ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے
اسلام آباد میں کربلا کے میدان میں امام حسین کیجانب سے اپنے رفقا ءکو واپس
جانے کےلئے مہلت کے طور پر چراغ بجھانے کے واقعے کا ذکر کیا کہ جو رفقا
ءآنے والی سختیوں اور پریشانیوں میں ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور واپس جانے
کی خواہشمند ہیں اور شرمندگی سے بچنا چاہتے توانکے لئے حسین نے چراغ بجھا
دئے تھے اور جب چراح روشن کئے گئے تو کوئی بھی کربلا کے اُس میدان میں
حسینی قافلے سے جُدا نہیں ہوا۔جناب طاہر صاحب نے اسلام آباد میں بھی اپنے
رفقا ءکےلئے چراغ بجھا دئے ، اور پھر سب نے دیکھا کہ ایک بھی رفیق اپنے جگہ
سے نہیں ہلا تھا ، آفرین ہے اس قافلے کی ایک ایک فرد پر , لیکن حیران کن
بات یہ ہوئی کہ" چراغ بجھانے والا خود غائب ہوچکا تھا"طاہری ایجنڈے کے تمام
خدوخال "مذاق رات"کے بعد پوری دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ "مذاق رات" میں تمام
نکات کا لب لباب یہی تھا کہ طاہری پرفارمر نے اتحادی حکومتی جماعتوں کےساتھ
خود کو غیر آئینی طور پر اسٹیک ہولڈر بنا کر نگران سیٹ اپ میں اتفاق رائے
کےلئے منظور کرالیا ہے۔تحریک منہاج القرآن کے بینر تلے چلنے والی دھرنا
تحریک کا معائدہ پاکستان عوامی تحریک کے نام سے لکھا گیا اور حکمران اتحادی
جماعتوں کو پابند کردیا گیا کہ مہناج القرآن کے مرکزی دفتر حاضری لازمی
بنائیں۔اس موقع پر اب کسی شک وشبے کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ" سیاسی
شطرنج "پر ڈیڑھ گھر کی چال چلنے والے گھوڑے کا" شہ سوار" کون تھا ؟۔ سب
جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں گھوڑوں کا پُرانا شوقین کون ہے ۔عبدالرحمن
ملک اور عبدالشکور قادری المعروف طاہری القادری کے درمیان پہلی ملاقات کے
بعد جن" حسین خیالات "اور "جھوٹ " کا عظیم مظاہرہ ہوا اُس نے ڈاکٹر
ذوالفقار مرزا اور ملک صاحب کے درمیان ہونے والی تاریخی تکرار کی یاد دلادی
اور قطعی ظاہر نہیں ہونے دیا گیا کہ عبدالرحمن ملک کے مقابل ۔ کون سے "ڈاکٹر
"کھڑے ہیں۔سادہ لوح مسلمان اور عوام ، دل کش پر فریب نعروں میں اپنے سنہرے
مستقبل کو تلاش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں موسم و سفر کی
سختی برداشت کرنے والے ہزاروں بزرگ ، خواتین بچے اور نوجوان یہ ضرور سوچتے
ہیں کہ "ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا "۔ڈاکٹر القادری کے ساتھ "یزیدی
قوتوں"نے "کامیاب"مذاق رات کے بعد "کربلا"(اسلام آباد)سے واپس اپنی
راجدھانی لاہور چلے گئے۔اور ہزاروں فدائین اسلام "حسینی لشکر"کو بتا یا گیا
کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں ۔ یزید ، حسین ہوگیا ہے، کربلا کی تاریخ بدل
گئی ہے آج کا کربلا ، اسلام آباد میں حسینی قافلے نے "پاکستان زندہ باد،
مذاق رات کے بعدکردیا۔"شہادت پروف"کنٹینر میں بیٹھ کر گولیوں کےلئے سینہ
سپر ہونے والے اس طاہری کو اتنی ندامت نہیں ہوئی کہ سردی کے ہاتھوں ، شیر
خوار معصوم بچوں کو فلو ، نمونیہ میں مبتلا کرکے "حسینیت" کو اپنے مقاصد
کےلئے استعمال کر رہے ہیں۔طاہری القادری نے مذہبی جنونیت کا مظاہرہ کیا اور
اپنی مذہبی جنونیت میں ہزاروں سادہ لوح انسانوں کی جانوں کو جوکھم میں ڈالا
۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ "اسلام کو اصل خطرہ کفر سے نہیں
، جہالت سے ہے"۔اسلام آباد کی سٹرکوں پر زمانہ جاہلیت کی تمام یادیں بھی
تازہ ہوگئیں کہ دیکھنے والوں کے آنکھوں میں پٹی بندھی ہوئی تھی کہ سامنے بم
پروف بنکر میں بیٹھنا والا ، جوش خطابت میں کہتا ہے کہ "میرا سینہ گولیوں
کے لئے حاضر ہے ، میں اور میرے بچے گولیوں سے نہیں ڈرتے"۔ یا شیخ ، ذرا خد
کو دیکھ ، اُس کو بھی جواب دینا ہے کہ نہیں ، عمر خضر تو لکھ کر نہیں آئے
ہو کہ اللہ کے سامنے پیش نہیں ہوگے ۔"ڈارلنگ آف دی ویسٹ"نے جو بھی نکات
اٹھائے وہ قابل عمل تھے یا نہیں ، ان میں کتنی سچائی تھی اور کتنا جھوٹ ،
یہ سب فضول ہوگیا ، کیونکہ ان کی مذموم حرکات کی بنا ءپر تمام اپوزیش
جماعتیں جہاں یکجا ہوئیں تو دوسری جانب اتحادی حکمران جماعتیں بھی صف آرا
ہوگئیں۔ جناب طاہری صاحب ، آپ کی باتیں درست ہیں کہ مملکت میں ایک ایسا
نظام ہے جس میں گھوم پھیر کر ، پرانے چہرے ہی سامنے آتے ہیں،ٹیکس چور ،
وڈیرے ، جعلی ڈگری والے بار بار متمکن تخت ہوتے ہیں ۔ لیکن محترم ، ان سب
کو لاتا کون ہے ؟۔ عوام ۔۔۔ ان سب کو لانے کی تمام ترذمے داری ، عوام پر
عائد ہوتی ہے۔ آئین سے پہلے ،عوام کسی کا محاسبہ نہیں کرتے کہ جس کو ووٹ دے
رہے ہیں کیا وہ اس لائق ہے ؟۔کیا وہ ان کے مسائل حل کرسکتا ؟۔کیا رات گئے
ان کی تکلیف پر ،گرم بستر چھوڑ کر ان کے ساتھ جاسکتا ہے ؟۔کیا اس امیدوار
کے آمدن ذرائع ،قانونی ہیں؟۔کیا یہ غریب عوام کی نمائندگی کرتا ہے ۔؟ کیا
جس سیاسی جماعت کو ووٹ دیا جارہا ہے ، وہ اس قابل ہے کہ ملک کو درپیش مسائل
سے باہر نکال سکے ؟۔ یہ سب کچھ عوام پر منحصر ہے کہ وہ کیسے ووٹ دےتے ہیں۔
طاہر القادری کی جانب سے اٹھائے گئے خوشنما اور پر فریب نعروں میں کوئی شک
و شبہ نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ جب تک سب سے پہلے بات کہنے والا عمل
نہ کرے تو دوسروںپر اُس کی نصیحت عمل پزیر نہیں ہوتی ۔ اگر ان پڑھ ، وڈیروں
، جاگیرداروں ، خوانین ، مَلکوں کو سیاسی پارٹیاں ، برادری اور مالی حیثیت
کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دیں تو پھر امیدواران کی اسکروٹنی کون کرے گا ؟۔قابل
اور غریب پرور امیدوار کہاں سے آئیں گے ؟۔لاکھوں روپیہ جب ٹکٹ دینے کے نام
پر پارٹی فنڈ کے لئے مانگا جائے تو پھر ایک غریب ورکر کہاں سے لاکھوں روپیہ
فنڈ میں دیگا ۔؟قانون ساز اسمبلیوں میں جب جاہل جائیں گے تو قانون سازی کون
کرے گا ؟۔جب صنعت کار ، سرمایہ دارجائیں گے تو غریب کی فلاح و بہبود کےلئے
آواز کون اٹھائے گا ؟۔کروڑوں روپیہ خرچ کرکے عوام کو مہنگائی کے دلدل سے
نکالنے کے بجائے ، وہ سیٹ جتنے ولا پہلے اپنی رقم کی ریکوری کے لئے غیر
قانونی اسباب و وسائل ہی استعمال کرے گا۔جس نے فنڈز دئےے ،پہلے اُن کو ہی
مراعات دیں جائیں گے ۔ اقربا پروری کا خاتمہ اور رشوت کہاں سے ختم ہوگی جب
اُس کے بنیاد ہی غلط مفروضے پررکھی جا رہی ہو۔کیا یہ سب عوام نہیں جانتے ۔
کیا یہ سب مذہبی و سیاسی جماعتیں نہیں جانتی ؟۔ یہ سب جانتے بھی اور سمجھتے
بھی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ آئین میں لکھے جانے والے اصولوں اور قوانین پر
عمل در آمد نہیں کرتے کیونکہ انھیں فرشتے نہیں مل سکتے ، اگر عوام کا ہمدرد
، عوام سے آگیا تو کاسہ غلامی ٹوٹ نہ جاتا ۔ پھر لیڈر ، لیڈر نہیں رہتا ،
ہم سب بھی یہی کچھ جانتے ہیں ۔لیکن ہماری نیتوں میں کھوٹ ہے ، لالچ ہے ،فتنہ
ہے۔کہتے ہیں کہ فتنہ ٹل گیا ، فتنہ تو کبھی ٹل ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ فتنہ
گر تو مختلف لباس بدل کر ہمارے سامنے موجود رہتا ہے۔ڈاکٹر صاحب بس یہی خامی
ہے آپ میں کہ آپ نے سچائی کی بنیاد جھوٹ پر رکھی، یزید کو حسین تو کر نہیں
سکے، خود ساختہ حسین کو یزیدبنایا ، سمجھ لو کہ حسین ،حسین رہے تو پاکستان
بھی زندہ ہوجائے ہر پیام کے بعد !! |