مناواں پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ

مناواں پولیس ٹریننگ اسکول پر دہشتگردوں کا حملہ را نے ایک بار پھر لاہور کو مقتل بنا دیا

لاہور٬ مناواں پولیس ٹریننگ اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ
را نے سری لنکن ٹیم پر کامیاب واردات کے بعد ایک بار پھر لاہور کو مقتل بنا دیا
پاکستان کو دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکام ریاست ثابت کرنے کی بھارتی کوشش

کرکٹ ٹیم اور پولیس کالج کو نشانہ بنانے کے بعد ٹرینیں اور ریلوے اسٹیشن ”را “ کا اگلا ہدف ہوسکتے ہیں
پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والی دہشت گردی میں مماثلت پیدا کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف مصروف عمل بھارتی ایجنسی ”را “ بھارتی پارلیمنٹ حملہ کی طرز پر پنجاب اسمبلی کو بھی نشانہ بناسکتی ہے

دہشتگردی سے نجات کےلئے سیاسی استحکام ضروری ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام ہی دہشت گردی کے لئے وہ سازگار ماحول فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتی ہیں

آٹھ گھنٹے کی طویل اور اعصاب شکن جدوجہد کے بعد پنجاب پولیس نے ایلیٹ فورس اور رینجرز کی مدد سے اس ڈرامے کا ڈراپ سین کردیا جس کا آغاز 30مارچ کی صبح 7 بجکر25منٹ پر لاہور کے علاقے مناواں میں واقع پولیس ٹریننگ اسکول میں اس وقت ہوا جب پولیس ٹریننگ سینٹر میں موجود 800 کے لگ بھگ زیر تربیت پولیس اہلکار اسکول کے گراؤنڈ میں صبح کی پریڈ میں مصروف تھے کہ اچانک مسلح دہشت گردوں نے اسکول میں داخل ہوکر نہ صرف اندھا دھند فائرنگ شروع کردی بلکہ زیر تربیت پولیس اہلکاروں پر ہینڈ گرینیڈز سے بھی حملے کئے جس سے پولیس ٹریننگ کالج میں بھگدڑ مچ گئی جس کا فائدہ اٹھاکر دہشت گرد کالج کی مرکزی عمارت میں داخل ہوگئے اور انہوں نے عمارت کے دو فلور پر قبضہ کرکے وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنالیا ۔جس کی اطلاع ملنے پر سیکورٹی ادارے فوری طور پر حرکت میں آگئے اور پنجاب پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ٬ ایلیٹ فورس کے دستوں٬ رینجرز اور پاک فوج کے مسلح جوانوں نے پولیس ٹریننگ کالج کو گھیرے میں لے کر آپریشن کا آغاز کردیا ۔ سیکورٹی اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان جاری اس جنگ کے دوران ریسکیو آپریشن بھی جاری رہا اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے پولیس کالج میں بکھری لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر ایمبولینسوں کی مدد سے اسپتال منتقل کیا جاتا رہا ۔ میڈیا کے مطابق دہشت گردی کی اس واردات میں تقریبا ً 30پولیس اہلکار ہلاک اور 100کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر اس کی تردید کی گئی اور زخمی پولیس اہلکاروں کی تعداد پچاس بیان کرنے کے ساتھ ساتھ 8 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی ۔

دہشت گردی کی اس واردات اور اس کے خلاف جاری آپریشن کے دوران لاہور شہر” ممبئی“ اور پولیس ٹریننگ کالج مناواں” ہوٹل اوبرائے“ کا منظر پیش کر کے ممبئی حملوں کی یاد تازہ کرتا رہا ۔آپریشن کی تکمیل کے بعد سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعہ میں ملوث 4دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دو دہشتگرد فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور دو نے گرفتاری سے بچنے کے لئے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑالیا ۔ اس طرح چار دہشت گرد ہلاک اور چار گرفتار ہوئے مگر میڈیا پر دکھائے جانے والے عینی شاہدین اور زخمی پولیس اہلکاروں کے بیانات کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 15سے 20 کے درمیان تھی ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ 7سے 12حملہ آور کہاں گئے ۔عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملہ آور جو سادہ لباس میں تھے حملے کے بعد انہوں نے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی وردیاں اُتار کر پہن لی تھیں تاکہ انہیں شناخت نہیں کیا جاسکے اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حملہ آور یا تو بچالئے جانے اور بازیاب کرائے جانے والے پولیس اہلکاروں میں شامل ہوچکے ہیں یا پھر آپریشن کرنے والے پنجاب پولیس کے دستوں میں شامل ہوکر فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ صورتحال دونوں میں سے خواہ کچھ بھی ہے ‘ حملہ آوروں کا فرار مستقبل کے لئے مزید خطرات کی نشاندہی کررہا ہے کیونکہ ہم ایک طویل عرصہ سے اپنے کالموں اور رپورٹس کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہے اور اس کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جائے جس کے لئے ایک جانب بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کا نام دے کر پاکستان پر کشمیری حریت پسندوں کی مسلح امداد کا الزام عائد کرتا رہا ہے تو دوسری جانب بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعے کا الزام پاکستان کے سر ڈال کر عالمی سطح پر اسے بدنام کرنے کی سازشوں میں مصروف رہا ہے مگر جب سمجھوتہ ایکسپریس سمیت مالیگاؤں بم دھماکوں اور ممبئی ٹرین حملوں تک میں ہندو انتہا پرستوں کے ملوث ہونے کے ثبوت و شواہد سامنے آئے اور حقائق نے بتایا کہ ان ہندو بنیاد پرستوں کے پس پردہ بھارتی انٹیلی جنس ”را “ کار فرما ہے تو اپنے مکروہ چہرے پر پڑے نقاب کو محفوظ رکھنے کے لئے ”را “ نے ممبئی دہشت گردی کا ڈرامہ رچایا اور نیپال سے اغوا کئے جانے والے پاکستانی اجمل قصاب کو اس ڈرامے کا مرکزی کردار بناکر دہشتگردی کے اس واقعے سے پاکستان کو منسوب کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی جو سازش کی اس میں ان کامیابیوں کا حصول ممکن نہیں ہوا جن کی توقعات ”را “ کو تھیں ۔ لہٰذا اب ” را “ نے پاکستان کے خلاف اپنی اسٹریٹجی کو تبدیل کرتے ہوئے اسرائیل و امریکہ کی ایما پر ”موساد “ کی مدد سے دہشت گردی کا شکار ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کے راستے طالبان کی شکل میں پاکستان درآمد آنے والی دہشت گردی اب سرحدی اور قبائلی علاقوں سے نکل کر بلوچستان اور پنجاب کا بھی رخ کرنے لگی ہے اور بلوچستان میں کوئٹہ جبکہ پنجاب میں لاہور دہشت گردوں کا خاص ہدف دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لاہور شہر کا محل وقوع کچھ ایسا ہے کہ واہگہ بارڈر کے ذریعے باآسانی بھارت سے پاکستان میں داخل ہوکر لاہور کو ٹارگٹ کر کے واپس بھارت جایا جاسکتا ہے اور ایسا ہی سری لنکن ٹیم کے حملے کے وقت ہوا جب واہگہ کے راستے بذریعہ بس کچھ بھارتی دہشت گردوں نے پاکستان میں داخل ہو کر پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں سے اسلحہ وصول کرکے سری لنکن ٹیم پر حملے کی واردات کامیابی سے انجام دی اوراپنا اسلحہ وہیں پھینک کر اطمینان سے فرارہونے میں کامیاب بھی ہوگئے ۔ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر کئے جانے والے حملے سے قبل ہی ”را“ کے طریقہ واردات اور اس کی سٹرٹیجک نفسیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے پہلے ہی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ”را “ لاہور میں ممبئی طرز کی واردات دہرانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور پھر سری لنکن ٹیم پر حملے نے ہمارے ان خدشات کو درست ثابت بھی کردیا جبکہ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد اس کی نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ مذکورہ حملے سے ”را“ عالمی رائے عامہ کو دہشت گردی کے حوالے سے اس طرح سازگار کرنے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے جو اس کی خواہشات ہیں تو اپنے ایک مضمون میں ہم نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سری لنکن ٹیم پر حملہ ”را “ کا ٹیسٹ کیس تھا جس میں کامیابی کے بعد اب وہ لاہور میں دہشت گردی کا کوئی بڑا منصوبہ انجام دے گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ”را “ کی وارداتوں کا مشاہدہ اور عمیق تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ”را “ نے کچھ سیاسی جماعتوں کا منظر عام پر لانے٬ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کرانے اور پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرست ریاست ثابت کرکے اسے عالمی سطح پر بدنام کرانے کے لئے دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں بھارت میں انجام دی ہیں انہیں پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اس نے پاکستان کے خلاف اپنی سازشوں میں کسی حد تک کامیابی تو حاصل کی مگر اس سے اس کی اپنی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے اور بھارتی عوام میں یہ رجحان فروغ پانے لگا کہ ”را “ سیکورٹی معاملات اور انٹیلی جنس کے حوالے سے ناکام ثابت ہوتے ہوئے سرکاری خزانے پر سفید ہاتھی جیسا بوجھ ہے لہٰذا اب اس کا خاتمہ ہوجانا چاہئے ۔ یہ صورتحال بہر کیف کسی بھی طور ”را “ کے مفاد میں نہیں تو اسلئے ” را “ نے پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبوں کی تکمیل کے ذریعے جہاں پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی وہیں اس نے دہشت گردی کی ان منصوبوں کو بالکل اسی طرز پر انجام دینا شروع کردیا جس طرز پر بھارت میں دہشت گردی ہوئی تھی جس کے پس پردہ دو مقاصد تھے اول یہ کہ پاکستان اور بھارت میں دہشت گردی کے واقعات میں مماثلت کو بنیاد بناکر ثابت کرنا کہ دونوں ممالک میں ایک جیسے حملے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دونوں جگہ انجام دی گئی دہشت گردی کی وارداتوں کے پس پردہ ایک ہی قوت ہے اور پھر یہ ثابت کرنا کہ اس قوت کا تعلق پاکستان سے یعنی ”را “ ایک تیر سے کئی شکار کھیلنا چاہتی ہے اول دہشت گردی کے ذریعے امن عامہ کی صورتحال پیدا کرکے پاکستان کو معاشی و اقتصادی نقصان سے دوچار کرنا ۔ دوئم یہ ثابت کرنا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خاتمے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہیں اور دہشت گرد آہستہ آہستہ پورے پاکستان میں مربوط و منظم ہوتے جارہے ہیں ‘ سوئم یہ ثابت کرنا کہ پاکستان و بھارت میں ایک جیسی دہشت گردی کا مطلب دونوں جگہ ایک ہی گروپ کی کارفرمائی کو ثابت کرتا ہے اور مذکورہ گروپ کا تعلق پاکستان سے ہے ‘ چہارم بھارتی عوام کو یہ باور کرانا کہ ہماری کارکردگی ناقص نہیں بلکہ دہشت گرد اتنے منظم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں کہ پاکستان بھی ان پر قابو پانے میں ناکام ہے اور پاکستان کی بعض قوتیں انہیں سپورٹ کررہی ہیں اس لئے کہیں کہیں یہ دہشت گرد ”را “کو بھی جل دے کر اپنے ارادوں میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں جبکہ بھارتی قیادت کو یہ باور کرانا کہ ہم نے پاکستان سے اس دہشت گردی کا بدلہ لے لیا ہے جو اس نے بھارت میں انجام دی تھی اسلئے یہی ہماری اہلیت کا ثبوت ہے اس لئے ”را “ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی غور وفکر نہ کیا جائے ۔

اس تمام صورتحال اور ”را “ کے منصوبوں کے پس پردہ موجود محرکات کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سری لنکا ٹیم پر حملہ کے بعد لاہور میں مناواں پولیس ٹریننگ کالج پر منظم حملہ مکمل طور پر ممبئی حملوں کی طرز پر انجام دیا گیا جو اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ ”را“ کی اس دہشت گردی کا سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ آئندہ وہ ممبئی ٹرین حملوں کی طرز پر لاہور یا پاکستان کے کسی دوسرے شہر کے ریلوے اسٹیشنوں یا ٹرینوں کو نشانہ بنائے گی اور شاید اس کا ایک بڑا ہدف دہلی میں پارلیمنٹ پر کئے جانے والے حملے کی طرز پر پنجاب اسمبلی کو نشانہ بنانا بھی ہوسکتا ہے تاکہ بھارت اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردتی کو متماثل قرار دے کر اسے پاکستانی تنظیموں سے منسوب کیا جاسکے ۔

اس سلسلے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ حساس اداروں نے دہشتگردی کے ایسے کسی واقع کے انجام دیئے جانے کے خدشات پر مبنی رپورٹ پہلے ہی حکومت کو پیش کردی تھی جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نے سیکورٹی اقدامات بھی کئے تھے مگر اقدامات کے باوجود بھی اس قسم کی دہشت گردی کی واردات ہوجانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ایک جانب جہاں پاکستان اور بالخصوص لاہور میں ”را “ کا نیٹ ورک انتہائی منظم ہے اور اسے پاکستانی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں ضمیر فروشوں کا بھی تعاون حاصل ہے اس لئے حکومت کو سب سے پہلے ان ضمیر فروشوں اور کالی بھیڑوں کو تلاش کرکے ان کا قلع قمع کرنا چائے ورنہ ”را “ اپنے اگلے اہداف بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔

پاکستان کی موجودہ اور ماضی کی صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے دوچار علاقے دہشت گردو کا خصوصی ہدف ہوتے ہیں کیونکہ ایسے علاقوں میں اپنے مذموم مقاصد کو تکمیل تک پہنچانا آسان ہوتا ہے ۔ 1988ءسے 1999ءکے درمیانی عشرے کا جائزہ لیا جائے تو اس بیرونی دہشت گردی کا محور و مرکز سندھ اور بالخصوص کراچی دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس دور میں یہاں موجود سیاسی انتشار دہشت گردوں کے لئے سازگار ماحول کا باعث تھا پھر 1999ءسے 2008ءتک کے عشرے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جانے اور طالبان کے خلاف کاروائیاں کرنے کے فیصلے کو سرحد کی عوام میں کہیں بھی تسلیم نہیں کیا تو یوں صوبہ سرحد اور بالخصوص اس کے قبائلی و سرحدی علاقوں کے عوام و حکمرانوں کے درمیان فکر و عمل کے تضاد نے اس سیاسی انتشار کا شکار کو جنم دیا جس کے باعث آج پورا سرحد دہشت گردی سے دوچار ہے ۔ اس کے بعد 2008ء سے شروع ہونے والے نئے عشرے نے بلوچستان اور مرکز کے درمیان جاری محاذ آرائی کو اس عروج پر دیکھا جہاں بالاچ مری اور سردار اکبر بگٹی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تو بلوچستان میں بھی مرکز گریز پالیسیوں کے سبب اس سیاسی انتشار نے جنم لیا جس نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے لئے سازگار ماحول فراہم کردیا اور اب بلوچستان کے کئی علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ کوئٹہ بالخصوص دہشت گردوں کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ اسی طرح صدر مشرف کے اقتدار کے آخری ایام میں دونوں جلا وطن قیادتوں کی وطن واپسی کے بعد جمہوریت کے لئے چلائی جانے والی عوامی و جمہوری تحریکوں اور اپنا اقتدار قائم رکھنے کی صدر مشرف کی کوششوں نے اسلام آباد اور پنجاب میں اس سیاسی انتشار کو جنم دیا کہ لال مسجد٬ واہ کینٹ اور لیاقت باغ جیسے دہشتگردی کے سانحات نے جنم لیا جس میں پاکستان کی ایک عظیم سیاسی و جمہوری شخصیت بینظیر بھٹو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئیں ۔ اس کے بعد پاکستان کی جمہوریت پسند عوامی قوتوں کی جدوجہد سے پاکستان میں آمریت کا خاتمہ ممکن ہوا اور جمہوریت کا طلوع ہوا تو اس کی روشنی میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے افہام و تفہیم اور اشتراک کی سیاست کا آغاز کر کے سیاسی انتشار کا خاتمہ کردیا اور حالات گواہ ہیں کہ افہام و تفہیم کے اس عرصہ میں پنجاب مکمل طور پر دہشت گردی کی بڑی واردات سے محروم رہا مگر پھر دونوں جماعتوں کے مابین ہونے والی رسہ کشی نے پنجاب کو ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا تو ایسا لگا کہ کونے کھدرے میں چھپے دہشت گرد اس سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانے کےلئے باہر نکل آئے ہیں اور خود کش حملوں کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے ساتھ 3مارچ کو سری لنکن ٹیم پر حملے کا بہت بڑا واقعہ بھی رونما ہوگیا اور اس کے بعد اب مناواں پولیس ٹریننگ کالج لاہور میں ہونے والا دہشتگردانہ حملہ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ موجودہ سیاسی انتشار دہشت گردوں اور ”را“ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سازگار ماحول فراہم کررہا ہے اس لئے اس سیاسی انتشار کا جتنی جلد خاتمہ ہوجائے اتنا ہی جلد دہشت گردی کے لئے سازگار ماحول کا خاتمہ ہوگا اور عوام محفوظ ہوجائےں گے ۔

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.