حکومت غائب ۔۔۔ قوم لائن حاضر

پانچ سال سے پاکستانی قوم جس چیز کو تلاش کر رہی تھی، بلکہ تلاش کرتے کرتے تھک چکی تھی وہ بالآخر لانگ مارچ اور دھرنے کے بطن سے برآمد ہوگئی۔ عوامی آراءکی دور بین اور تجزیوں کی خرد بین سے جو چیز دکھائی نہ دے سکی وہ اسلام آباد کے افق پر طلاع ہوئی اور آنکھوں کو خیرہ کرگئی۔ یقین تو نہیں آتا مگر یقین کئے بغیر بھی چارہ نہیں۔
شاد عارفی نے کہا ہے۔
چمن سے آج کل یوں نکہتی معلوم
کہ جیسے فی زمانہ شعر سے مفہوم غائب ہے

بس کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے ہاں ریاستی علمداری کی ہے۔ اب تک چراغ نہیں بنا جسے لیکر ڈھونڈنے سے یہ مل جائے۔ میرزا نوشہ نے شاید ہماری ریاستی علمداری ہی کے بارے میں کہا تھا۔
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!

ڈاکٹر طاہرالقادری نے (ظاہر ہے تمام متعلقہ اداروں اور اپنے ”مہربانوں“ کی یقین دہانیوں اور ہدایات کی روشنی میں) کہا تھا کہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران ایک پتّہ بھی نہیں گرے گا، ایک گملہ یا شیشہ نہیں ٹوٹے گا۔ اور یہی ہوا۔ کوئی پتّہ گرا نہ گملہ یا شیشہ ٹوٹا! عوام ریاست کی ایسی علمداری کو پانچ برس سے ترس رہے ہیں۔ سڑک پر چار فائر ہو جائیں تو ہڑبونگ مچ جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی گاڑیاں نذر آتش کردی جاتی ہیں۔ تب یہ ریاستی علمداری کس کونے میں گھس جاتی ہے، کون سے پانی میں ڈوب مرتی ہے؟

پاکستان کی تاریخ کے پُرامن ترین احتجاج کا اعزاز پانے والے لانگ مارچ اور دھرنے سے یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی کہ معاملہ اہلیت کا نہیں، نیت کا ہے۔ جیسی نیت ویسا پھل۔ ہمارے ریاستی اداروں کو جب سب کچھ درست رکھنا ہوتا ہے تو سبھی کچھ درست رہتا ہے۔ اور جب یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ معاملات کو کسی بھی حال میں درست نہیں رہنے دیا جائے گا تب کس معاملے میں مجال ہے کہ درست رہ کر دکھائے!

پورے مُلک پر تھانہ کلچر مُسلّط کردیا گیا ہے۔ جب بات تھانہ کلچر کی آگئی ہے تو تھانیدار کون؟ حکومت، اور کون؟ مگر یہ کیسا تھانہ کلچر ہے کہ پانچ سال سے تھانیدار غائب ہے اور ”علاقہ پولیس“ کا بھی کہیں نام و نشان نہیں! ہاں، عوام حاضر ہیں جو ”لائن حاضر“ ہیں! عوام کسی بھی زیادتی کا ظلم کا شکار ہونے پر انصاف مانگنے نکلتے ہیں تو ہر چیز گھوم پھر کر اُنہیں پر آ گرتی ہے۔ یعنی
اُسی کا شہر، وہ مدعی، وہی منصف
مجھے یقین تھا میرا قصور نکلے گا!

پانچ برسوں کے دوران حکومت نے تواتر سے ریاستی علمداری نافذ کرنے کا راگ الاپا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ نافذ کب ہوگی؟
مر جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

اگر کہنے سے کوئی چیز قائم ہو جایا کرتے تو ہمارے ہاں کوئی بھی معاملہ حل طلب نہ رہے۔ اِس قوم کے رہبروں کو صرف زبان ہلانے ہی پر تو قدرت حاصل ہے! عوام ہر معاملے میں انتظار ہی کرتے رہتے ہیں کہ حکومتی اور ریاستی مشینری کچھ کرے، مسائل حل کرنے کی طرف مائل ہو۔ مگر شاید ہر توقع کے نصیب میں ناکامی کی خاک چاٹنا ہی لکھا ہے۔

نظم و ضبط ہو تو ہم اپنے تمام مسائل بخوبی حل کرلیں۔ مگر نظم و ضبط آئے کیسے؟ یاروں نے خاصے منظّم انداز سے کسی بھی سطح کے نظم و ضبط کا راستہ روک رکھا ہے! اور اگر کبھی بھولے سے نظم و ضبط کی منزل تک معاملہ پہنچ بھی جائے تو ضابطے کی کارروائی کے نام پر ایسی دھماچوکڑی مچائی جاتی ہے کہ معاملات کو منضبط کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے! کسی کے خلاف نظم و ضبط کے تحت کارروائی کرنے نکلیے تو یار لوگ پوری طرح منظّم ہوکر میدان میں نکل آتے ہیں!

قصور قوم کا بھی تو ہے۔ جب کسی بھی معاملے میں نظم و ضبط کو اپنانے پر توجہ دی ہی نہیں جائے گی تو معاملات کس طور درست ہو پائیں گے! زمانے گزر گئے ہیں مگر اہل وطن نے قطار بند ہونا نہیں سیکھا۔ اس کا نتیجہ لائن حاضر ہونے کی صورت ہی میں برآمد ہوسکتا تھا! اب حال یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں لائن حاضر یعنی قطار بند ہونے پر مجبور ہیں۔ وہ قوم دنیا میں کیا کرے گی جو دو دو گھنٹے سی این جی کے لیے قطار بند رہے! گاڑی کے لیے توانائی کا اہتمام کرنے میں انسان کی اپنی توانائی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے! اسلام آباد کے مسند نشینوں نے اپنی مسند مضبوط کرتے ہوئے لوگوں کو گاڑیوں کی نشستوں سے چپکا دیا ہے!

پانچ برسوں کے دوران قوم کو صرف ایک معاملے میں فراوانی میسر آئی ہے اور وہ ہیں بحران۔ ایسا لگتا ہے کہ کہ مہنگائی، بے روزگاری، بھتہ خوری کرپشن کے ساتھ ساتھ توانائی، آٹے اور چینی وغیرہ کی قلت نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے اور اپنے اپنے گھر کا رستہ بھول بیٹھی ہیں!

بحران قطار بند رہتے ہیں اور یکے بعد دیگرے تازہ دم بحران ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر ہمیں بار بار دو ڈھائی عشرے پہلے کی ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم یاد آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ویسٹ انڈین ٹیم میں اعلیٰ درجے کے چار فاسٹ باؤلرز شامل ہوا کرتے تھے۔ جب دو باؤلرز تھک جاتے تھے تو دو تازہ دم باؤلرز اٹیک کے لیے آ جاتے تھے! مخالف ٹیم کے بیٹسمین بے چارے اسپنرز کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہو جایا کرتے تھے! پاکستانی قوم بھی اچھے وقتوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہے! حکمرانوں کی نا اہلی کی زنبیل میں طرح طرح کے بحران پڑے ہیں۔ عوام ایک چیز سے اُوب جائیں تو دوسری سامنے آ جاتی ہے! دوسری سے بیزار ہوں تو تیسری حاضر ہے! حکومتیں تھکتی ہیں تو تھک جائیں، مگر آفرین ہے اِس قوم پر کہ یہ نہیں تھکتی! اِس کے نصیب میں تو دُنیا کو حیران کرنا لکھا ہے۔ بوتل بدل دیجیے اور وہی پرانی شراب پلائیے۔ اور کبھی کبھی تو بوتل بدلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی!
جو آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں!

ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کی مثال لیجیے۔ وہ ایک بحرانی کیفیت کے ساتھ وارد ہوئے اور پاکستانی قوم میں اُنہیں چاہنے والے مل بھی گئے! لائن حاضر رہنے کے خواہش مند اُن کے لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کے لیے قطار بند ہوگئے! اور جس طرح یوٹیلٹی اسٹورز کے باہر قطار بند ہونے والوں کو کچھ نہیں ملتا بالکل اُسی طرح دھرنے کے شرکاءبھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ کچھ لیکر لَوٹے ہیں۔ مگر خیر، سبھی آنے والوں کا خیر مقدم کرنے والے ”خدائی خدمت گاروں“ کو ایسی باتوں سے کچھ غرض نہیں ہوا کرتی! نعرہ سُونامی کا ہو یا انقلاب کا، لائن حاضر رہنے کا اعزاز پانے والے مفت خدمات کے ساتھ حاضر ہیں۔ غائب حکومت کو اور تقریباً ناپید ریاستی علمداری کو بھی ہم کبھی نہ کبھی دریافت کرہی لیں گے!

سیاسی آرکسٹرا میں سُروں کی بے ہنگم اکھاڑ پچھاڑ سے کوئی سُریلی چیز برآمد نہ ہوسکی۔ ہاں، اِس دھماچوکڑی کے تھمتے ہی سُریلی مہناز بیگم دُنیا سے چلی گئیں۔ سیاست ہو یا فنون لطیفہ، اب ہر شعبے سے سُریلے لوگ رخصت ہوتے جارہے ہیں! اور سیاست میں کہیں سے سُریلا پن ابھرتا دکھائی نہیں دیتا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483485 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More