تیس لاکہ فاحشاؤں کی موجودگی کے باوجود
عورت کو جنسی جنونیت کا نشانہ بنانے والے رام کے بھگتوں کا دیس بھارت
بھوک٬ بیماری٬ غربت٬ جہالت اور ہندو جنونیت میں جکڑا اخلاق باختہ سیکولر
بھارت
جہاں اقلیتوں کے وجود مٹا دینے کی سازش کے ساتھ ذات پات کے نام پر انسانی
حقوق کی بدترین پامالی کا رواج عام ہے
بھارت اسکولوں میں پڑھنے٬ دفاتر و گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو
کنواری ماں بنانے والے ابلیس پرستوں کا دیس
بھارت جہاں پیٹ بھرنے کے لئے جسم فروشی کرنے والی 30لاکھ فاحشاؤں کی
موجودگی کے باوجود ہرسال 30ہزار خواتین کو جنسی درندگی کا نشانہ بناکر عزت
سے محروم کردیا جاتا ہے
عورت کو سیتا کا روپ قرار دینے والے رام کے بھگت عورت کو وقتی تسکین کا
ذریعہ بناکر نہ صرف اس کے حقوق پامال کررہے ہیں بلکہ نسوانیت کی تحقیرو
تذلیل میں دنیا کی تمام اقوام کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں
بھارت میں 1853ءسے 2009ء تک 55سالوں میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں
سات سو فیصد کا اضافہ٬ جنسی جنونی بھیڑیوں نے بھارت کے کسی شہر ‘ گاؤں یا
دیہات کو نہیں بخشا
جنگی جنون میں مبتلا بھارت جو دنیا بھر سے اسلحہ کی خریداری کےلئے اپنے بجٹ
کا ایک بڑا حصہ دفاع کے لئے مختص کررہا ہے اسی بھارت میں پچاس کروڑ افراد
پیٹ بھر کھانے سے بھی محروم ہیں
بھارت جہاں معاشی مجبوریوں اور محرومیوں کے باعث اپنا جسم بیچنے والی
خواتین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے وہیں خوشحال خواتین میں
ریکنگ کے نام پر ہم جنس پرستی میں بھی اضافہ ہورہا ہے
بھارت جہاں حالیہ انتخابات میں فتح حاصل کرکے اقتدار کی مسند تک رسائی حاصل
کرنے کے خواہش سیاسی مداری اپنی اپنی پٹاری کھول کر بھارتی عوام کو خوش کن
نعروں سے بہلانے اور سہانے سپنے دکھانے کی کوشش کررہے ہیں وہیں٬ کچھ
سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنی سابقہ روش پر برقرار رہتے ہوئے ہندو مسلم
فسادات کو اقتدار تک رسائی کی سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں جن
میں شامل بی جے پی نے ورون گاندھی کے کندھے پر رکھ کر ہندو مسلم فسادات کی
بندوق چلائی اس کے پیچھے ایل کے ایڈوانی کی کارفرمائی تھی جس نے ورون
گاندھی کو تو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا مگر حصول اقتدار کے لئے بی جے پی
راستہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مینکا گاندھی جیسی معتدل مزاج خاتون کو بھی
جوش مادر سے مجبور ہوکر اپنے بیٹے ورون گاندھی کی خاطر مسلمانوں کے خلاف
نعرہ متعصبانہ لگانے پر بھی مجبور کردیا گو کہ جس نے اس بات کو ثابت کیا کہ
بھارت کا کوئی سیاسی رہنما ہندو جنونیت کی سیاست سے مبرا نہیں ہے اور
سیکولر کہلانے والا بھارت ایک ایسا ملک ہے جو خود کو سیکولر کہلوانے میں
فخر تو ضرور محسوس کرتا ہے مگر دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس سیکولر
بھارت کے نقاب کے پیچھے ہندو جنونیت پسندی کا کس قدر بھیانک و مکروہ چہرہ
پوشیدہ ہے ۔ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لئے اقلیتوں کے خون سے
ہولی کھیلنے والی ہندوستان میں ذات پات کے گورکھ دھندوں میں جہاں ایک جانب
بنیادی انسانی حقوق کی دھجےاں بکھیرتے ہوئے اونچی ذات کے افراد نچلی جاتی
کے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں
ملتی ۔ بھارت کی برہمن جاتی نے اقتدار و اختیار سے لےکر زمین و جائیداد اور
قومی وسائل تک پر اس طرح سے قبضہ کیا ہوا ہے کہ نچلی جاتی کے ہندوؤں کیلئے
جینا دوبھر اور سانس لینا مشکل ہوچکا ہے ۔یہی نہیں بلکہ علاقے میں اپنی
چوہدراہٹ قائم کرنے کی خواہش کی تکمیل کےلئے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاعی
ضروریات کے نام پر دنیا بھر سے جدید اسلحہ کی خریداری کے لئے مختص کرنے
والے بھارت میں 40فیصد سے زائد آبادی خط افلاس کی سطح سے اس قدر نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہے کہ 50کروڑ سے زائد افراد ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر
کر کھانے سے محروم ہیں ، پینے کا صاف اور تازہ پانی ان کی دسترس میں نہیں،
وہ یا تو اپنے سروں پر چھت رکھتے ہی نہیں یا پھر محض کچی اور خستہ
جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جو نہ انہیں بارش سے بچا پاتی ہیں نہ جاڑوں کی یخ
بستہ ہواؤں سے۔ اسی غربت اور معاشی استحصال سے مجبور ہوکر بھارت کی 30 لاکھ
سے زائد خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں مگر اس کے باوجود عورت کو سیتا کا
روپ قرار دینے والے رام کے بھگت ‘ بھارتی مرد عورت کو وقتی تسکین کا ذریعہ
بناکر نہ صرف اس کے حقوق پامال کررہے ہیں بلکہ نسوانیت کی تحقیر و تذلیل
میں دنیا کی تمام اقوام کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور بھارت میں 1853ء سے
2009ء تک 55سالوں میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں سات سو فیصد کا
ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے ‘ جنسی جنونی بھیڑیوں نے بھارت کے کسی شہر ‘ گاؤں یا
دیہات کو نہیں بخشا اور اسکولوں میں پڑھنے والی کمسن طالبات سے لے کر دفاتر
و گھروں میں کام کرنے والی نوخیز لڑکیوں تک٬ شادی شدہ خواتین سے لے کر عمر
رسیدہ خواتین تک ہر سال 30ہزار سے زائد خواتین جنسی جنونیت کا شکار ہو کر
اپنی عزت سے محروم ہوجاتی ہیں جبکہ ہرسال 10ہزار سے زائد خواتین جذبہ عشق
میں عاشق کی خواہش کی تکمیل٬ یا دفاتر و گھروں میں کام کرنے والی خواتین
مراعات کے حصول کے لئے بن بیاہی مائیں بن جاتی ہیں جبکہ پوش علاقوں کی
تعلیم یافتہ و خوشحال خواتین ازدواجی مسائل سے تنگ آکر جہاں منشیات کا
سہارا لے رہی ہیں وہیں٬ نوجوان لڑکوں سے ناجائز تعلقات اور ریکنگ کے نام پر
ہم جنس پرستی جیسی وبائیں بھی بھارتی خواتین کو اپنا شکار بنا چکی ہیں ۔
بھارت میں انتخاب کا سیزن چل رہا ہے ۔ بھارت میں میں عام انتخابات ہونے
والے ہیں اور اس بات کا فیصلہ نزدیک ہے کہ بھارت میں اگلے پانچ برسوں تک
دلّی کے راج سنگھاسن پر کون براجمان ہوگا لیکن صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کے
بھوک٬ بیماری٬ غربت اور بدحالی میں جکڑے پسماندہ عوام کی حالت میں بہتری کے
لئے کسی کے بھی پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل سے نجات
دلا سکے جبکہ بھارت کی عورت تو تہرے مظالم کا شکار ہے ایک جانب معاشی
بدحالی کے باعث ناتواں جسم پر محنت و مشقت کا عذاب تو دوسرے مردوں کی جنسی
جنونیت کی تسکین ہاتھوں سسکتی بلکتی اس کی نسوانیت جو اس کی روح کو اس طرح
سے کچوکے لگارہی ہے کہ زندگی اس کے لئے کسی بڑے گناہ کی سزا سے کم نہیں اور
اس کا گناہ شاید یہی ہے کہ وہ بھارت جیسے سیکولر ہندوستان کی ہندوستانی
ناری ہے جسے نہ پیٹ بھر روٹی میسر ہے ‘ نہ آرام ‘ نہ عزت اور نہ احترام یہی
ہے بھارت جسے سب کہتے ہیں ”مہان “ ۔ |