اگر وکیلوں اور سیاست کاروں کو
اکثر لوگ جھوٹے، مکار اور بددیانت سمجھتے ہیں تو حیرانی کی بات نہیں۔ بیشتر
وکیل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر کے کمائی کرتے ہیں اور اکثر سیاست
کار اقتدار کے لیئے دھن، دھونس اور دھاندلی سے دریغ نہیں کرتے۔ حیرانی کی
بات یہ ہے کہ اب صحافی اور اینکر بھی ان سے مل گئے ہیں۔
ڈآکٹر طاہر القادری کے لمبے جلوس اور دھرنہ نے میڈیہ کا بھرم ختم کر دیا ہے۔
لوگ سمجھتے تھے کہ صحافی سچ اور جھوٹ میں فرق کرتے ہیں۔ ظاہر ہوا کہ وہ تو
سچ کو چھپاتے اور جھوٹ کو پھیلاتے ہیں۔ انھوں نے بالکل نظرانداز کر دیا کہ
اہمیت پیغام کی ہوتی ہے، پیغام دینے والے کی نہیں۔
میڈیا والے پوچھتے ہیں،”لمبے جلوس اور دھرنے میں کتنے لوگ تھے؟“
انھیں اپنے اطمینان کے لیئے کتنے درکار تھے؟ چند دن پہلے انھوں نے کوئٹہ
میں دھرنہ دینے والوں کی تعداد گنی تھی، جن کے مطالبہ پر صوبہ میں گورنر
راج لگایا گیا؟ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ دھرنے میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ
تھے۔ اس کا مطلب ہے کم از کم دو تین لاکھ ہوں گے۔ کسی چینل کو توفیق نہ
ہوئی کہ ہیلی کاپٹر کرایہ پر لے کر فضائی منظر دکھاتی کہ کتنے لوگ جمع ہیں۔
لیکن اس سے جھوٹ کاپول کھل جاتا کہ صرف چند ہزار تھے۔
کہتے ہیں،”اتنا بڑا دھرنہ کوئی بھی دے سکتا ہے“
اب تک ہماری تاریخ میں کس نے اس جتنا بڑا دھرنہ دیا ہے؟ اتنے لوگ صرف کہنے
سے یا پیسے کے زور پر نہیں جمع ہو جاتے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مقصدعظیم ہے
تبھی وہ اتنی بڑی تعداد میں گھروں سے نکلتے ہیں اور اتنے دن سخت سردی اور
بارش میں آسمان تلے سڑک پر رات اور دن گزارتے ہیں۔ کوئی اور کر کے دکھائے
تو سہی۔
کہتے ہیں،”جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا جا رہا ہے؟“
جمہوریت ہے کہاں جو پکڑی سے اتاری جاتی؟ مفاد پرستوں کے دھن، دھونس اور
دھاندلی سے اقتدار پر قبضہ کر لینے کو جمہوریت کہتے ہیں؟ ان کی تو اپنی
پارٹیوں میں جمہوریت نہیں، ملک میں کہاں ہوتی۔ صرف الیکشن جمہوریت کا نام
نہیں۔
کہتے ہیں،”آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر عمل ممکن نہیں“
اگر عمل ممکن نہیں تو انھیں آئین سے نکالا کیوں نہیں؟ یہ دفعات آٹھویں
ترمیم سے شامل کی گئی۔ اس کے بعد 12 ترمیمیں کی گئیں۔ جب گٹھ جوڑ سے 58 (2)
بی کو نکال دیا تھا تو انھیں بھی نکال دیتے۔ اگر جرات نہیں تھی تو اب جب کہ
عمل درامد ہونے والا ہے کیوں واویلا کر رہے ہیں؟
کہتے ہیں،”مطالبات غیر آئینی ہیں“
کون سا مطالبہ آئین کے خلاف ہے؟ کیا آئین پر عمل درامد کا مطالبہ غیرآئینی
ہے؟ رہا الیکشن کمشن کی تشکیل نو، تو اگر غلط افراد کو اس کے ارکان بنا
دینا آئین کے مطابق ہے تو ان سے استعفیٰ لے کر صحیح افراد کے تقرر کا
مطالبہ آئین کے خلاف کیسے ہو گیا؟
گیلپ سروے کے مطابق 85 فی صد عوام چاہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوں۔ ان کی
خواہش بھی خلاف آئین ہے تو پھر جمہوریت کس جانور کا نام ہے؟
کہتے ہیں،”معاہدہ آئین اور قانون کے خلاف ہے“
اگر آئین کی دفعات پر عمل نہ ہو تو کوئی بات نہیں لیکن ان پر عمل درامد کے
لیئے سمجھوتہ آئین اور قانون کے خلاف ہے؟ کیا منطق ہے!
کہتے ہیں،”کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا“
اگر کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کرنا تھا تو ساری برسراقتدار پارٹیوں کے
نمائندے گھٹنوں کے بل چل کر کنٹینر کی دہلیز پر کیوں گئے؟ پہلے کی طرح اڑے
رہتے اور ڈیڈلائین گزر جانے دیتے۔ پھر دیکھتے کیا ہوتا۔
آخر میں معاہدہ کا متن دیا گیا ہے۔ اسے پڑھیں اور خود بتائیں کہ کون سا
مطالبہ نہیں مانا گیا۔ اگر کسی جگہ لفظوں کا ہیرپھیر ہے تو اس لئے کہ
برسراقتدار پارٹیوں کی سبکی نہ ہو۔
کہتے ہیں،”کوئی پارٹی مطالبات کی حمائت نہیں کر رہی“
کیوں کرے گی جب موجودہ سسٹم ہی میں اسے کامیابی کی امید ہو سکتی ہے؟ ق لیگ
کی ایک خاتون رکن اسمبلی کے مطابق اصلاحات ہونے پر 70، 80 فیصد ارکان
اسمبلی فارغ ہو جائِیں گے۔ تو کون سی پارٹی اصلاحات کی حمائت کرے گی؟ کیا
وجہ ہے سارے اپوزیشن لیڈر دوڑے دوڑے نواز شریف کے دربار میں حاضر ہو گئے؟
ان میں سے کئی تو میاں صاحب کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ مفاد پرست
مفاد ہی کی خاطر اکٹھے ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں،”معاہدہ پر عمل نہیں ہوگا“
وہ لوگ بڑے بھولے ہیں یا احمق، جو کہتے ہیں کہ عمل کی ضمانت نہیں ہے۔ دنوں
کی بات ہے، پتہ چل جائے گا کہ عمل ہوتا ہے یا نہیں۔
شک کا فائدہ ختم جب سے میڈیہ کو آزادی ملی ہے، بارہا کالم نویسوں اور
اینکروں نے غلط مؤقف اختیار کیا لیکن انہیں شک کا فائدہ دیا جاتا رہا۔ اگر
صرف اختلاف رائے ہو تو برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن جب باطل کو حق بنانے کی
کوشش کی جائے تو یہ اختلاف نہیں ملک دشمنی ہے۔ قادری صاحب کے مطالبات اگر
ذاتی غرض کے لیئے ہوتے تو مخالفت کی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ تو ان بدکرداروں
کو حکمرانی سے دور کرنے کے لیئے ہیں، جو ہماری بربادی کا باعث ہیں۔ کیا
میڈیہ والے چاہتے ہیں کہ وہی لوگ، جن کی وہ دن رات مذمت کرتے ہیں، آئندہ
بھی ہم پر مسلط رہیں؟
میڈیا اگر قادری صاحب کی کردار کشی کرتا ہے اور ان کے مطالبات کا ذکر تک
نہیں کرتا تو بلا وجہ نہیں۔ سنا ہے کہ نواز شریف نے قادری صاحب کی مخالفت
اور آئندہ الیکشن میں کامیابی کے لیئے آٹھ بلین (ارب) روپے میڈیا کے لیئے
رکھے ہیں۔ پانچ بلین پانچ چینلوں کے لیئے ہیں اور تین بلین صحافیوں اور
اینکروں میں تقسیم کرنے کے لیئے ہیں۔ پیسے لینے والے کون ہیں؟ کسی کا نام
لینے کی ضرورت نہیں۔ پیسہ خود بول رہا ہے۔
شر میں بھی خیر ہوتی ہے۔ ضمیرفروشوں نے خود کو عریاں کر دیا ہے۔ چنانچہ اب
سمجھدار لوگوں کے لیئے آسانی ہو گئی ہے کہ وہ کن کن کا بائیکاٹ کریں۔ صرف
چند کالم نویس اور اینکر بچے ہیں۔ ان کی بات سن لیا کریں۔ ضمیرفروش کتنے دن
کاٹھ کی ہنڈیا چڑھائیں گے؟
(نواز شریف فیملی، چوہدری برادران فیملی، زرداری فیملی، آج تک مقروض ہے یا
قرضہ معاف کراچکے ہیں )
(م) وہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ 1962 (نمبر 3، بابت 1962) کی دفعہ 7 کے تحت
سزایاب ہوچکا ہو، تاوقتیکہ مذکورہ سزایابی کو پانچ سال کی مدت گزر نہ گئي
ہو |