جو کچھ ہمارے ارد گرد اور ہمارے
اندر ہے وہ فطرت ہے۔ ہم فطرت کا حصہ ہیں اور فطرت ہمارے وجود میں شامل ہے۔
اس تال میل کو برباد کرنا اچھی بات ہے؟ یقیناً نہیں۔ آپ تقریباً روزانہ
فطری اور غیر فطری باتوں کے بارے میں سُنتے ہی ہوں گے۔ ہر شخص یہ دعویٰ
کرتا اور سمجھتا ہے کہ وہ فطرت کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ خوش فہمی
ہے یا غلط فہمی، اِس کا تعین بہت مشکل ہے۔ اسلام آباد کے حالیہ دھرنے کے
شرکاءجب واپس گئے تب پتہ چلا کہ اُنہوں نے جناح ایونیو پر اور ڈی چوک میں
ڈاکٹر طاہرالقادری کی کال اور فطرت کی پُکار پر کس حد تک لبیک کہی تھی!
محترم نذیر ناجی نے اپنے کالم میں 100 ٹن کچرے کا ذکر کیا ہے۔ اب فطرت کی
پُکار پر لبیک کہنے کے تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔ دیہات کے لوگ
فطرت کی پُکار پر کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔ دھرنے کے شرکاءکہاں جاتے؟ اسلام
آباد کو اُنہوں نے گھر کی کھیتی سمجھ رکھا تھا اور سُلوک بھی کھیتی والا ہی
کیا! یعنی
پہنچی وہیں پہ ”کھاد“ جہاں کا خمیر تھا!
اسلام آباد میں دَھرنے کے شرکاءاگر مختلف النوع کچرا چھوڑ گئے ہیں تو حیرت
کیسی اور کیوں؟ خود دَھرنے کا انجام بھی تو کچرا ہی تھا! دَھرنے کے منطقی
انجام سے برآمد ہونے والے کچرے کا تعفن اب تک کئی کہانیاں سُنا رہا ہے۔ قوم
فیصلہ نہیں کر پارہی کہ کہانیاں سُنے یا سُونگھے؟ دَھرنا دینے والوں نے
شاید یہ سوچا ہو کہ ان کی کاوش کے سیاسی و جسمانی نتائج کو یکجا ہو جانا
چاہیے کہ ریاضی کے قاعدے کے تحت مائنس مائنس بالآخر پلس ہو جاتا ہے!
کسی سیاسی ایونٹ کے انجام سے غلاظت اور تعفن کا برآمد ہونا کوئی انوکھی بات
نہیں۔ سال بھر پہلے عمران خان کا سُونامی بھی ناکامی کے ساحل سے ٹکرایا تھا
اور اچھا خاصا کچرا چھوڑ گیا تھا۔ عوام نے جلسوں سے کرسیاں لے بھاگنے کی
روایت قائم کرکے رہنماؤں کو بتادیا تھا کہ اگر وہ اپنے کہے پر عمل سے قاصر
رہے تو اُن کی کرسیوں کی خیر نہیں۔ عقل مند کے لیے چونکہ اشارہ کافی ہوتا
ہے اِس لیے سیاست دانوں نے کرسیوں کو خیرباد کہہ کر دیگ کلچر اپنایا۔ اور
عوام نے جلسوں کے آخر میں بریانی کی دیگیں لوٹنے کی روایت ڈال کر ایک بار
پھر سیاست دانوں کے عزائم اور منصوبوں کو کچرا کچرا کر ڈالا۔
جب ہم کچھ صرف کرتے ہیں تو وہ استعمال کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول
سیاست دانوں پر بھی اطلاق پذیر ہے۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ قوم کو راہ
دِکھلانے کے بہت سے دعویدار اِس قابل ہیں کہ اُنہیں کچرا کنڈی کی راہ
دِکھائی جائے! اور سچ تو یہ ہے کہ بعض ناکارہ و لایعنی اہل سیاست کو پھینکے
جانے پر شاید کچرا کنڈی بھی متعرض ہو کہ آخر کو اُس کی بھی کچھ عزت اور
عزتِ نفس ہوتی ہے!
بیشتر سیاسی نعرے بھی اب اس قابل ہوچکے ہیں کہ کچرا کنڈی کی نذر کردیئے
جائیں۔ بعض نعرے تو اِتنے گھس گئے ہیں کہ اُن کے تار تار لباس سے اہل سیاست
کے عزائم صاف جھلکنے لگے ہیں! سیاسی جماعتیں جن نعروں کو اپنے منشور کا حصہ
سمجھ کر اب تک استعمال کر رہی ہیں اُنہیں عوام نے شاید ہنسنے کے حسین
بہانوں کی حیثیت سے قبول کر رکھا ہے! نعروں کے ملاپ سے نئے نعرے بنائے گئے
ہیں جو طرح طرح کے بحرانوں کی ستائی ہوئی قوم کو تھوڑی بہت مسرت بخوبی عطا
کرتے ہیں! نعروں کا معاملہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خوش گمانی کی زد میں
رہتی ہیں اور عوام اُن کی خوشی دیکھ دیکھ کر ”زیر لب کے نیچے“ مُسکراتے
رہتے ہیں!
کچرے کو اہمیت دینے کا کلچر اب عام ہوا ہے ورنہ اب تک تو ہم کچرے کو نظر
انداز کرتے اور ٹھکراتے ہی آئے ہیں۔ دنیا بھر میں کچرا ٹھکانے لگانے پر بہت
غور کیا جاتا ہے، منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔
کیا کچرا پروری ہے؟ بھئی جس چیز کو پھینک ہی دینا ہے اُسے پھینکنے پر کیا
غور کرنا! جہاں جی چاہے پھینک دیجیے، کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟
کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے محکمے بنانا ہمیں تو وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع
لگتاہے۔ کچرا کہیں بھی پھینکیے، کچرا ہی رہے گا۔ بعض لوگ گلی کے موڑ پر کسی
خالی پلاٹ میں بنی ہوئی کچرا کنڈی کو دیکھ دیکھ کر بیزاری اور ناراضی کا
مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ کچرا کسی صاف جگہ تو پھینکا نہیں جاسکتا۔ اور جہاں
کچرا پھینکا جائے گا وہ جگہ خود بخود گندی ہوتی جائے گی۔ اچھا ہے کہ گندی
اور ناکارہ چیز کو خوب گندی جگہ پھینکا جائے اور اِس معاملے میں کسی کی
تنقید کی پروا کی جائے نہ دُنیا بھر میں پائے جانے والے رجحانات پر توجہ دی
جائے!
دنیا بھر میں کچرا کنڈیاں قائم کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں خود کار نظام ہے۔
کسی بھی جگہ کچرا پھینکتے رہیے، کچرا کنڈی خود بخود معرض وجود میں آتی جائے
گی! اِتنا آسان طریقہ ہے اور یار لوگ بس غور ہی فرماتے رہتے ہیں اور تحقیق
کا بازار گرم رکھتے ہیں! ہمارے ہاں یہ طریقہ ایک زمانے سے رائج ہے مگر دنیا
متوجہ نہیں ہوئی۔ بارش ہوتی ہے تو تالاب معرض وجود میں آتے ہیں اور زلزلہ
آتا ہے تو بعض جگہ زمین پھٹنے سے مدفون ندی نالے بہنے لگتے ہیں!
اہل جہاں کے عجب طور ہیں۔ شہروں کے بیچ سے گزرنے والے دریاؤں اور نہروں کو
بھی ماس ٹرانزٹ سسٹم کے طور پر یا پھر سیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم
نے شہر کی حدود سے گزرنے والی لیاری ندی اور ملیر ندی کو نہایت آسانی سے
کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ بھی کچرے کی ماس ٹرانزٹ نہیں تو اور کیا
ہے؟ سفر کے لیے سڑکیں ہیں تو سہی۔ لیاری ایکسپریس وے بناکر ہم نے اپنے ہی
اُصولوں سے ”غداری“ کی ہے! اگر ندی نالوں کو سفر اور سیر کے لیے استعمال
کیا جانے لگا تو لوگ کچرا کہاں ڈالیں گے؟ یومیہ سفر تو ہوتا آیا ہے اور
ہوتا رہے گا۔ اِتنی سی بات کے لیے لوگوں کو کچرا اٹھائے اٹھائے پھرنے کی
زحمت سے دوچار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
میڈیا کے جادو گروں کا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے کچرے کو قابل قبول بنادیا
ہے، جس طرح میک اپ آرٹسٹ آڑے ترچھے چہروں کو بھی حُسن دِل آرام کی منزل تک
پہنچاکر دم لیتے ہیں! خیر سے اب ہم ہر طرح کے سیاسی کچرے کو نہ صرف گلے
لگائے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اپنی رَو میں بہتے ہوئے پرستش کی منزل تک
پہنچ جاتے ہیں! یہ کچرا پرستی ہی تو ہے جس کا مُشاہدہ کرتے ہوئے اب دُنیا
ہمیں کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے پر تُلی ہوئی ہے! |