اقوام کے عروج و زوال کی تاریخ
تو آپ سب نے بھی پڑھ رکھی ہوگی ، جب میں نے اُن تاریخوں کا مطالعہ کیا تو
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوئی کہ قوموں کو سرفرازی، کامیابی و کامرانی،
عظمت و سر بلندی اور عزت و افتخار کے بامِ عروج تک پہنچانے میں اتحاد و
اتفاق، جذبہ خیر سگالی اور اخوت و بھائی چارگی نے ہمیشہ سے ہی نہایت اہم
کردار ادا کیا ہے۔عزت و افتحار کی فلک بوس چوٹیوں سے ذلت و رسوائی، پستی
اور انحطاط و تنزلی کی رسوا کن وادیوں میں قومیں اس وقت جا گرتی ہیں جب
قوموں کے اندر باہم اخوت و اتحاد کی رسی کمزور پڑ جاتی ہے اور معاشرے میں
ظلم، بد کرداری، نا اتفاقی، خود غرضی، نا انصافی اور عدم تعاون جیسی مہلک
بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے قومی و سماجی بنیادوں کو
دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہیں، اس کے بدلے میں ہمارا پورا معاشرہ
عدم توازن سے دوچار ہوکر تنزلی کی گہرائیوں میں گِر رہا ہے۔ ان تمام
صورتحال کے نتیجہ میں پوری قوم بد امنی و انارکی، انتشار و لا قانونیت کا
شکار ہوکر ذلت و رسوائی اور بے یقینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کے عوام حکومت سے اپنے مطالبات پورے
کرانے کی خواہش کرتے ہیں، ان کے لئے کوشش کرتے ہیں، ملک کے عوام اپنے لئے
حکومت سے سہولیات چاہتے ہیںتاکہ ان کی زندگی آرام سے گذرے، ان کو حکومت سے
روزگار چاہئے اور حکومت کا فرض ہے کہ ملک کے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم
یافتہ لوگوں کو روزگار مہیا کرائے تاکہ معاشی حالت بہتر رہے۔ مگر ہمارے
یہاں روزگار دینے کے بدلے رشوت کے طور پر اتنا روپیہ مانگ لیا جاتا ہے کہ
روزگار مانگنے والا خود ہی شرمندہ ہوکر واپس پلٹ جاتا ہے، کہ کوئی ان سے
پوچھے کہ اگر اتنا روپیہ روزگار مانگنے والے کے پاس ہوتا تو وہ کوئی
کاروبار نہ کر لیتا۔اگر اس طرح کے ضروریات کو حکومت پورا نہیں کرتی تو دنیا
کے ہر ملک کے عوام حکومت کے خلاف رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کے عوام
بھی اپنے ملک کی حکومت سے مذکورہ مطالبات، سہولیات اور روزگار چاہتے ہیں ،
تو کیا بُرا چاہتے ہیں۔ انتخابات کے وقت عوام ووٹ دینے کا فیصلہ خود کرتے
ہیں اور اس فیصلے کا دارومدار حکومتوں کی کارکردگی پر ہوتی ہے کہ کس نے
عوام کے لئے بہتر سہولیات مہیا کی ہیں۔ اس پیرائے میں دیکھا جائے تو آزادی
کے بعد سے اب تک جس جس نے بھی حکومت کی ہے ان میں عوام کی داد رسی کا عنصر
موجود نہیں ہے۔ عوام کے ووٹ دینے کے بعد سب بدل جاتے ہیں اور اپنے ہی ڈگر
پر چلنے لگتے ہیں۔ پھر جب ووٹ کا سیزن شروع ہوتا ہے تو پھر سے عوام ، عوام
کا واویلا کیا جاتا ہے۔
ہر حکومت عوام کی بھلائی کا سوچتی ہے اعلان کرتی ہے ، اسکیمیں لاﺅنج کرتی
ہیں مگر پتہ نہیں وہ صرف کاغذوں تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس کا
ثمر اثر و رسوخ والے لوگ ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ سُود ہمارے معاشرے میں لعنت
کی طرح رچ بس گیا ہے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا اعلان تو ہوتا ہے مگر عوام
ان سے ناپید رہتے ہیں۔ اگر کوئی غریب نوکری پیشہ مکان خریدنے کا سوچتا ہے
تو سود پر رقم لینا ہی پڑتا ہے۔ اب یہ سود پر رقم دیتا کون ہے اور کس طرح
اس کی وصولی کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں ایک ادارہ ہے ہاﺅس بلڈنگ فنانس
کارپوریشن اگر حکومت اس کی اوور ہالنگ کرے تو غریب عوام اس سے آسان شرائط
پر اپنے بچوں کے لئے مکان کا حصول آسانی سے کر سکتے ہیں مگر میرے ایک دوست
آج بھی پریشان حال ہیں اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ جناب اپنے بچوں کے لئے
مکان خریدنا تھا کچھ رقم کی کمی تھی تو HBFCسے لون لینا پڑا۔موصوف کہتے ہیں
کہ لون تو مل گیا مگر لون حاصل کرنے کے لئے بھی انہیں رشوت کے طور پر
افسران کے جیبوں کو گرم کرنا پڑا۔ جناب میں تو سُن کر حیران ہوں کہ بقول ان
کے پانچ لاکھ روپئے لون لئے اور اٹھارہ سالوں میں انہیں بیس لاکھ روپئے
واپس کرنے ہیں۔ اوّل تو سُود ہمارے اسلام میں سخت نا پسندیدہ عمل ہے ۔ پھر
بھی لوگ بچوں کے لئے یہ جوکھم اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اس کا مطلب
یہ نہیں کہ سود کی رقم اس قدر زیادہ ہو کہ بندہ اس قرض کو اتارتے اتارتے
قبر کی گود میں پہنچ جائے۔ پانچ لاکھ پر بیس لاکھ لینا اور وہ بھی ایک غریب
چھوٹے گریڈ کے ملازم سے کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی
ضرورت ہے تاکہ آسان اور قدرے کم سود پر لوگ اپنے بچوں کے لئے مکان حاصل کر
سکیں۔ غریب اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ہر ماہ یہ رقم کی اقساط بھر بھر کہ تھک
جاتا ہے مگر قرض ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔حکومت صرف اپنی سہولیات اور حقوق
کو دیکھتی ہے اگر حکومت عوام کی سہولیات و ضروریات کو پورا کرتی رہے تو لوگ
حکومت سے خائف کیوں ہوں۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی سہولت جس کا
براہِ راست تعلق لوگوں سے ہوں اس پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
پاکستان کے ماہرین اقتصادیات اور منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ کرپشن ایک
عالمگیر مسئلہ ہے اور ہمارا ملک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے لیکن یہ دلیل
سوچنے سمجھنے والے ذہن قبول نہیں کرتے خاص طور پر اس لئے کہ ہمارے ملک و
آزاد ہوئے تقریباً 65 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اور جمہوری نظامِ حکومت اپنانے
کے باوجود یہاں کرپشن کا بول بالا تعجب خیز نہیں بلکہ افسوسناک بھی ہے۔
کرپشن کا یہ گراف اتنا بڑھ گیا ہے کہ عام آدمی کو سرکاری محکموں یا عوامی
خدمات کے جائز استعمال میں بھی رشوت دینا لازمی امر بن گیا ہے۔ عالمی بینک
کی ایک رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی
بالخصوص نچلے متوسط طبقہ کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، بدعنوان
نوکر پیشہ، ٹھیکیدار اور مجرموں کے اشتراک نے کرپشن کو اور بھی زہرناک بنا
دیا ہے۔ جب عوام کی ضرورتیں پوری نہیں ہونگی اور بد عنوان معاشرہ کے چنگل
سے ملک کو نجات نہیں ملے گی اس وقت تک ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا
نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جلد سے جلد حکمرانوں کو سمجھ لینا
چاہیئے اور اس کی روک تھام کیلئے از سرِ نو اقدامات کرنے میں پہل کرنی
چاہیئے۔
کرپشن ، رشوت ستانی کے عروج میں یہاں کے قانون کا بھی دخل ہے کیونکہ بد
عنوانی کوئی بڑا گناہ نہیں سمجھا جاتا، اسی لئے جتنی بھی بڑی مچھلیاں بد
عنوانی کے الزام میں پھنستی ہیں آخر کار چھوٹ جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی غریب
اس کی لپیٹ میں آگیا تو اس کی زندگی جیل کی نظر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا آج کی
پہلی ضرورت یہ ہے کہ بد عنوان عناصر کے درمیان جو مضبوط اشتراک ہے اس کو ہر
صورت توڑا جائے نیز بلا امتیاز سزا اور احتساب کا نظام رائج کیا جائے تاکہ
صبح و شام میں بننے والے تمام اسکینڈلز پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے ایسے
گھناﺅنے مسئلے سے عوام کو نجات دلائی جا سکے۔ یہ عوام بھی آپ ہی کے ہیں
مانا کہ ان کی ضرورت پانچ سال میں ایک بار پیش آتی ہے جو ووٹ کی صورت میں
ہوتی ہے مگر اس ووٹ کا قرض اتارنا بھی آپ پر فرض ہوتا ہے اس لئے ایسے تمام
اقدامات بروئے کار لائے جائیں جس سے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی
زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہو سکیں جس کے ثمرات ان کے بچے محسوس کر سکیں۔
اچھی حکومت ہوگی تو عوام ایسی حکومت کو اچھے الفاظوں میں یاد کریں گے جیسا
کہ لوگ آج بھی قائد اعظم محمد جناح ؒ کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ امید پر ہی
دنیا قائم و دائم ہے اس لئے عوام بھی اپنی امید کا دامن نہیں چھوڑتے کہ
کوئی حکومت تو ایسی ہوگی جن کے دل میں عوام کا درد بھی پنہاں ہوگا۔ اللہ
تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اچھی، انصاف پسند، عوام سے مخلص حکومت عطا فرمائے۔
آمین |