ٹیکس کانفاذ۔۔۔ بے راہبر قوم پہ تازیانہ وقت

تحریر از قلم توصیف حسن

یکم نومبر 1947کو 28 ہزار مربع میل پر مشتمل سر زمین گلگت بلتستان کو ڈوگرہ تسلط سے ہمارے اسلاف نے آزاد کرایا۔تقریبا16 دن تک مقامی لوگوں نے حکومت اپنے پاس رکھی اور انتظامی امور میں حکومت پاکستان سے مدد طلب کی جس کو بنیاد بنا کر صوبہ سرحد موجودہ کے پی کے۔ کے نائب تحصیلدار سردار عالم کو گلگت بلتستان کا پولیٹیکل ایجنٹ بنا کربھیجا گیا جس نے گلگت بلتستان حکومت کو چلتا کر دیا جسے غیر مشروط الحاق کا نام دیا گیا۔ فیصلہ جو بھی تھاوہ صحیح تھا یا غلط،اس کا جواب تو کوئی ماہر سیاسیات یا ماہر اقتصادیات یا پھر ماہر دفاع و حکمت عملی ہی دے سکتا ہے مگر ایک بات طے ہے ۔۔۔یہ فیصلہ دل کا فیصلہ تھا۔۔یہ فیصلہ ایمانی جذبے پر مبنی تھا ۔۔۔یہ فیصلہ قریبی ہمسایہ مسلمان ریاست سے محبت اور اس پہ اندھے اعتماد کی علامت تھا۔۔۔یہ فیصلہ جیسا بھی تھا اور جس نے بھی کیا تھا ، اس فیصلے کے نقاددوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا ایک محرک یہ بھی تھا کہ مقامی افراد حکومت چلانے کے فن سے بھی نابلد تھے۔

بہرحال اس کالم کا موضوع بحث یہ نہیں ۔۔اس کالم کا مضمون و بحث یہ ہے کہ گلگت بلتستان پر ٹیکس کے نفاز کا فیصلہ درست ہے؟کیا غیر مشروط الحاق کے فیصلے کا یہی صلہ ہمیں ملا؟کیا یہ ہمارے جذبات کی تحقیر نہیں؟ کیا بلاواسطہ سینکڑوںٹیکسز(INDIRECT TAXES) جو ہم دے رہے ہیں وہ کافی نہیں تھے کہ جو ہم پہ بالواسطہ ٹیکسز(DIRECT TAXES)کا بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی عوام پہلے سے کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں ۔۔علاقے کا نصف ترقیاتی فنڈ نام نہاد سیکورٹی کی نظر ہو رہا ہے ۔باقی جو بچا ہے اس کا ایک کثیر حصہ جمہوری آقاﺅں کی جیب میں جارہاہے۔باقی ماندہ فنڈPWDکے بابوںسے لیکر باباوں تک کو سیراب کرنے کے بعدٹھیکیداروں کو ملتا ہے اور ٹھیکیدار صاحبان اس میں سے تھوڑا بہت پراجیکٹس پہ لگاتے ہیں اور باقی ماندہ سے اپنے بال بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور اسے فضل خدا سمجھتے ہیں۔

اس خطے کے عوام کا جیون ازیت اور زہنی بے سکونی کا مرکب بن چکا ہے۔MLA'sاپنے سیکٹر کی آبادی والے ان علاقوں میں ترقیاتی کام کرارہے ہیں جہاں سے انہیں ووٹ ملتا ہے ۔یہ اپنے سیکٹ کی آبادی میںبھی بلاتقریق کام نہیں کرارہے ہیں۔دیگر سیکٹرز کی آبادی والے علاقوں میں تو ترقیاتی کاموں کی اس دور حکومت میں اب تک کوئی مثال سامنے نہیں آئی ہے۔اس سلسلے میں میں سو مثالیں دونگا۔پچھلے دنوں مجھے اپنے دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔وہ میرے سیکٹر کا نہیں لیکن ہماری دوستی ان چیزوں سے بلندوارفع ہے۔میں وہاں گیا۔قارئین یقین کریں کہ ان کا گاﺅں قدیم یونانی دور کا کوئی خستہ قلعہ لگ رہا تھا۔مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے MLAاس حلقے سے کافی طویل عرصے سے آپکے سیکٹر کا آرہا ہے مگر ترقی صفر ہے۔اس نے کہا کہ انہوں نے ووٹ اپنے سیکٹر کے جو دوسرے امیدوار تھے انہیں دیا تھا۔۔۔اس کا یہ نتیجہ ہے۔۔دوسری مثال گلگت شہر سے باہر مضافات کے ایک گاﺅں کی ہے جہاں سے گزر کے ہم نے سکردو جانا تھا۔سڑک گا ﺅں کے حدود کے اوائل سے لیکر کافی اندر تک پکی تھی،پھر بیچ میں کافی سڑک کچی تھی اور آگے جاکر پھر سڑک پکی ہوگئی تھی۔جب میں نے اپنے دوست جو کہ اس گاﺅں کا رہائشی ہے سے استفسار کیا کہ آبادی صرف ایک سیکٹ کی ہے ، MLA بھی اسی سیکٹر کا ہے تو یہ ماجرا کیا ہے۔اس نے بتایا کہ یہ درمیا ن والی آبادی جو ہے اس نے چیئر مین صاحب کو ووٹ نہیں دیا تھااسلئے ہی سڑک کچی ہے۔۔۔تو صاحبان یہ حالت ہے ہماری جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں کی۔یہ MLA'sاپنے مفادات کے غلام ہیں اور زات اور پاپی پیٹ کے پجاری ہیں۔ان کو کوئی احساس نہیں قوم کے درد کا۔ان کی بھلا سے قوم جائے بھاڑ میں۔

قارئین کرام ، میں یہ کالم ایک احساس زمہ داری سے لکھ رہاہوں کہ ٹیکس کا نفازاس خطے کے ساتھ نا انصافی ،غداری ، ظلم اور مزاق ہے۔عوام کو بلا تفریق فرقہ اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا۔ہمیں حقوق سے محروم رکھا گیا ،ہم خاموش رہے،یہ نیا فیصلہ ہمارے خلاف اس اعتماد کے ساتھ لیاگیاہے کہ ہم اس کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے کیوں کہ ہمیں آپس کے جھگڑوں سے فرصت نہیں۔انہیں پتہ ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ ہمیں اس کے خلاف کھل کے میدان میں آنا چاہئے اور اسمبلی کاگھیراﺅ کرنا چاہئے اور ممبران اسمبلی کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوادیں اور مستقبل میں بھی ایسے کسی ظالمانہ فیصلے کا سدباب کریں اگر ان کی بات نہیں مانی گئی توسب اجتماعی استعفے دیں۔یہ وفاق کو بتادیں کہ یہ خطہ ہمارا ہے ۔۔۔۔۔کسی کے باپ کی میراث نہیں کہ وہ ہم پہ اپنے خود ساختہ بدنیتی پر مبنی فیصلے تھونپیں۔

ہمیں کچھ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔۔اس سے پہلے کہ پانی سرسے اوپر ہوجائے۔لیکن یہ کام کو ن کرے گا۔ہم تو آج تک اپنے راہبر کونہیںپہچان سکے۔ہماری مثال شاعر کے اس شعر میں بیان کردہ شخص کی سی ہے۔
جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔

قارئین کرام ! کسی بھی فلاحی ریاست کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ عوام کو حصول رزق کے مواقع فراہم کرے اور جن کو مواقع میسرنہ ہوں ان کو بیروزگاری الاﺅنس دے ۔مگر بیروزگاری الاﺅنس تو خیر ایک خواب ہے،علاقے میں روزگار کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ سال میں 12 ماہ ملازمتوں پہ پابندی لگی رہتی ہے اور بیک ڈورز سے ملازمتیں اپنے چہیتوںمیںمفت جبکہ امراءقوم ،کو بعوض کثیر رقم بیچی جارہی ہیں۔

المختصر ۔۔ٹیکس کے نفاز کا فیصلہ کسی صورت مبنی بر انصاف نہیں، نہ ہی اس کو کسی طور justify کیا جاسکتا ہے۔یہ سراسر ظلم ہے اور یہ فیصلہ غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلہ ہے۔وفاق کو اس فیصلے پہ نظر ثانی کرکے یک جنبش قلم اس فیصلے کو کالعدم قرار دینا ہوگا اور اس خطے کو ہمیشہ کیلئے ٹیکس فری قرار دینا ہوگا تاکہ علاقے کے مکینوں کی جو دل آزاری اس فیصلے سے ہوئی ہے اس کا ازالہ ہوسکے۔ساتھ ہی ساتھ اسمبلی کا جو بھی ممبر اس فیصلے کی حمایت کرے اسے قوم اجتماعی طور پر غدار قرار دے تاکہ کوئی اقتدار کا بھوکا ، کوئی کم ظرف ، کوئی خائن اپنی کرسی کیلئے قوم کو قوم کے مفادات کو نہ بیچ سکے۔۔۔۔۔
Haider Abbas
About the Author: Haider Abbas Read More Articles by Haider Abbas: 14 Articles with 13150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.