نظام سقّہ (بہشتی) کی بادشاہی

جمشید خٹک

ہندوستان کے بادشاہ ہمایوں ، شیر شاہ سوری سے شکست کھاکر دھلی کی طرف واپس آرہا تھا۔تو راستہ میں دریا پار کرنا پڑا ۔چونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔لہٰذا دریا کے کنارے ایک بہشتی جو مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا۔اُس سے مدد مانگی ۔ بہشتی کا نام نظام تھا۔اُس نے بادشاہ کو دریا پار کرایا۔ہمایون بادشاہ نے خوش ہو کر اُس کو انعام میں ایک دن کی بادشاہی سونپی ۔جس دن نظام سقّہ بادشاہ بن گیا ۔ تو اُس سے ایک رات پہلے اُس نے سوچا کہ مدت بہت قلیل ہے ۔ اس تھوڑے سے عرصے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اُٹھایا جا سکتا ہے ۔انہوں نے پیسے بٹورنے کی ایک ترکیب نکال لی کہ اگر چمڑے کا سکہ رائج کیا جائے تو وہ خطیر رقم بٹور سکتا ہے ۔اُس نے رات بھر اپنے اکلوتے سرمایے یعنی چمڑے کے مشکیزے سے اشرفی کے برابر سکے بنائے ۔ جو سینکڑوں اشرفیاں بنی ۔ صبح سویرے بادشاہی شروع ہوتے ہی انہوں نے شاہی فرمان جاری کیا ۔کہ آج سے چمڑے کا یہ سکہ سونے کے اشرفی کی برابر قیمت کا حامل ہوگا۔اور جولینے سے انکار کردے یا سونے کی اشرفی میں تبدیل کرنے سے انکار کردے تووہ سزائے موت کا سزا وار ہوگا ۔اُس نے سارے چمڑے کے سکے درباری ملازمین سے سرکاری خزانے سے اشرفی سکے میں تبدیل کردیے۔شام سے پہلے وہ بے شمار اشرفیاں اکٹھے کر کے نکلا ۔ اور ایک دن میں امیر ترین شخص بن گیا ۔شا م کے بعد بادشاہی ہمایوں کو واپس دے دی گئی ۔اُس کے بعد نظام سقّہ کا ذکر تاریخ کی کتابوں سے غائب ہے ۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال کو دیکھ کر نظام سقّہ کی یاد دلاتی ہے ۔کیونکہ ایک تسلسل کے ساتھ کئی نظام سقّہ آئے اورملکی خزانے کو لوٹ کر چلے گئے۔

IMF کے ساتھ مسلسل وعدہ خلافی کر کے موجودہ حکومت کو یا آنیوالے نگران حکومت کو مزید فنڈز لینے میں مشکلات ہونگیں۔موجودہ حکومت پر IMF کا اعتماد ختم ہوتا جارہاہے ۔اس لئے موجودہ حکومت اپوزیشن کو رام کرنے کیلئے بات چیت کررہی ہے ۔ تاکہ IMF سے مزید فنڈز لینے میں آسانی ہو ۔سرکاری خزانہ غیر ملکی زرمبادلے سے تقریباً خالی ہوگیا ہے۔بیرونی ادائیگیوں اور امپورٹ بل کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو کہی نہ کہی سے زرمبادلہ تو لینا پڑے گا۔ایک صورت جو نظر آتی ہے ۔وہ IMF کا دروازہ ہے ۔جسکو کھٹکٹھانے کے بعد اُمید کی کرن نظر آسکتی ہے ۔بصورت دیگر ملکی معیشت زبردست خسارے کے ساتھ تباہی کے کنارے کھڑا ہے ۔دُنیا کے تمام ممالک بیرونی قرضوں پر انحصار کررہے ہیں۔امریکہ کے بیرونی قرضہ جات سب سے زیادہ ہیں۔اس وقت امریکہ 15 کھرب ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے ۔ امریکہ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 49762 ڈالر کا مقروض ہوتا ہے ۔امریکہ چین کا 1.3 کھرب ڈالر کا قرض دار ہے ۔ یہ رویہ پاکستان نے بھی اختیار کیا ہوا ہے ۔ہر پاکستانی بچہ 61000 روپے کے قرض کے ساتھ اس دُنیا میں آنکھ کھولتا ہے ۔قرضے کا دباؤ مقامی کرنسی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔مقامی کرنسی کی قیمت دُنیا کے اور کرنسیوں کے مقابلے میں گرتی چلی جاتی ہے ۔حتیٰ کہ زمبابوے کی طرح کئی ہزار زمبابوے ڈالر کے عوض تین انڈے خریدے جا سکتے ہیں۔

تمام ترقی پذیر ممالک کے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔بھارت کا بیرونی قرضہ 365.3 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے ۔ جو پچھلے سال 349.5 ارب ڈالر تھا۔پاکستان کا بیرونی قرضہ 67 ارب ڈالر ہے ۔جو کہ GDP کا 33 فی صد ہے ۔پاکستان کا ٹوٹل قرضہ 1985 میں 390 ارب روپے جبکہ 1999-2000 کے دوران اس قرضے کی مالیت 3172 ارب روپے ، مشرف کے دور میں یہ قرضہ 6053 ارب روپے جبکہ پی پی پی حکومت کے پچھلے پانچ سا ل میں 12662 ارب روپے تک جا پہنچا۔پچھلے پانچ سالوں میں یہ قرضہ تقریباً دوگنا ہوگیا ہے۔مرکزی حکومت کے پاس اس پہاڑ جیسے قرضے کے انبار کو ختم کرنے کیلئے وسائل نظر نہیں آتے ہیں ۔اس لئے اب مرکزی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ ان قرضوں کا کچھ حصہ صوبوں کو ادائیگی کیلئے چھوڑ دیا جائے۔اس کا فیصلہ کون کریگا۔اور کس شرح سے ان قرضوں کو صوبوں میں برابر برابر تقسیم کیا جا ئیگا۔اُصول کیا ہوگا۔کیا صوبوں میں قرضوں کے استعمال پر یا آبادی کے لحاظ سے یا کس اُصول کے تحت ان قرضوں کا تعین ہوگا۔یہ فیصلہ کونسل آف کامن انٹرسٹ (C.C.I) کے پاس جائیگا۔لیکن یہ مسئلہ پیچیدہ نظر آتا ہے ۔اور صوبوں کے مابین ان کے تقسیم پر کافی لے دے ہونے کا امکان ہے ۔اس میں شک نہیں ۔ کہ پچھلے دو تین سالوں میں ایسے واقعا ت ہوئے ۔جن کیلئے بجٹ مختص نہیں کیا گیا تھا۔آفت ناگہانی ، سیلاب نے سارے بجٹ کا بیلنس خراب کردیا ۔آئے دن دھماکوں اور اُس سے نقصانا ت الگ ، حکومتی خزانے پر کافی دباؤرہا۔اس دباؤ کو کم کرنے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب ٹیکسوں میں اضافہ نہیں ہوتا ۔تو حکومت کی مجبوری ہوتی ہے ۔کہ وہ قرضے حاصل کرکے حکومت چلائیں۔حکومت کے قرضوں میں اضافے کی کئی وجوہات کے علاوہ ایک وجہ سرکلر ڈٹ (Circular Debt) کے بقایا جات تقریباً 300 ارب روپیہ کی ادائیگی اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ پر تقریباً 400 روپیہ کی ادائیگی نے حکومتی خزانے پر کافی دباؤ ڈالا۔اسٹیٹ بینک کے ایک رپورٹ کے مطابق کل بیرونی قرضوں کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
(i) پبلک ڈِٹ 56.2 ارب ڈالر (ii) IMF کا قرضہ 7.04 ارب ڈالر (iii) پبلک سیکٹر انٹرپرائیز 1.586 ارب ڈالر
(iv) بینکوں کا قرضہ 1.80 ارب ڈالر (v) پرائیویٹ سیکٹر 4.4 ارب ڈالر (vi) Libaility Debt 2.06 ارب ڈالر -

اسی طرح پاکستان کا ٹوٹل بیرونی قرضہ 30 ستمبر 2012 کو 66.243 ارب ڈالر بنتا ہے ۔جبکہ 30 جنوری 2012 کو اس قرضے کی مالیت 65.83 ارب ڈالر تھی ۔اور 30 ستمبر 2011 کو یہ رقم 66.4 ارب ڈالر تھی ۔ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ ستمبر 2011 کے مقابلے میں ستمبر 2012 کو بیرونی قرضوں میں کمی ہوئی ہے ۔جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13.378 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ۔زر مبادلہ کے ذخائر دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہیں۔دوسرے عوام کے پیسے ہیں۔ جو کمرشل بینکوں کے پاس جمع ہیں ۔اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 8.62 ارب ڈالر ، جبکہ نجی بینکوں کے پاس 4.752 ارب ڈالر جمع ہیں۔نجی بینکوں میں جمع زرمبادلہ پر حکومت پاکستان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ لیکن نواز شریف دور میں نجی بینکوں میں جمع ڈالرز کو منجمد کرکے ملکی معیشت کو زبردست دھچکا لگا تھا۔دوبارہ ایسی غلطی کرنا معیشت کیلئے تباہ کن ہوگا۔اوورسیز پاکستانیوں کے اعتمادکو ٹھیس پہنچے گا۔2008 میں IMF اور پاکستان کے مابین سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت پاکستان کو 11.3 ارب ڈالر کا قرضہ دینا تھا۔جس میں پاکستان کو صرف 7.6 ارب ڈالر کی ادائیگی کی گئی ۔جبکہ پاکستان کو کل امداد کی 11.7 ارب ڈالر میں باقی ماندہ 3.7 ارب ڈالر پاکستان کی کمزور معاشی کارکردگی کی بناء پر یہ رقم روک لی گئی ۔ IMF اور پاکستان کے معاہدے کے مطابق پاکستان کو مالی سال 2014-15 تک 7.6 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہوگی۔قرضے کی یہ ساری رقم معاہدے کے مطابق پاکستان کو نہ مل سکی ۔اور ستمبر 2010 میں اس پروگرام کو ختم کرنا پڑا۔معاشی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے ۔پاکستان ایک بار پھر IMF کے در پر کچکول لیکر کھڑا ہوگا۔جبکہ اس بات کے خدشات ہیں کہ جون 2013 میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 8.24 ارب ڈالر تک کم ہو جائینگے۔یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں بیرونی وصولی اور ادائیگی میں 5.3 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے ۔سرکاری اہلکار اس بات پر مجبور ہونگے۔ کہ وہ ہر کیس کو الگ الگ طور پر فیصلہ کریں۔تجزیہ نگار وں کا خیال ہے ۔کہ آئندہ سال زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے مالی وسائل پر بڑا دباؤ ہوگا ۔تا ہم اتحادی فنڈ میں 688 ملین ڈالر کی وصولی سے موجودہ سال کے آخری 6 مہینوں کیلئے تھوڑا سا آکسیجن مل گیا ہے ۔جس کی وجہ سے بیمار معیشت کو کچھ عرصے کیلئے سہارا مل گیا ہے ۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک وجہ IMF کو قرضے کی واپسی میں ڈالرز کی ادائیگی ہے ۔پاکستان نے IMF کو آٹھواں قسط مبلغ 109 ملین ڈالر ادا کردیا ہے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.