سائبیریا کے برف پوش علاقوں میں
رہنے والے اسکیمو ٹھندک کے پوری طرح عادی ہوتے ہیں۔ موسم منفی 50 ڈگری ہونے
کے باوجود وہ شکار پر نکلتے ہیں۔ سمندر کے کنارے پر ہلکی برف کو توڑنا اور
پانی سے مچھلی شکار کر کے اسے کھانا ان کا مشغلہ اور خوراک ہے۔ آمدورفت کے
لیے ایک گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ جسے چلانے کے لیے یہ کتوں کا استعمال کرتے
ہیں۔ سات سے لے کر چودہ کتے ایک وقت میں ایک گاڑی کو کھینچتے ہیں۔ اور گاڑی
برف پر بھاگتی چلی جاتی ہے۔ ہسکی نسل کے یہ کتے برفانی علاقے میں پائے جاتے
ہیں۔ اور وہاں کے لوگوں کے گھروں میں اُن کے ساتھ رہتے ہیں۔ عام طور پر رات
کو اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے اسکیمو لوگ ان کتوں کو ساتھ سلاتے ہیں۔
کبھی کبھی رات کے وقت درجہ حرارت اس قدر کم ہوجاتا ہے۔ کہ ان لوگوں کو اپنے
جسم کی مطلوبہ حرارت کو پورا کرنے کے لئے تین تین کتوں کو ساتھ لٹانا پڑتا
ہے۔ اسقدر خوفناک سردی والی رات کو وہاں کے لوگ تھری ڈاگ نائٹ ( تین کتوں
والی رات) کہتے ہیں۔
اسلام آباد میں جمع ہونے والے پروفسیر ڈاکڑ علامہ طاہر القادری کے مرید
زیادہ تر اُن علاقوں کے مکین تھے۔ جہاں سردی فقط چند روز کے لئے آتی ہے۔
اور وہ بھی اتنی شدید نہیں ہوتی عملاً وہ لوگ گرم علاقوں کے رہائشی تھے۔
لیکن جن حالات میں اور جس قدر سردی میں انہوں نے پانچ راتیں ڈاکڑ طاہر
القادری کے کنٹنیرکے گرد کھلے آسمان تلے گزاریں وہ اُن کے لئے کسی طور
’’تھری ڈاگ نائٹس‘‘ سے کم نہ تھیں۔ یقینا وہ لوگ قابل تحسین ہیں۔ اور صحیح
طور پر جانثار ۔ کہ اپنے قائد کے حکم کو اُنہوں نے پوری طرح حکم جانا۔
انتہاہی نامساحد حالات میں بڑے نظم و نسق کے ساتھ وہاں رہے۔ کوئی شور غوغا
، کوئی ہلہ گلہ، کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی۔ وہ مکمل طور پر انسانوں کا
اجتماع نظر آیا۔ یقینا یہ ڈاکڑ طاہر القادری کی شخصیت کا ایک انتہائی مثبت
پہلو ہے۔ اور دوسرے لیڈروں کے لیے ایک مثال کہ اگر انہیں شرم آجائے تو اپنے
ورکرز کی تربیت بھی انہی خطوط پر کر سکیں۔
لوگ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس لانگ مارچ میں قوم نے کیا کھویا
اور کیا پایا۔ قادری صاحب نے پہلے سے بلند تر قدوقامت اور سیاست میں ایک
خاص مقام البتہ ضرور پالیا ہے۔ قادری صاحب نے لانگ مارچ کی ابتدا بلکہ اپنی
مہم جوئی کی ابتدا اس نعرے سے کی تھی کہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔ جس کا
شاید مقصد ہی یہ تھا۔ کہ کوشش کے باوجود سیاست کے سٹیس کو میں کوئی تبدیلی
نہیں آسکتی اس لیے بہتر ہے کہ اُسے نہ چھیڑا جائے اور جو سلوک بھی کرنا ہے۔
وہ ریاست ہی سے کیا جائے ۔ پانچ دن اسلام آباد میں رہتے ہوئے انہوں نے
ریاست کو ہر طرح سے بچایا ہے۔ اور سیاست کے سٹیس کو میں اپنے لیے پہلے سے
بہت بہتر اور خوبصوت مقام بھی بنالیا ہے۔ اب بہت سے لوگ اُن کی اہمیت کو
سمجھ گئے ہیں۔ اور اُن کے پکے ووٹوں کے محتاج ہیں۔ ڈاکٹر کی اہمیت بہت بڑھ
گئی ہے۔ وہ خود تو الیکشن نہیں لڑ رہے مگر جس پلڑے میں وزن ڈالیں گے۔ اُسے
غیرمتوازن تو کریں گے۔ پھر ان پانچ دنوں کے دوران اُن کے ٹیلی وژن خطبات سے
سب قوم نے بہت کچھ سیکھا ۔ دفعہ 61 ، دفعہ 62 آئین کی دیگر باریکیوں اور
سیاستدانوں کی کرپشن پر لکھنے والے عرصہ سے لکھتے آرہے ہیں مگر ان پانچ
دنوں میں قادری صاحب نے جس طرح لوگوں کو ایجوکیٹ کیا۔ وہ بہت بڑا حاصل ہے۔
عمران خان کے انکار اور ایم کیو ایم کے یو ٹرن کے بعد انہوں نے تنہا جو کچھ
پایا وہ سب اُن کی اپنی ہمت ہے۔ انجام کو آپ Graceful Retreat)) کہہ لیں تو
بھی کوئی حرج نہیں۔
لوگ ذہنی طور پر سیاستدانوں سے سچ اور بھلائی کی توقع نہیں رکھتے۔ ہر کرپٹ
سیاستدان بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں حالانکہ اُس پر کرپشن
کے بیسویں کیس ہوتے ہیں۔ اُن کیسوں کو وہ سیاسی انتقام قرار دیتا ہے اور
بضد ہوتا ہے کہ کوئی کیس ثابت نہیں ہوا تو وہ کرپٹ کیسے؟ چونکہ وہ حکومت کا
ہی کل پرزہ ہوتا ہے اس لیے حکومتی ادارے اُسے پاکدامنی اور ایمانداری کا سر
ٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں وہ خود ہی ملزم اور خود ہی منصف ہوتا ہے مگر لوگ
بھی حقیقت جانتے ہیں۔ سیاستدانوں کے داؤ پیچ پوری طرح سمجھتے ہیں اور کسی
صورت بھی ان لوگوں کو ایماندار ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ایک سیاستدانوں سے بھری بس رات کے وقت ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہی تھی۔ کہ
حادثہ پیش آگیا۔ بھری بس لڑھکتی ہوئی سڑک کے کنارے ایک گہرے کھڈ میں جاگری۔
صبح جب اُس سے ملحق کھیت کا مالک کسان موقع پر آیا تو دیکھا کہ سب لوگ مرے
ہوئے ہیں۔ اور بس مکمل تباہ ہو گئی ہے۔ اُس نے آسان کا م کیا اور ایک گڑھا
کھود کر تمام سیاستدانوں میں اُس میں دفن کر دیا۔ دو تین دن بعد کھوج لگاتی
پولیس وہاں پہنچ گئی ٹوٹی پھوٹی بس تو موجود تھی۔ مگر تما م سیاستدان غائب
۔ کسان سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ تمام لوگ حادثے میں مر گئے تھے ۔ تو
میں نے قریب ہی گڑھا کھود کر سب کو دفنا دیا۔ پولیس آفیسر نے حیرانگی سے
پوچھا کہ کیا تمام لوگ مر گئے تھے۔ ایک بھی زندہ نہیں تھا۔ کسان نے سادگی
سے جواب دیا۔ جی ہاں سب مر گئے تھے۔ دو تین ایسے تھے جو کہہ رہے تھے کہ میں
تو زندہ ہوں مگر آپ کو پتہ ہے سب سیاستدان تھے۔ اُن کی عادت ہے کہ ہمیشہ
جھوٹ بولتے ہیں۔ مکار ہوتے ہیں۔ مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں
نے بھی اعتبار نہیں کیا۔ جس جس نے بھی کہا کہ میں زندہ ہوں میں نے اپنی لٹھ
اس کے سر پر ماری اور اسے چپ کرا دیا۔ ان جھوٹوں کا اعتبار کیسے کیا جا
سکتا ہے۔
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جو سعی کی اس میں ان کی طرف سے کوئی کمی نہ
تھی۔ مگر وہ انقلاب جس کی تمنا اس ملک کے عوام کے دل میں موجزن ہے۔ شاید ان
جاگیرداروں، مخدوموں اور پیروں کی موجودگی میں ممکن نہیں کیونکہ ہر دفعہ
عوام کے نام پر ایک نئے فریب کے ساتھ جیت ان ہی کی ہوتی ہے۔ اس ملک میں
انقلاب کے لیے راتوں رات کسی حادثے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کوئی کسان
نما شخص ایک گڑھا کھودے اور بغیر کسی تفریق کے سیاستدانوں کی اس ساری نسل
کو اپنی لٹھ کے زور پر ہمیشہ کے لیے دفن کر دے۔ عوام کو ایک ایسے ہی
حادثاتی انقلاب کا انتظار ہے۔ |