نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلَی
رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم اَمَّابَعْد فَاَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ
الرَّجِیْم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ قَدْجَآءَ کُمْ مِّنَ
اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَا بٌ مُّبِیْن۔ (المائدہ پارہ 6آیت15)
ترجمہ: ’’بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک روشن کتاب۔‘‘
(ترجمہ کنزالایمان )
اس آیہ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صاحب لولاکﷺ کے نور پاک کا
ذکر فرمایا ہے۔
نُور کی لغوی تحقیق: نور عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’نار‘‘ ہے۔ نور
کے لفظی معنی روشنی کے ہیں۔ صاحب القاموس المحیط (مشہور عربی لغت)مجدالدین
فیروز آبادی نور سے یہ چیزیں مراد لیتے ہیں۔ روشنی ۔ روشنی کی کرن۔ اور ذاتِ
مصطفی ﷺ ۔
وہ ، جو چیزوں کو ظاہر کر دے اسے نور کہتے ہیں۔ (فیروز اللغات)
نور کی اصلاحی تحقیق : وہ نور جو اسوقت پیش نظر ہے اس سے نورِ خدا اور
نورحبیب خدا ﷺ مراد ہے، باقی انوارِ جہاں بھی انہیں کے ضیاء یافتہ ہیں،
لیکن باقی انوار نور مصطفےٰﷺ کے طفیل وجود میں آئے ۔
نور کی اقسام : نور کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
i۔ نورِ بصیرت ii۔ نورِ بصارت
i۔ نوربصیرت : نور بصیرت سے مراد نور قلبی (یعنی عقل و شعور کی روشنی) جس
کی مدد سے کوئی ذات کسی معاملہ کی عمیق گہرائیوں تک جھانک کر دیکھنے کی
صلاحیت رکھتی ہے اور اس نورِ بصیرت کی بدولت وہ ہستی ایسی باتوں کو جان
لیتی ہے اور ایسی چیزوں کو دیکھ لیتی ہے، جن کو چہرے کی آنکھ اور ظاہری
احساس دیکھ اور جان نہیں سکتے۔ مثلاً کسی کے دلی ارادے کو بھانپ جانا اور
کسی کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات کو جان لینا یہ نورِ بصیرت کی روشنی
کی مدد سے ہوتا ہے اس نور کو نورِ فراست کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ حدیث پاک
میں آتا ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اِتَّقُوْا
بِفِرَاسَۃَالْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ ےَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ۔ترجمہ: ’’تم
مومن کی فراست سے بچو، اس لئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ (الجامع
الصغیرین)
مذکورہ بالا حدیث میں جس نورِ پاک کا ذکر ہے، وہ نورِ بصیرت ہی ہے۔ کہا
جاتا ہے کہ جب صاحبِ حال لوگوں کی محفل میں جاؤ تو اپنے دل کو بدگمانی اور
برُے خیالات سے پاک رکھو،اس لئے کہ مومن اپنے نورِ بصیرت سے دلوں کی کیفیت
جان لیتا ہے ۔
ii۔ نورِ بصارت: آنکھ کو عربی زبان میں بصر بھی کہتے ہیں اور آنکھ کے
دیکھنے کی قوت کو، نورِ بصارت کا نام دیا جاسکتا ہے ۔حاصل کلام یہ کہ ظاہری
آنکھ کا نور یعنی روشنی جس کی مدد سے آنکھ دیکھتی ہے، اسے نورِ بصارت کہا
جاتا ہے ۔
مذکورہ بالا آیت میں حضوراکرم ﷺ کی ذات بابرکات اور قرآن حکیم کی آمد کا
تذکرہ ہے۔ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنَ۔ دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کے
درمیان واؤ عطف کی ہے جو چیزوں کی جنسوں میں اختلاف کا اظہار کرتی ہے
مرادیہ کہ نور اور چیز ہے اور کتاب مبین اور چیز ہے اور نور سے مراد ذاتِ
حضور اکرم ﷺہے جبکہ کتابِ مبین قرآن پاک کو کہا جاتا ہے۔
صحابہ کرام اور تمام علمائے حقانیّن اس نورسے حضور اکرمﷺ کی ذات ہی مراد
لیتے ہیں۔ صاحبِ جلالین اس آیت کی تفسیر یوں فرماتے ہیں: قَدْ جَآءَ کُمْ
مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ ، ھُوَ النَّبِیُّ ﷺ۔
تفسیر صاوی میں ہے: اَیْ سُمِّیَ نُوْرًا لَاِنَّہُ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ
وَیَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَلِاَنَّہُ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَّ
مَعْنَوِیٍّ۔ ترجمہ:’’ حضور اکرم ﷺ کا نام نور اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپﷺ
بصائر کو روشن کرتے ہیں اور ان کو صحیح راہ دکھاتے ہیں اور اس لئے کہ آپﷺ
ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں۔‘‘
(تفسیر صاوی حصہ اول، ص۲۳۹)
تفسیر روح المعانی میں ا سی آیت کے تحت یوں فرمایا گیا: وَھُوَ نُوْرَ
الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارِﷺ وَاِلٰی ھٰذَا ذَھَبَ قَتَّادَۃُ
وَاخْتَارَہُ الزَّجَاجُ:’’ نور سے مراد نور الانوار اور نبی المختارﷺہیں۔
یہی مذہب قتادہ کا ہے اور اسی کوزجاج نے اختیار کیا ہے۔‘‘ ان تفاسیر کے
علاوہ تفسیر حسینی ، خازن اور نسفی نے بھی نور سے مراد ذاتِ مصطفےٰ علیہ
الصلوٰۃ والسلام لی ہے۔
ان تفاسیر کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ آیتِ مذکورہ میں جس کا ذکر ہے، وہ
نورِ مصطفےٰﷺ ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں مومنین کو آگاہ
فرمایا ہے کہ میرا نورِ منیر آگیا ہے اور اپنے ساتھ کھول کھول کر بیان کرنے
والی کتاب بھی لے کر آیا ہے۔ میرا یہ نور پہلے تو اپنی نورانی کرنوں سے
تمہارے دلوں کو نورِ ایمان کی روشنی فراہم کریگا۔ پھر تمھیں ایک ضابطہ حیات
عطا فرمائے گا تا کہ تم اس نور کے عطاکردہ نور بصیرت کی مدد سے اس کتاب
مبین کو پڑھو اور اس میں درج شدہ ہدایات کے مطابق عمل کر کے صراطِ مستقیم
پر گامزن ہو جاؤ اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پایہ تکمیل تک پہنچا دو۔
نور مصطفیﷺ حدیث مبارکہ میں: شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ مدارج
النبوۃ میں تحریرفرماتے ہیں کہ پیارے مدنی تاجدار ، آقائے نامدار، شب اسراء
کے دولہا، بیکسوں کے کس اور بے بسوں کے بس حضور اکرم رسول محتشمﷺ نے ارشاد
فرمایا: اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی ’’اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس
چیز کو پیدا فرمایا، وہ میرا نور ہے۔‘‘ (مدارج النبوۃ فارسی ج۲)
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ ایک مرتبہ بارگاہِ مصطفویﷺ میں حاضر ہوئے اور حضور
اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوئے یارسول اﷲ ﷺ مجھے بتائیں کہ اﷲ رب
العزت نے سب سے پہلے کس چیز کو تخلیق فرمایا؟ اس پر حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا: یَاجَابِرُ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْیَآءِ
نُوْرَ نَبِیِّکَ مِنْ نُوْرِہٖ۔۔ ۔ اِلَی الْاٰخر: ’’اے جابر (رضی اﷲ عنہ
) بے شک اﷲ تعالیٰ نے سب چیزوں سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے
پیدا فرمایا۔‘‘ (زرقانی شریف ج۱، شرح شفاء ج ۔۱)
اس حدیث پاک کو بہت سے محدثین کرام اور علمائے عظام نے اپنی کتابوں میں درج
کیا ہے، مثلاً صاحب فتوحات احمدیہ علامہ سلیمان جمل رحمۃ اﷲ علیہ، علامہ
ابن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’شرح قصیدہ ہمزیہ‘‘ اور دیوبندی حضرات کے
معتبر اور معروف عالم مولوی اشرفعلی تھانوی نے اپنی مشہور
تصنیف’’نشرالطیب‘‘ کے صفحہ ۷ پر اس حدیث جابر رضی اﷲ عنہ کو نقل کر کے اس
پر اپنے اطمینان کا ثبوت پیش کیا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ
اپنی شہرہ آفاق کتاب’’مدارج النبوۃ‘‘ میں یہ حدیث پاک نقل فرماتے ہیں:
اَنَا مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنْ نُوْرِیْ۔ ترجمہ: ’’حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اﷲ تعالیٰ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں اور مومن
میرے نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘
ان احادیث مبارکہ میں حضور اقدس ﷺ کے اﷲ تعالیٰ کے نور ہونے اور تمام
مخلوقات کے نور مصطفیﷺ سے پیدا ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
نور مصطفیﷺ کی پیدائش : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ اللّٰہ خَلَقَ
نُوْرِیْ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِاَرْبَعَۃَ
عَشَرَ اَلْفَ عَامٍ۔ترجمہ: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ
نے میرا نور آدم علیہ السلام کی پیدائش سے چودہ ہزار سال پہلے پیدا کیا۔‘‘
(جواہر البحار،ج۔۳)
کیا نور بشر ہو سکتا ہے؟ اور اگر یوں کہا جائے کہ حضورنبی اکرم ﷺ اگر نور
تھے تو بشریت کیسے حاصل ہوئی، حالانکہ نور بشر نہیں ہوسکتا۔ تو عرض یہ ہے
کہ نور کا بشر ہونا بعید از قیاس نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ـ’’تو
وہ (جبرائیل ) اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘ (سورۃ
مریم آیت۱۸)
حضر ت جبرائیل امین جب بھی حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو حضرت دحیہ
کلبی رضی اﷲ عنہ کی شکل میں آتے تھے۔
حضرت عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ایک دن ہم بیٹھے تھے کہ اچانک ایک
شخص آیا، وہ سفید کپڑوں میں ملبوس تھا، بال کالے تھے ،سفر کا کوئی اثر نہ
تھا اور ہم میں سے اسے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ حضور اقدسﷺ کی خدمت میں دو
زانو ہو کر بیٹھ گیا اور سوال کرنے شروع کر دئیے۔ بہت سوالات کے بعد جب وہ
آدمی چلا گیا تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اَتَدْرِیْ مَنِ
السَّائِلُ یَا عُمَرُ قُلْنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ
فَاِنَّہٗ جِبْرَئِیلُ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔ ترجمہ: ’’اے
عمررضی اﷲ عنہ! تم جانتے ہو کہ سائل کون ہے۔ میں نے عرض کیا اﷲ اور اس کا
رسول جانیں۔ فرمایا بیشک و ہ جبرائیل تھے تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
(مشکوٰۃ کتاب الایمان)
اگر جبرائیل امین علیہ السلام کبھی ضرورتاً سیدہ مریم علیہ السلام کے پاس
لباس بشریت میں جاسکتے ہیں اور کبھی حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں صحابہ کو
دین سکھانے کے لئے لبادہ بشریت میں تشریف لا سکتے ہیں جو کہ نور ہیں تو
ہمارے آقا و مولا علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام ضروریاتِ انسانی کی تکمیل و
رہنمائی کے لئے بھی لبادہ بشریت میں جلوہ گر ہو سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اﷲ
تعالیٰ کے حبیب پاکﷺ کی حقیقت نور ہے اور امت کی رہنمائی کے لئے لبادہ
بشریت عطا فرمایا گیا۔ صحابہ کرام نے سیدالانبیاﷺ کو نورکہا اور نور ِ
مصطفیﷺ کا اقرار کیا۔ یہی اہلسنت و جماعت کا مذہب ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ
میں دعا ہے کہ اپنے حبیب کریمﷺ کے صدقہ سے سب کو حق سمجھنے اور حق پر قائم
رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |