھیکیدار ہے۔ اس میں کوئی شک نہ تھا کہ قاسم چودھری چاہتا تو وحید کو دنیا کے ہر کونے میں بھیج سکتا تھا لیکن اس نے اپنا ایک ایک روپیہ وحید کو ڈاکٹر بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بچا کر رکھا تھا۔

وحید باپ سے جواب کا منتظر تھا لیکن قاسم چودھری اپنی سوچوں میں مگن اپنے بیٹے پہ نظریں جمائے اُسے دیکھ رہا تھا۔ وحید چلّایا ابّا تو سن رہا ہے میں کیا کہہ رہا ہوں۔

’ہاں ہاں پر دیکھ پُتر تیرے چاچے نے ہمیں اس باری گجرانوالہ بلایا ہے تو پیرس چھوڑ گجرانوالہ چل‘۔

وحید پیرس اور گجرانوالہ کے تال میل پر ششد رہ گیا۔ قاسم چودھری وحید کے ذہن میں اس کی آگے کی پڑھائی کی فکر نہیں ڈالنا چاہتا تھا وہ تو بس اپنے بیٹے کی چھٹیوں کو یادگار بنانا چاہتا تھا۔ اور کچھ بھی تھا وحید تھا بہت فرمانبردار ۔ قاسم چودھری کی بات پہ جی ابّا جیسے تیری مرضی کہہ کے خاموش ہو گیا۔

تین دن بعد سے چھٹیاں تھیں قاسم نے گجرانوالہ کی ٹکٹ کروائی اور چار دن بعد دونوں اپنے سفر پہ روانہ ہوئے۔ پہلے پہل وحید منہ بسورے ٹرین میں بیٹھا رہا لیکن ٹرین جیسے ہی پنجاب میں داخل ہوئی صبح سویرے باہر کا نظارا خوبصورت کھیت ، کسانوں کو کام کرتا دیکھ کے اس کا موڈ بہتر ہوتا گیا۔ ٹرین سے باہر کچے پکے گاﺅں کے مکانات نظر آرہے تھے وہ نظر یں گاڑھے ایک ایک نظارے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک طرف اپنے ملک کی خوبصورتی دیکھ کے او ر دوسری طرف یہاں کے لوگوں کے مسائل۔ یہ سفر وہ کتنی ہی دفعہ کر چکا تھا لیکن آج اُسے ہر نظارہ کچھ مختلف دکھائی دے رہا تھا۔ قاسم چودھری تمام راستے اپنے بیٹے کے بدلتے تاثرات پہ غور کرتا رہا۔ گجرانوالہ کا سفر اب ایک گھنٹے کا رہ گیا تھا کہ وحید نے اپنی خاموشی توڑی ۔

’ابّا میرا ملک کتنا خوبصورت ہے ۔ آج میں نے سب کچھ الگ طرح سے محسوس کیا۔ ابّا یہاں لوگوں کے پاس رہنے کے لئے اچھی جگہ ۔میں نے راستے میں بچے دیکھے جو گندے پانی میں نہا رہے تھے۔ کتنے ہی بچے ایسے تھے جن کے پیروں میں جوتی نہیں تھی۔ کپڑے نہیں تھے کسان کتنی محنت کرتے ہیں یہاں۔ کیا ملک ہے میرا کتنا خوش قسمت ہوں میں اتنے بڑے کالج میں پڑھتا ہوں اتنا اچھا کپڑا پہنتا ہوں جو چاہتا ہوں کھاتا ہوں۔

قاسم چودھری اپنے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے بولا’چل چل پُتر زیادہ دماغ پر زور نہ دے میں پڑھا لکھا نئیں پر سمجھتا سب ہوں اور چاہتا تھا کہ تجھے بھی سمجھ میں آجائے اور قدر ہو۔ اور تو سمجھ گیا ہے ۔ اور ہاں تیار ہوجا اب وہاں جاتے ہی اصلی گھی کے تیری چاچی کے ہاتھ کے پراٹھے کھانے کے لئے اور لوٹا ہاتھ میں لئے باتھ روم کے باہر کھڑے اپنی باری کا انتظار کرنے کے لئے۔

ہوا میں ایک زور دار قہقہہ گونجا اور وحید کی گرمیوں کی چھٹیوں کا خوبصور ت آغاز شروع ہوا۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 312070 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.