بی جمالو کا افسانوی کردار سب کو
یاد ہوگا، خوشحال گھروں میں جاکر الٹی سیدھی باتیں کرنا اور آگ لگاکر چپ
چاپ اگلی منزل کی طرف بڑھ جانا۔طاہرالقادری کا پانچ سال بعد پاکستان آنا
اور یہاں کی جیسی تیسی صورتحال مزید ابتر کردینے کی ذمہ داری ان پر آئی تو
مجھے بی جمالو یاد آگئیں۔بی جمالو زہر یلی گفتگو کرکے کچھ عرصے کے لیئے
محلے سے غائب ہوجایا کرتی تھیں لیکن طاہرالقادری غائب رہنے کے بعد اچانک
نمودار ہوئے۔انہوں نے ملک کی سیاسی فضا میں جو کچھ کیا اس کی بازگشت تاحال
موجود ہے۔
حالانکہ ملک میں انتخابات سے قبل پرانے چہرے نئے روپ ، نئے نعروں اور چند
نئے چہروں کے ساتھ عمواَ سامنے آتے ہیں۔طاہرالقادری کی آمد اس لحاظ سے
منفرد تھی کہ وہ انقلاب کی آواز لگاکر کینیڈا سے یہاں پہنچے۔ایسا لگتا ہے
کہ انہوں نے کینیڈا میں رہتے ہوئے اپنا علاج یا تبلیغی کام نہیں کیا بلکہ ”
انقلاب “ لانے کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ویسے تو ان کی گفتگو سے تاثر ملتا ہے
کہ وہ بہت ” پہنچے “ ہوئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ پہنچی ہوئی شخصیات کو کسی تربیت
کی ضرورت نہیں ہوتی۔
طاہرالقادری جو انقلاب لارہے تھے وہ یزید اور کافر حکمرانوں کے خلاف تھا،
ان کی بیشتر باتیں بھی ایسی تھیں جس پر سب متفق تھے یہ ہی وجہ تھی کہ عوام
کی خاموش اکثریت کی بھی ان کو حمایت حاصل ہونے لگی تھی۔ شدید قسم کے اختلاف
کے باوجود لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ ” قادری صاحب باتیں تو درست کررہے ہیں “۔
لیکن ایک ہی گرم عشرے میں ان کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔جو یہ کہنے لگے تھے
کہ تبدیل آنے والی ہے ، اب پوچھ رہے ہیں کہ ” آخریہ سب کیا ڈرامہ تھا ؟ “
طاہرالقادری ایسا انقلاب لائے جس کی مثال آئیڈیل انقلابات کی تحاریک میں
ملنا تو مشکل ہے ۔انقلاب کی باتیں متحدہ کی صفحوں سے بھی بہت آتی ہیں۔تاہم
ان کا نتیجہ تاحال نظر نہیں آیا یہ اور بات ہے کہ ان کے ہزاروں کارکن جانوں
کی قربانی دے چکے ہیںاور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انقلاب کا مطلب ہوتا ہے کہ پرانے ، بوسیدہ اور عوام کے لیئے غیر مﺅثرنظام
کی جگہ نیا نظام عوامی طاقت سے رائج کرنا۔
مولانا طاہر چونکہ پرانے نظام کے کرتا دھرتاﺅں سے مذاکرات کرکے اس کاحصہ
بننے پر تیار ہوئے اور اپنے اس انقلاب کو ختم کرنےکا اعلان کیا ہے اس لیئے
اگر یہ بھی کوئی انقلاب تھا تو اس کی مثال رہتی دنیا تک دوبارہ ملنے کاکوئی
امکان نہیں ہے۔بہرحال اسے منفرد ، انوکھا اور مثالی انقلاب کہا جاسکتا ہے۔
اس کا مطلب واضع ہے کہ طاہرالقادری اپنے اس لانگ مارچ کا مقصد حاصل کرچکے
ہیں۔دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ طاہرالقادری اپنی ہر تقریر میں آئینی
اصلاحات کی بات کرتے تھے لیکن خود ہی آئینی دائرے سے باہر ہونے کے باوجود
ان آئینی حکمرانوں سے بات چیت کی جنہیں یہ یزید تک کہنے سے نہیں گھبراتے
تھے اور ا ن ہی سے ایک غیر آئینی معاہدہ کیا جس کی کچھ بھی اہمیت نہیں
ہے۔یادرہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے وزیراعظم راجہ پرویز کے دستخط سے ہوا ہے
جو ناصرف متنازعہ بلکہ مجرم بھی قرار پاچکے ہیں ۔ایسی صورت میں وزیراعظم کے
تمام اقدامات کو کسی بھی وقت غیر قانونی قرار دیکر انہیں غیر مﺅثر قرار دیا
جاسکتا ہے۔اس طرح مولانا طاہرالقادری کا معاہدہ زیادہ سے زیادہ ان کے اور
حکومتی جماعتوں کے درمیان ہونے والے ایگریمنٹ سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے، جس
پر عمل درامد حکومت کی نہیں ہے۔بلکہ یہ معاملہ صرف حکومت میں شامل سیاسی
جماعتوں تک کا ہے۔طاہرالقادری اور ان کی جماعت چونکہ الیکشن کمیشن کے
ریکارڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیئے آئینی طور پر اس معاہدے کی کوئی حیثیت
نہیں ہے۔
میری نظر میں یہ انقلاب اور معاہدہ حکومت اور خود طاہرالقادری کے ملک میں
استحکام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔اس معاہدے کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور اس
کے حکومتی اتحادیوں کو ایوان سے باہر ایک جماعت کی حمایت ہوگی اور یہ حمایت
ائندہ انتخابات میں مذکورہ تمام جماعتوں کے لیئے سود مند ثابت
ہوگی۔طاہرالقادری کی موومنٹ صدر زرداری کے مسقتبل کا بھی ضامن ہے آئندہ
انتخابات میں طاہرالقادری اور ان کے خاندان کے افراد حصہ نہیں لیں تب بھی
کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن غالب امکان ہے کہ ان کی جماعت عوامی تحریک ، پیپلز
پارٹی کے ساتھ الائنس کرکے انتخابات میں حصہ لے گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو
ائندہ انتخابات میں ایک ایسا مذہبی اتحادی مل جائے گا جو عالمی قوتوں کو
بھی قابل قبول ہوگا۔رہی بات طاہرالقادری اور ان کے خاندان کا انتخابات نہ
لڑنے کا اعلان تو اس کی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ دوہری شہریت کے باعث وہ اور ان
کا خاندان انتخابات میں حصہ لینے کے لیئے اہل ہی نہیں ہے۔
ممکن ہے آئندہ عوامی پارٹی وہ کردار ادا کرے گی جو پیپلز پارٹی کی حکومت کے
قیام اور استحکام کے لیئے ان دنوں ایم کیوایم ادا کررہی ہے۔آئندہ انتخابات
میں متحدہ ، پی پی پی کا ساتھ دے یا نہ دے لیکن امکان ہے کہ مولانا فضل
الرحمٰن کی جماعت پی پی پی کا ساتھ نہیں دے گی۔بس یہ ہی طاہرالقادری کا
انقلاب اور انقلابی سیاست کے مقاصد ہیں ۔آنے والے دنوں میں یہ بات ثابت
ہوجائے گی کہ اس تمام ڈرامے کے پیچھے آصف علی زرداری اور ان کو چاہنے والی
عالمی قوت امریکہ کا ہاتھ تھا۔امریکہ کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنی کالونیوں
کے لیئے ماڈرن اوراعتدال پسند اسلامی قوتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھے اور یہ
ثابت کرے کہ اس کی پالیساںمسلمانوں کے خلاف نہیں ہے طاہرالقادری اپنے
اسکرپٹ رائٹرز کویہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کے حمایتیوں کی
تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں اور وہ اسلام کے نام
پر لاکھوں لوگوں کو چند دنوں کے نوٹس پر کئی روز کے لیئے اکھٹا کرسکتے ہیں
۔ |