آج کل نظریہ اور نظریاتی جیسی
اصطلاحات بہت رواج پا گئی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ اسی رواج یا فیشن کے تحت
ایسی سیاسی جماعتیں بھی اپنے آپ کو نظریاتی جماعتیں کہتی ہیں جن کے کارکن
تو درکنار قائدین تک بھی نہیں جانتے کہ نظریہ کس بلا کا نام ہے۔نظریہ در
اصل افکار و تصورات کا ایسامجموعہ ہے جو کسی نظام کی بنیادیں استوار کرتا
ہے ۔یہی افکار و تصورات ایک فرد ، گروہ، تنظیم اور ادارے بلکہ پوری قوم کے
کردار اور رویوں کی تشکیل بھی کرتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر کوئی جماعت
نظریاتی جماعت قرار پا سکتی ہے۔ اصطلاحات کے کثرتِ استعمال سے نظریہ کی
کشید نہیں ہو سکتی۔ آج اگر کوئی جماعت جمہوریت کو اپنا مطمحِ نظر ٹھیراتی
ہے تو اس سے وہ نظریاتی نہیں ہو جاتی۔اگر کوئی جماعت عوام کی فلاح و بہبود
کو اپنی سرگرمیوں کا مرکزی نکتہ بناتی ہے تو اسے بھی نظریاتی نہیں کہا جائے
گا۔ یہ معاملات اب معمول کی چیزیں ہیں۔ہاں اگر ایک فراموش شدہ زرّیں اصول
کی بازیابی کی بات ہو تواس کے لیے جدوجہدکرنے والے عناصر کو نظریاتی کہا جا
سکتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے فکری جمود اور اعتقادی،علمی،سیاسی
اور معاشی انحطاط کے صدیوں پر پھیلے ہوئے طویل عرصے میں دین کے ساتھ ان کا
تعلق اسی طرح ایک انفرادی معاملہ بن گیا جس طرح مذہب عیسائیت کے پیروکاروں
کا بالکل ذاتی معاملہ ہے۔اس کا ان کی اجتماعیت سے کوئی تعلق نہیں۔وہاں سماج
کی تعمیر میں انسان کے تراشے ہوئے دیگر بہت سے تصورات کا کردار تو ہے لیکن
مذہب کو اس عمل میں دخل اندازی کا حق نہیں ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی
نشوونما اور فروغ و تقویت کے لیے ایک ایسی فضا کی ضرورت تھی کہ کوئی اس کی
راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔اس کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی فلسفہ نہیں ہو
سکتا تھا۔جمہوری فلسفے کے تحت فرد کو نفسانی مادّی خواہشات کی تسکین کے لیے
بے مہار آزادیوں کالالی پاپت تھما دیا گیا جس سے لیے فرد بھی مطمئن ہے اور
سرمایہ دار اور صنعت کار بھی خوش ہیں کہ زر اندوزی کے بے رحم عمل میں ان پر
کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
انیسویں صدی نظریات کی صدی تھی توبیسویں صدی ان نظریات کی عملی تعبیرات کی
صدی بن گئی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلمان اُمت ایک ایسی خزاں رسیدہ ویران وادی
کی مانند تھی جس میں فکر اور نظریہ کی فصل اگنی بند ہو چکی تھی۔فکر اور عمل
کی قوتیںدونوں برف کی سِلوں کی طرح جامدتھیں۔ اسی صدی کے نصفِ اول میں پہلی
مرتبہ علامہ اقبالؒ کی صورت میں پہلی موثر اور طاقت ور آواز سنائی دی جس کی
حرارت نے برف کی ان سِلوں کے اندر پگھلاہٹ پیدا کی۔احساس وشعور کی بیداری
مشاہدے میں آنے لگی۔برِّ صغیر پاک و ہند میںسیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور
عالمِ عرب میں حسن البناؒ جیسے دو کرداروں کا مطلعِ اُمّت پر ظہور
ہوا۔دونوں اقبالؒ کے حرکت و عمل کے فلسفے کی زندہ مثال اورمانندِ سیماب بے
چین اور فعّال و متحرک تھے۔یہ وہ وقت تھا جب قدیم و جدید کی لکیریں بڑی
گہری ہو چکی تھیں۔ماڈرن سوچ اور جدید تعلیم والے روایتی دینی علوم و افکار
کے حاملین کو تحقیر کا نشانہ بنا رہے تھے اور عُلمائے دین جدید تعلیم
یافتگان کو شک اور نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اقبال ؒ خود مغرب کے چشمہ
ہائے دانش و علم سے سیراب ہو چکے تھے ۔ان کی فکر کا روایت ِ ماضی سے بھی
بڑا گہرا رشتہ تھا۔وہ اہلِ دِل سے آشنا اور سرمایہِ افکارِ اسلاف سے بھی
آگاہ تھے اور اربابِ فکر جدید کی بھی ان سے دُوریاں نہ تھیں۔ قدیم و جدید
کے مابین خلیج کو پاٹنے کا وہ سب سے بڑا واسطہ تھے ۔برِّ صغیر میں تحریکِ
خلافت وہ آخری سفر تھا جس کی قیادت مجموعی طور پر علماءکے ہاتھ میں
تھی۔حالات کو دیکھتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے یہ بھانپ لیا تھا کہ یہ آخری
تحریک ثابت ہو گی جس کی قیادت علماءکو نصیب ہوئی۔وہ دیکھ رہے تھے کہ آنے
والے وقت میںجو بھی تحریکیں اٹھیں گی ان میں عُلماءشاید جدید طبقے کی رکاب
تھام کرتو چلیں لیکن عنانِ قیادت جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھ ہی میں
رہے گی۔چنانچہ انہوں نے ضروری سمجھا کہ دین کو مدرسہ و خانقاہ میں مقید نہ
چھوڑا جائے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے قلوب و اذہان کویقین و ایمان کی
روشنی بخشی جائے اور اسی کے دل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی جوت
جگائی جائے ۔چنانچہ انہوں نے خاص طور پر اپنا مخاطب جدید تعلیم یافتہ ذہن
کو بنایااور اسی کو متاثر کرنے پر سارا زور دیا۔وہ بیک وقت مغرب کے سماجی ،
سیاسی اور معاشی نظریات کی خامیوں کی نشاندہی کرکے اس کا سحر توڑ رہے تھے ،
معذرت خواہانہ رویّے کے شکارمغرب زدہ مسلمانوں کو جھنجوڑ رہے تھے اور ساتھ
ہی دین کی کاملیت، اس کے اجتماعی اور انفرادی زندگی سے تعلق کو واضح کر رہے
تھے۔ اسی کی تعلیمات کے مطابق پوری زندگی استوار کرنے کا سبق دے رہے
تھے۔دین کی اقامت اور غلبے کا صدیوں سے بھولا ہوا نصب العین یاد دلا رہے
تھے۔ فکر کی تشکیلِ جدید اور اخلاق و کردار کی تعمیر کے لیے انہوں نے جدید
اسلوب اور سائنٹیفک انداز میں تخلیق کیے ہوئے حیات بخش لٹریچر کے انبار لگا
دیے ۔ دین کی اقامت اور غلبے کی مہم اسی لٹریچر سے بنے ذہنوں اور ڈھلی
سیرتوں کے لوگوں کے سپرد کر دی۔
مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا کہ استعمار کی غلامی نے
مُسلم ملت کے اندر ادارہ سازی کا جوہر ختم کر دیا ہے ۔اس کی اجتماعی اور
تنظیمی صلاحیت کو زنگ لگ گیا ہے۔چنانچہ اُنہوں نے اپنی تحریک میں بنیادی
تجربہ نظم و ضبط کے کڑے ضابطوں کے ساتھ ایک مضبوط اور با اصول تنظیم کی
تشکیل کی صورت میں کیا۔ ایک ایسی تنظیم جس میں اصولوں اور ضابطوں کی پابندی
اور سخت نظم و ضبط اور کڑے محاسبے اور مواخذے کا میکانزم موجود ہو۔تحریکِ
خلافت کے دوران میں اپنی ساری جلالتِ علمی اور عظمتِ کردار کے باوجود
زُعمائے تحریک نے عام مسلمانوں کے مالی ایثار کو خیانت کی نذر ہونے سے
بچانے کی کوئی تدبیر نہیں کی تھی۔سیّد مودودیؒ نے مالی خیانتوں کے سدِّ باب
کے لیے اپنی تنظیم میں لازم قرار دے دیا کہ مقدس مشن کی خاطر اعانت و عطیہ
کی ادنیٰ سے ادنیٰ رقم بھی بغیر رسید کے نہ کوئی دے اور نہ کوئی لے۔ایک
مستقل شُعبہِ مالیات قائم ہوا جس میں آڈٹ (audit)کی وہ روایت جو ہماری دینی
اور سیاسی جماعتوں میںآج اکیسویں صدی میںبھی مفقودہے وہ جماعتِ اسلامی کا
ایک تابناک اصول بن گئی تھی۔مولانا مودودیؒ نے بیک وقت انسان سازی اور
ادارہ سازی پر توجہ دی۔اس وقت یہ ادارے شُعبوں کے نام سے پکارے جاتے
تھے۔شُعبہِ خدمتِ خلق اب ’الخدمت‘ کے نام سے ایک الگ این جی او کی صورت میں
اب بے پناہ خدمات انجام دے رہا ہے۔شُعبہِ نشرواشاعت بھی اول روز سے جماعت
کی انفرادیت تھی۔ جدید اصطلاح میں ابلاغ و اطلاعات کا نام پانے والایہ
شُعبہ دیگر کچھ سیاسی جماعتوں میں بہت موثر اور جاندار ہو گیا ہے مگرجماعت
اسلامی میں یہ ایک مفلوج اور بے ثمر شعبہ بن کر رہ گیا ہے۔شورائی نظام اور
ہر سطح پر قیادت کا انتخاب جو بڑی بڑی جماعتوں کے لیے آج بھی ایک انوکھی
چیز ہے، جماعت اسلامی کی یہ ایک زرّیں روایت ہے۔آج جماعت آئینِ نو سے ڈرنے
اور طرزِ کہن پہ اڑنے کا ثبوت دے رہی ہے۔ اپنی کئی شاندار روایات کو نئے
دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ ابلاغ و اطلاعات اور
شورائیت کے نظام میںکسی وسیع اور نئے تجربے سے گریزاںہے۔ میں نے کچھ عرصہ
قبل امیرِ جماعت کو تحریری تجویز دی تھی کہ جدید طرز پر ماہرینِ نفسیات و
سماجیات، تاریخِ عالم، بین الاقوامی امور، اقتصادیات اور خارجہ پالیسیوںپر
گہری نظر رکھنے والے اسکالرزپر مشتمل ایک آزاد تھنک ٹینک قائم کیا جائے جو
مسلسل تحقیق و مطالعہ کی روشنی میں ملکی اور عالمی سیاسی، اقتصادی، عسکری
پالیسیوں میں رونما ہونے والے تغیرات اور عوامی رُجحانات میں آنے والی
تبدیلیوں کی روشنی میں نئے خطوط پر جماعتی حکمتِ عملی طے کرنے میں رہنمائی
فراہم کرے۔لیکن ان کا جواب تھا کہ ہماری مجلسِ شوریٰ تھنک ٹینک کا کام کرتی
ہے۔یہ سو چ آئینِ نو سے ڈرنے،طرزِ کہن پہ اڑنے اوریبوست پسندی کی ایک علامت
ہے۔ |