بے مہار نام نہاد خدائی
فوجدار اور ہماری بے بسی - مگر اگر علیہ بحال ہے تو
آج ٹیلی ویژن اسکرین پر طالبان کے ہاتھوں ایک عورت کو کوڑوں کی سزا بھگتے
دیکھ کر یقین کریں میرا سر تو شرم سے جھک گیا۔
کسی بھی کام کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ایک خیر کا پہلو اور ایک شر کا پہلو۔
ٹی وی پر ایک طالبان نمائندے کو اس سزا کا دفاع کرتے دیکھ کر یہ یقین مزید
پکا ہوگیا کہ یہ نام نہاد ملا (علمائے حق ہمارے سر آنکھوں پر) جس طرح
اسلام، مسلمانوں اور ہمارے ملک عزیز کو بدنام کرنے کا گھناؤنا کام کر رہے
ہیں وہ ناقابل برداشت اور قومی و مذہبی حمیت کے بھی خلاف ہے ۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ اس طرح کے کاموں کو روکنے کے لیے حکومت وقت کچھ کرے وگرنہ اگر
عوام نے اپنے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا تو ایسے مذہبی دہشت پسندوں کو
کہیں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔
واقعہ جو میرے علم میں آیا اس کے مطابق
“ایک سترہ سالہ عورت اپنے سسر کے ساتھ گھر سے باہر نکلی جس کی سزا کے طور
پر اسکو کوڑوں کی سزا دی جارہی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ اپنے سسر (یعنی ایک
غیر محرم) کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی سزا کے طور پر اسے درجنوں غیر
محرموں کے سامنے جس طرح تماشہ بنایا گیا وہ نا صرف قابل افسوس بلکہ قابل
مزمت بھی ہے۔ اور جو طریقہ کار تھا کوڑے مارنے کا وہ بھی (غالباً) غیر شرعی
تھا یعنی کوڑے پیٹھ پر مارے جانے چاہیے اور کوڑے کی ساخت اور ہییت کے بارے
میں بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن کا بظاہر اس سزا میں خیال نہیں رکھا
گیا اور کوڑے بھی پیٹھ پر مارنے کے بجائے پیٹھ سے نیچے مارے گئے۔
مزید برآن جو شخص کوڑے برسانے پر مامور تھا اس کو کس بات کی غیرت آرہی تھی
جو اس نے اپنا چہرہ عورتوں کی طرح چھپایا ہوا تھا اگر وہ کوئی شرعی کام کر
رہا تھا تو مجمع کو بھی نظر آنا چاہیے تھا اس کا چہرہ تاکہ لوگ جان سکتے کہ
کیسا شرعی آدمی ہے جو شرعی سزا پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ اور جس طرح بھیڑ
بکری کو زبح کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑے جاتے ہیں اسی طرح اس بے چاری
اور بے بس عورت کے ہاتھ پاؤں بھی تین مردوں نے پکڑے ہوئے تھے (پتہ نہیں وہ
کیسے مرد تھے جنہوں نے ایک عورت کو پکڑا ہوا تھا اور کیا پتہ ان کا ایک
عورت کو اسطرح پکڑنا بھی شرعی تھا یا نہیں)۔
تحریک طالبان پاکستان کا ایک ترجمان ٹی وی پر کہہ رہا تھا کہ شکر کریں کہ
شرع کی رو سے یہ کم سزا تھی وگرنہ تو اور مزید سخت سزا کی مستحق تھی وہ
عورت۔ یقین کریں دل تو چاہ رہا تھا کہ کاش میرے اختیار میں ہوتا تو اس کا
منہ نوچ لیتا۔
دوسری طرف استفسار کرنے کہ عورت کے ساتھ نکلنے والے اس کے سسر صاحب کو کیا
سزا دی گئی تو وہ ترجمان بول رہا تھا کہ اس کے ساتھ نکلنے والے شخص (سسر)
کو بھی شرعی سزا دی گئی ہے (جو کہ ہو سکتا ہے سنگسار کرنے والی ہو) مگر وہ
خفیہ رکھی گئی ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد کو جو سزا دی گئی ہے وہ کیوں مجمع میں نہیں دی
گئی۔ جبکہ ہمارے علم میں ہے (اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) کہ ایسی سزائیں
سرعام اور مجمع کے سامنے دی جاتی ہیں۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شرعی
سزا کو خفیہ دینا دراصل شریعت کی خلاف ورزی ہے۔
خدا کی قسم جس طرح اس قماش کے لوگ ہمارے مذہب کے ٹھیکیدار بنے رہے گے، ہم
اس دنیا اور آخرت میں بھی زلیل و خوار رہیں گے۔ ان نام نہاد مذہبی
ٹھیکیداروں کی اکثریت سے کسی آیت قرآنی و حدیث کی کوئی معلوم کرنے کی کوشش
کر دیکھیے یہ جاہل ملا آپ کو الجھا کر رکھ دیں گے اور آپ بھی چکرا کر رہ
جائیں گے۔
شرعی سزائیں اپنی جگہ برحق ہیں مگر جو طریقہ کار اور جو من مانی و ہٹ دھرمی
کی اعلیٰ مثالیں قائم کی جارہی ہیں ان کو دیکھ کر ہمیں تو واقعتا اپنی قومی
و مذہبی حمیت پر شرم آرہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سلسلے
میں کیا کرتی ہیں اور کیا وہ طالبان و مذہبی انتہا پسندوں کے اس قسم کے
گھنائونے کرتوتوں پر کوئی قرار واقعی عملیت پسندی کا ثبوت دے پاتی ہیں یا
پھر ٹی وی اور واکس ہی کر کے اپنا فرض پورا کرتی رہیں گی۔
افتخار چودھری صاحب آپ کے سامنے ایک حقیقی کیس آگیا ہے جس میں آپ کونسا
سوموٹو ایکشن لیتے ہیں اور کس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور کس طرح
ملک عزیز کو اس طرح کے شدت پسندوں سے نجات دلواتے ہیں اب دیکھنا ہے آپ کی
آزادی کو بھی اور آپ کے اختیارات کو بھی۔
سیاسی مقدمے اور سیاسی تصفیے بہت مل جائیں گے اس طرح کا انسانی مسئلہ جو کہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے آپ کے سامنے آکھڑا ہوا ہے
خدارا اس کو ایسے ہی نہیں نظر انداز کردیجیے گا جس طرح این آر او کو کرتے
چلے آرہے ہیں۔ بلکہ اس کو بھی اس طرح اٹھائیے گا جس طرح شریف براداران کے
کیسسز اٹھائے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ اب تو آمریت کا دور نہیں ہے جو لوگوں کو سرعام کوڑے مارے جاتے
ہوں اب تو جمہوریت اور قانون کی بالادستی ہے۔ عدلیہ بھی آزاد ہے
وہ کیا نعرے تھے کہ
زندہ ہے وکلا زندہ ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کون زندہ ہے اور کون کون مردہ ہے۔
پختونوں کی نمائندگی کرنے والی سرحد حکومت پر برسر اقتدار پارٹی اے این پی
کی رٹ بھی دیکھنی ہے جو ملک کے دوسرے شہروں میں تو پختونوں کے حقوق اور ان
کے حقوق کی خلاف ورزی پر پورے ملک میں بات کرتی نظر آتی ہے مگر اپنی ناک کے
نیچے اس قسم کے گھناؤنے اقدامات کی سرکوبی کے لیے کتنی غیرت کا مظاہرہ کرتی
ہے یہ بھی دیکھنا ہے۔
اور کیا کہوں سمجھ نہیں آتا اور اپنی بے بسی پر شرم بھی آتی ہے کہ ہماری
قوم اور ہمارے ملک کو چند مٹھی بھر جہلا جس طرح بدنام کرنے پر لگے پڑے ہیں
اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اے کاش کوئی صاحب اقتدار اس سلسلے میں کچھ
کرسکے۔ ورنہ قدرت اس طرح کے افعال کی سزا کے طور پر ڈرون حملوں، زلزوں اور
قدرتی آفات سے ہم سے انتقام لیتی رہے گی۔ |