چک ہیگل ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

اسرائیل اور امریکہ کی بااثر صہیونی لابی ایک طرف تہران پر حملے کی شیخیاں بگھار رہی ہے تو دوسری جانب اسی موضوع کی روشنی میں پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کے مابین مخاصمت کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ اسرائیلی حملے کی غوغہ ارائیوں ایران کو عالمی امن کے لئے سخت خطرات کا زمہ دار ٹھرانے کی لغویات اور آئے روز تہران پر دہشت گردی کی بہتان تراشیوں و یورش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور یہ وہ سوالات ہیں جو دنیا بھر کے اربوں انسانوں کے ازہان میں گردش کررہے ہیں۔ کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے؟ کیا اسرائیل گریٹر اسرائیل کے جنونی خواب کو عملی جامعہ پہنا سکتا ہے؟ کیا تل ابیب مڈل ایسٹ پر اپنی چودراہٹ قائم کرلے گا؟اسرائیل نے دسمبر2008 میں حماس کو سبق سکھانے کی خاطر غزہ پر قیامت صغری برپا کردی۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کے ہر کونے کھدرے پر جدید ترین میزائل اور جوہری ہتھیار اتنی بڑی تعداد میں برسائے جسکی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ علاوہ ازیں اس سے قبل بے سائباں و بے خانماں فلسطینی رجال کاروں پر ایسی سفاکانہ بمباری کبھی نہیں ہوئی۔اسرائیل کے ادم خور فوجی پائلٹوں نے گوکہ غزہ شہر کو ملیامیٹ کردیا تاہم وہ 8 دنوں میں Hamas کے سرفروشوں کو پسپا نہ نہ کرسکے۔مزاحمت کار فلسطینی مجاہدوں نے امریکہ اور مغرب کی فوجی حمایت رکھنے والی ایٹمی قوت اسرائیل کا ایرانی ساختہ راکٹوں سے نہ صرف دفاع کیا بلکہ صہیونیوں کو شکست کا ناسور چاٹنے پر مجبور کردیا۔ قبل ازیں ماضی قریب میں لبنان کی حزب اللہ نے بھی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔یوں اس تناظر میں اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں ایران کے جوہری اثاثوں کو نابود کرنے کی اسرائیلی خواہش کا شیش محل اس وقت کرچی کرچی ہوگیا جب امریکی صدر اوبامہ نےchuck hegal کو وزیر دفاع بنادیا۔ صہیونی لابیوں نے چک ہیگل کو وزیردفاع اور جان برننن کو cia چیف اور جان کیری کو وزیرخارجہ بنانے پر ہاہاکار مچارکھی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے مطابق اوبامہ نے چک ہیگل اور جان برنن کی تعیناتی پر شائیں شائیں کرنے والی صہیونی لابیوں کو نظر انداز کردیا۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق چک ہیگل نے2003 میں عراق جنگ کی شدید مخالفت کی تھی۔ صہیونی گروہ چک ہیگل کو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی سمجھتے تھے مگر وزیردفاع نے ہمیشہ اسرائیلی مفادات کے لئے اپنی خدمات سے یکسر انکار کیا۔ویت نام جنگ میں اچھی کارکردگی پر 65 سالہ ہیگل کو ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ ماضی قریب میں چک ہیگل نے ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ جنگی پلان پر جی بھر کر تنقید کے تیر چلائے تھے۔چک ہیگل افغانستان میں قیام امن کی خاطر ایرانی شمولیت کو جزو لانفیک سمجھتے ہیں۔امریکی فارن افس کی اہلکار ارون ڈیوڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے چک ہیگل نے سال قبل امریکہ میں سرگرم صہیونی جتھوں کو آڑے ہاتھوں لیاکہ وہ امریکیوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔امریکی سینیٹر لینڈے گراہم کا کہنا ہے کہ امریکی ہسٹری میں پہلی مرتبہ ایساہوا ہے کہ وزارت دفاع کی سربراہی اینٹی اسرائیل سوچ رکھنے والے انصاف پسند شخص کو ملی ہے۔ریپبلکن پارٹی کے ممبران کانگرس نے جگالی کی ہے کہ چک ہیگل کو وزیردفاع مقرر کرنے سے مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے لئے غلط پیغام جائیگا۔ العریبیہ ٹی وی کی رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ چیک ہیگل اور وزیرخارجہ جان کیری کی تقرری صہیونیوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے اسی لئے صہیونیوں نے چک ہیگل اور جان کیری کے خلاف شر انگیز پروپگنڈہ شروع کررکھا ہے۔ وزیرخارجہ جان کیری بھی مسئلہ فلسطین کا حل دوریاستی نظرئیے میں دیکھتے ہیں۔ صہیونیت کی دست گیری سے چلنے والہ مغربی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا >غلط فیصلہ< کے عنوان سے دھڑا دھڑ اشتہار ریلیز کررہا ہے کہ چک ہیگل کو وزیردفاع بنانا اوباماہ کیمپ کا غلط فیصلہ ہے۔امریکہ میں یہودیوں کی نمائندہ تنظیم ائی پیک کے ترجمان گوش بلاک کا کہنا ہے کہ چک ہیگل کے نظریات و خیالات نہ تو ڈیموکریٹس کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں اور نہ ہی ریپبلکن سے۔ یہ بات طئے ہے کہ چک ہیگل کی موجودگی میں تہران پر امریکی حملے کے امکانات فی الحال معدوم نظر آتے ہیں۔وزیردفاع ایران پر لشکر کشی کے حق میں نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کیا گریٹر اسرائیل کا صہیونی خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟ صہیونیوں کے ڈیزائن کردہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں اسکی سرحدیں نیل سے لیکر فرات تک اور بغداد سے لیکر امارت تک دراز ہیں۔ عرب دنیا میں مستقبل قریب میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ اسرائیل امریکہ اور انکے حواریوں کے کنٹرول میں نہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کا ڈارلنگ حسنی مبارک غتر بود ہوچکا ہے۔مصر میں اخوان المسلیمین کے نظریاتی جانثار صدر اور دیگر پارلیمانی اور سرکاری عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ اردن میں اسرائیل نواز شہنشاہیت کا سورج دھیرے دھیرے غروب ہوتا جارہا ہے اور وہاں تبدیلی اظہر من التمش ہوچکی ۔ امریکہ ترکی یورپی یونین اسرائیل نے شام میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاہم بشارالاسد نے صورتحال کو قابو کررکھا ہے۔اسی طرح لبنان کی حزب اللہ نے2000 2004 اور2006 میں اسرائیل کے ساتھ33 روزہ جنگ لڑی اور لبنان کے سارے مقبوضہ علاقے واگزار کروائے۔اسرائیل جو خود غاصب اور نسل پرستانہ مملکت ہے نے فلسطین کے اندر اور سرحدوں پر دیواریں تعمیر کررکھی ہیں اور وہ ایک مخصوص علاقے تک مقید ہوچکا۔یوں گریٹر اسرائیل کا خواب بھی چکنا چور ہوچکا۔ ایران خود طاقت ور ملک ہے۔ایران نے سائنسی جنگی ٹیکنالوجی اور میزائل سازی میں تحیر انگیز ترقی کی منازل طئے کی ہیں۔ایران کسی سپرپاور یا ناجائز اولاد کی عسکری قوت کے لئے ترنولہ نہیں رہا۔ امریکہ دعوی کرتا رہا ہے کہ ڈرون ایروپلین جاسوس طیاروں کا کوئی مقابلہ دنیا کا کوئی ریڈار اور سیارہ نہیں کرسکتا۔ ایران نے نہ صرف دو امریکی ڈرون طیاروں کو شناخت کرلیا بلکہ اسے زمین پر لینڈ کروانے میں کامیاب رہا۔ایران نے خود ایسے ڈرون جہاز بنالئے ہیں جنکی نشان دہی امریکی و اسرائیلی ریڈار نہیں کرسکتے۔حزب اللہ نے2012 میں ایران کے ڈرون طیارے کو اسرائیلی فضائی حدود میں بھیجا جو چار گھنٹے اسرائیل کی ایٹمی لیبارٹریوں کی تصاویر اور دیگر معلومات بھیجتا رہا۔ اسرائیل نے چار گھنٹوں کے بعد اسے تباہ کیا۔ ایران کسی متوقع جارہیت کے پیش نظر خلیج اور سعودی عرب سے یورپ امریکہ تک جانیوالی تیل گیس پائپ لائن ابنائے ہرمز کو خلیج فارس میں درگور کردے گا جو معاشی بدحالی اور مغرب میں انرجی بحران پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ ہیگل کی بطور وزیردفاع تعیناتی نے صہیونیوں و یہودیوں کا سکھ چین چھین رکھا ہے۔ ہیگل کا ماضی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کا مخالف رہا ہے۔ ہیگل کسی ملک کے معاملات میں عدم مداخلت اور عدم فوجی کاروائی کے فلسفے پر کاربند رہنے والا لیڈر ہے۔ مغربی تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہیگل کے دور میں مڈل ایسٹ میں حقیقت پسندانہ اقدامات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ایران پر مسلط کی جانیوالی اقتصادی پابندیوں میں ریلیف کا امکان دیکھا جاسکتا ہے۔بریڈلی برسن یہودی تجزیہ نگار ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہیگل کی وجہ سے اسرائیل کے متعدد دروازے بند ہوچکے۔اوبامہ نے ہیگل کو وزیردفاع بنا کر حملے کے متعلق اسرائیل کو واضح پیغام دے دیا ہے۔تل ابیب سے شائع ہونے والے اخبار >یدعوت احرنوت <میں معروف یہودی مبصر> ازولائی< اپنے ارٹیکل میں رقمطراز ہیں کہ ہیگل کسی صورت میں اسرائیل کو ایران پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے۔ایران کو ہٹ کرنا اسان نہ ہوگا۔ ازولائی کے مطابق صہیونی اور اسرائیل نواز لابیاں واویلہ کررہی ہیں کہ نامزد وزیر دفاع چک ہیگل حماس اور حزب اللہ کو سیاسی قوت اور انکے ساتھ مذاکرات کو ضروری قرار دیتے ہیں اس پر طرہ یہ کہ وہ ایران کے ایٹمی ہتھیاروں پر حملے کے اپشن پر غور ہی نہیں کرتے۔ چک ہیگل اور جان کیری کا بالترتیب وزیردفاع اور وزیرخارجہ بننا خوش ائند ہے۔ ایران پاکستان سمیت oic چک ہیگل کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے۔ستاون اسلامی ملکوں کو عدم مداخلت اور عدم فوجی کاروائی کے پیروکار چک ہیگل کی اخلاقی سیاسی اور تہذیبی حمایت کرنی چاہیے۔ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا ایران کے جوہری تنازعے فاٹا میں دھڑا دھڑ ڈرون حملوں کی یلغار اور مسئلہ فلسطین سمیت تمام مسائل کو چک ہیگل کے ساتھ مذاکرات سے حل کرنا وقت کی لازم ضرورت ہے مگر امت مسلمہ کو اسکے ساتھ ساتھ تصویر کے دوسرے رخ کے اس جملے پر بھی غور و خوض کرنا چاہیے۔بچھو چاہے مسجد میں پیدا ہو یا مندر میں اسکی فطرت میں ڈسنا نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے۔ کیا چک ہیگل کو صحراوں کی تپتی لو میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا کہا جا سکتا ہے؟
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.