عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے آل
پارٹیز کانفرنس کی دعوت پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے شرکت سے انکار
کردیا ہے۔ جمعیت علماءاسلام (ف)، جماعت اسلامی نے سخت رویہ اپناتے ہوئے آل
پارٹیز کانفرنس کو امریکی خوشنودی قرار دیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب
سے حمایت کا اعلان نہیں کیا گیا۔اے این پی کی جانب سے نگراں سیٹ اپ سے ایک
ماہ قبل آل پارٹیز کانفرنس کو محض پوائنٹ سکورنگ قرار دیا جارہا ہے۔ بیشتر
حلقے متفق ہیں کہ اے این پی نے اپنی تاریخ کے سب سے سنہرے دور میں بھی
عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور وفاق سمیت تین صوبوں میں حکومتی
اتحادی ہونے کے باوجود اے این پی کی قیادت دہشت گردی کےخلاف موثر حکمت
بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو صرف ایک ماہ میں وہ کس طرح دہشت گردی کے
خلاف کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں پختون قوم کو سخت مسائل کا سامنا رہا اور ہزاروں قیمتی جانوں
کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ دہشت گردی کے واقعات میں اے این پی کے بھی اہم افراد
کو نشانہ بنا یا گیالیکن مجموعی طور پر اے این پی کے دور اقتدار میں دہشت
گردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی جان
و مال کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا۔خیبر پختوخوا ، بلوچستان اور کراچی میں
لاکھوں پختونوں کو مختلف دہشت گردی کے واقعات میں لسانیت، قومیت کی بنیاد
پر نشانہ بنایا گیا ۔دیگر قومتیں بھی دہشت گردی کا مذموم نشانہ بنیں لیکن
بد قسمتی سے پختون قوم کی نسل کشی منظم سازش کی تحت کی گئی اور اس سلسلے کو
روکنے کےلئے اے این پی کی تمام قیادت نے کوئی بھی پالیسی نہیں بنائی۔اے این
پی کی جانب سے کچھ مثبت اقدامات بھی کئے گئے لیکن اس میں اس قدر تاخیر کردی
گئی کہ عوام میں ان اقدامات کے ثمرات پہنچنے کی توقعات بہت کم ہیں۔خیبر
پختوخوا میں اے این پی کے عہدے داروں اور کارکنان کی ہلاکتوں کے باوجود اے
این پی کسی مربوط حکمت عملی کو نہیں اپنا سکی جس کی وجہ سے دہشت گرد عناصر
طاقت ور سے طاقت ور تک ہوتے چلے گئے۔ بظاہر اے این پی کی جانب سے آل پارٹیز
کانفرنس ایک اچھا اقدام ہے لیکن مختلف حلقے اس سلسلے میں منفی رائے رکھتے
ہیں کہ اگر اے این پی شدت پسندوں کے ساتھ کئے گئے معائدوں پر ملک کی بڑی
جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتی تو یقینی طور پر آج صورتحال مختلف ہوتی
اور دہشت گردی کے نتیجے میںہزاروں قیمتی جانوں کا اس قدر بھاری نقصان نہیں
پہنچتا۔اے این پی کے دور حکومت میں صوبے کا کوئی خطہ امن و امان کے حوالے
سے مثالی نہیں ہے۔ گو کہ خیبر پختونخوا کی عوام نے حکومتی ادادروں کا بہت
ساتھ دیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ملاکنڈ ڈویژن ودیگر علاقوں سے کی گئی
لیکن اس کے باوجود امن کا فقدان ہے۔حالیہ باڑہ میں پیش آنے والے واقعات میں
ایف سی اور علاقہ مکینوں کی رائے بہت مختلف اور اس سے قبل انسانی حقوق
تنظیم کیجانب سے سیکورٹی فورسز کے حوالے سے تحفظات بھی قابل غور ہیں۔اے این
پی حکومت کی بھاری بھرکم اتحادی ہونے کے باوجود ، ڈرون حملوں کو رکوانے کے
لئے حکومت پر دباﺅ ڈالنے میں ناکام رہی اورقبائلی علاقوں سمیت جنوبی ،
شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ اور محفوظ پناہ گاہوں کے
خلاف کسی موثر کاروائی کےلئے وفاقی حکومت کو قائل نہیں کرسکی۔اس کے علاوہ
خیبر پختونوا سے دہشت گردوں اور غیر ملکی انتہا پسندوں کی با آسانی سرحدی
خلاف ورزیوں اور روک تھام میں ناکامی بھی اے این پی کی ناکام پالیسی کا
آئینہ دار رہی۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اے این پی جب سے وجود میں ٓائی
اور اقتدار حاصل کیا ہے ، اتنی طاقت ور حیثیت سے تاریخ میں کبھی نہیں
رہی۔اس وقت اے این پی ملک کے تین صوبوں میں حکمراں اتحادی جماعت اور وفاق
میں نزدیک ترین پسندیدہ لیڈر شپ کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔لیکن
جہاں بلوچستان میں اے این پی ،ناکام رہی تو دوسری جانب کراچی میں ، اے این
پی کا کردار انتہائی مایوس کُن رہا ۔2007سے آج تک اے این پی کی جانب سے
لسانیت کے نام پر سیاست کی گئی اور امن وامان کےلئے سنجیدہ رویہ نہیں
اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے
کا موقع ملا تو دوسری جانب لسانی تفریق کی وجہ سے مختلف قومتیوں کے درمیان
فاصلے بھی بڑھے۔اگر اے این پی کی قیادت ، پہلے ہی اپنے رویوں میں تبدیلی
پیدا کرلیتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔اے این پی کی جانب سے موجودہ حکومتی
اقتدار کے خاتمے سے صرف ایک ماہ قبل آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد دراصل
اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک مہم قرار دی جارہی ہے۔خود اے این پی کے
بعض موثر حلقے اتفاق کرتے ہیں کہ پارٹی کی جانب سے کافی تاخیر کی جا چکی ہے۔
جس کی بنیادی وجہ یہی قرار دی جارہی ہے کہ اے این پی کی قیادت زیادہ تر ملک
سے باہر رہی ، ملک میں موجود باقی قیادت اتنی بااختیار نہیں ہوتی کہ مرکزی
قیادت کی مرضی کے کوئی فیصلے کرسکے۔عوام سے دوری اور کارکنان پر عدم توجہ
کے باعث بھی اے این پی کی ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے جیسے دور کرنے کے لئے اے
این پی کے پاس ایسا کوئی انتخابی ایجنڈا موجود نہیں ہے کہ ایسے لیکر عوام
کے پاس ووٹ حاصل کرنے جا سکے ۔ پانچ سال کارکنان اور عوام سے دور رہنے والی
قیادت اور پارٹی عہدےدار اس پیشمانی کا شکار ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنے
میں ناکامی کے بعد ان کےلئے دوبارہ عوام کے پاس جانا مشکل امر ہوگا ۔ اس
لئے اے این پی بشیر بلور شہید کی شہادت کی آڑ لیکر ملک بھر کی سیاسی
جماعتوں کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں تاحال انھیں ناکامی
کا سامنا ہے۔اے این پی کو عوام میں رابطے بڑھانے کی ضرورت اور اپنی ماضی کی
غلطیوںسے سبق حاصل کرنے ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر دہشت گردی کے خلاف موثر آل
پارٹیز کانفرنس کا موثرانعقاد ممکن نہیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں اور
حکومت انتخابات کے حوالے سے اپنے ایجنڈے پر گامزن ہیں اور وہ اس موقع پر اے
این پی کو کندھا دینے کو تیار نہیں۔ |