لگتا ہے کہ ملک کے طول و عرض کے
گلکاروں میں ، قومی معمار ، بڑے بڑے احباب، ٹریک ٹو کے شہسوار ، گلی محلوں
کے نونہال اور شہسوار مار کھا رہے ہیں، اور تختہ دار اور ہتھیاروں کے انبار
اور لاشوں کا کاروبار پھر سے اپنے عروج پانے والے ہیں۔ اس کی وجہ اور ہیئبت
یوں واضح ہورہی ہے کہ اکثر سیاستدان آج کل میڈیا پر اور پھر اپنے احبابوں
کے درمیان یہی شور مچا رہے کہ اگلا الیکشن خونی ہوگا۔ جس سے عوام الناس میں
بھی سرا سیمگی پھیل رہی ہے کہ یہ الیکشن کیسا ہوگا؟ کچھ لوگ تو ابھی سے یہ
پروگرام بنا رہے ہیں کہ ووٹ ڈالنے ہی نہیں جائیں گے ، ان کا کہنا ہے کہ ووٹ
ڈالیں بھی تو کیوں؟ حکمران پھر سے آجا ئیں گے اور عوام کا جینا دوبھر کریں
گے۔ مگر ایسے لوگوں کو راقم کا مشورہ ہے کہ ووٹ ضرور ڈالیں کیونکہ ووٹ ہی
تو آپ کے پاس بہترین ہتھیار ہے اچھے، پُرخلوص ، محبِ وطن رہنما چننے کا،
اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن اب اس بات پر بھی غور کر رہی ہے
کہ ووٹ نہ ڈالنے والے لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جائے، اب الیکشن کمیشن اپنے
مقصد میں کہاں تک کامیاب ہو سکے گی اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
ویسے بھی آٹے، دال ،چاول، سبزی، پیٹرول اور ڈیزل کے بھاﺅ نے تو سیاست اور
ان کے مکینوں کو داﺅ پر لگا دیا ہے ، اُدھر ملک کے دگر گوں حالات نے اور
لانگ مارچ کے بعد سے حکمرانوں اور سیاست کاروں کو دن کے اُجالوں میں ٹارچ
اور تارے دکھائے دیئے ہیں، ان تمام صورتحال کے بعد اب سیاستداں اپنی شان
اور نان بچانے کے لئے نئے نئے طوفان کھڑے کر رہے ہیں، قومی ترانے گا رہے
ہیں، ملی نغمے بجا رہے، سوئے ہوئے لوگوں کو جگا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو دانت
دکھا رہے ہیں، خرگوش کی طرح اس پارٹی سے اُس پارٹی میں چھلانگیں لگا رہے
ہیں، صاف بات یہ ہے کہ ایسے رشتوں کے ڈور بہت دلچسپ مگر نہایت کمزور ہے، جب
جی میں آتا ہے تو آپسی رفاقت اور محبت کا بہت شور مچاتے ہیں اور پھر دوسرے
دن رفو چکر کسی اور طرف۔ کبھی رفاقت کا شور تو کبھی رقابت کا زور، اور وہ
بھی فی الفور، اتنا شور کہ اب عام لوگ یہ شور سنتے سنتے بور ہونے لگے ہیں،
بارڈر کے دونوں اطراف بھی اسی طرح کا شور سنا جاتا رہا ہے، کبھی تجارت
کھولی جاتی ہے تو مٹھائی کے ڈبوں کا منہ کھل جاتا ہے، اور گرما گرم
ڈپلومیسی کا زور اُبل پڑتا ہے، کبھی ایک دم ہتھیاروں کا شور، میزائلوں کی
گھن گرج سناتے ہیں تو ہم شاہینوں کا بین کرتے ہیں، کرکٹ ، ہاکی ہو یا کبڈی
دونوں سینہ زور اور بہت شور مچاتے ہیں، جب آر پار لوگ آتے جاتے ہیں تو
رنگین کارپٹ قدموں تلے بچھاتے ہیں، سفید کبوتر چھوڑے جاتے ہیں، مگر ایک دم
چھوٹے برتن کی طرح اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ بیانات اور الزامات سن کر عام
آدمی کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ جب دونوں کی سیاسی ناﺅ ہچکولے کھانے لگتی
ہے تو یہ لوگ مونچھوں کو تاﺅ دینے لگتے ہیں، تو ایک دم سے میڈیا میں لفاظی
کا جنگ شروع ہو جاتا ہے۔اینکر صاحبان تو اتنا خطرناک، کتھا جنگ شروع کرتے
ہیں کہ لگتا ہے ابھی کوئی بڑی آفت آنے والی ہے ، ایک دوسرے کو مٹانے اور
صفحہ ¿ ہستی سے ہٹانے کی بات کرتے ہیں، اِس تُو تُو مَیں مَیں سے بہت سارے
لوگوں کے چولہے جلتے ہیں، ہانڈی پکتی ہے، وہ بھی بکتی ہے اور یہ بھی بکتی
ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ وہ ہمیں مٹا سکتے ہیں اور نہ یہ ان کو ہٹا سکتے
ہیںہاں کوئی غریب وردی پوش یا کوئی اور گھرانہ مٹ جاتا ہے، جوان عورت بیوہ
ہو جاتی ہے، معصوم بچے یتیم ہو جاتے ہیں ، دونوں بس مور کی طرح اپنے پَر
دیکھتے ہیں، مگر ٹانگیں نظر نہیں آتی ہیں ۔ کسی کو اپنے اندر کے چور دکھائی
نہیں دیتے ہیں۔
رہا ملکی سلامتی کا سوال۔ تو الحمداللہ ہمارا ملک بھی سلامت ہے اور سلامت
رہے گا، اور وہ بھی قائم ہے، البتہ سیاست کاروں کی سیاست سلامت نہیں رہتی۔
ہمارے یہاں اندرونی خلفشار اتنا ہے کہ بے گناہوں کا خون بازاروں، مسجدوں
اور سڑکوں پر بہتا ہے تو وہاں ہر منٹ ہر بازار میں عزتیں لٹتی ہے۔ رہے یہ
رشتے اور ناطے پیار محبت کی باتیں، تو یہ بس باتیں ہی لگتی ہیں، بس باتیں!
پسِ دیوار ایک دوسرے پر گھونسے اور لاتیں جاری ہیں، کبھی سفارتکاری کی
پیوند کاری، بڑے بڑے کاروباری مگر پھر اجارہ داری کا سوال آڑے آتا ہے۔ پھر
نہ پیوند کاری کام آتی ہے نہ سفارتکاری۔
ہمارا ملک پاکستان جس کو جو کبھی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور جس کی شان
میں ترانے اور قصیدے پڑھے جاتے تھے، آج یہ ملک آزادی کی تقریباً چھیاسٹھ
بہاریں دیکھ چکا ہے۔ اپنے سنہرے خواب کو سجائے ہوئے اقتصادی، معاشی، تعلیمی
اور معاشرتی غرض کہ ہر میدان میں بجائے ترقی کے پستی کی طرف گامزن ہے۔ مگر
پھر بھی ہمیں یہ ملک سال میں ایک خوشی کا موقع تو فراہم کرتا ہی ہے اور وہ
ہے چودہ اگست ۔ یہ فرحت و انبساط کا دن ہمیں ہماری اسلام کی قربانیوں کی
یاد دلاتا ہے ، ظلم و استبداد میں جکڑے ہوئے پاکستان کی زبوں حالی کی عکاسی
کرتے اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دور کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ جب
پاکستان آزاد ہوا تو ہمارے بزرگوں نے اپنے ملک کے باشندوں کو مساوی حقوق
دینے اور ان کی حفاظت کرنے کے لئے ایک نئی طرزِ حکومت کی داغ بیل ڈالی مگر
آج داغ بیل کی شدید کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔خدا ہم سب کو ہماری اپنی حقیقی
آزادی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ان تمام مصائب و حالات و واقعات کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ایک امتحان ہے، آزمائش ہے، قدم قدم پر دشواریاں
ہیں، ہر موڑ پر ہمیں اپنی ذہنی صلاحیت کا ثبوت دینا ہوتا ہے، ویسے تو صحیح
اور غلط کا آغاز کائنات میں آدم اور حوا علیہ السلام کی تخلیق سے ہوا اور
رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ یوں تو سیاسی قہر انسانوں کی آزادی سلب
کر لیتے ہیں، بلکہ قلم پر بھی پہرہ پٹھا دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں گفتگو
اشاروں کے حوالے سے ہونے لگتی ہے، ایک غلط لفظ، ایک غلط سوچ اور پھر ایک
غلط فیصلہ۔ یہ صورتحال نہ صرف ہماری سیاست میں ہے بلکہ ہماری ذات کی بھی
ہے۔ ہمارے یہاں خود کو اعلیٰ اور سامنے والے کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور یہی
بنیاد ہے ہماری بربادی کا۔ کیوں ہم سب اپنے ساتھ کھڑے انسان کو انسان نہیں
سمجھتے، ہم اپنی سوچ کو کب تبدیل کریں گے ، اچھی اور نئی سوچ ہی اچھے ملک
کی تعمیر کر سکتا ہے ۔ مگر آج جو ہمارے ملک کا حال ہے اس سے تو کہیں یہ
محسوس نہیں ہوتا کہ ہم سدھرنے والے ہیں کیونکہ ہر طرف لاشیں گِر رہی ہیں
اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشاں ہوتم
روز ایک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
ہماری سیاست کی فکر آج کی نسل کو ہضم نہیں ہونے والی کیونکہ آج کی نسل اس
سیاست کو گرداب میں پھنسا ہوا محسوس کر رہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے
والے الیکشن میں کس پارٹی کو کتنی سیٹیں ملیں گی اور کون اقتدار کی کرسی پر
بُرا جمان ہونے والا ہے مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے سب ہی مکین
اپنا سیاسی قد بڑھائیں، عوام میں جائیں، عوامی فیصلے کرائیں، عوام کو ریلیف
پہنچانے والا عمل کریں، تاکہ عوام بھی آپ سے ملنساری برت سکے ۔ اس وقت عوام
بہت ڈیپریس ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے سیاسی مکین روزآنہ ہی
اِدھر اور اُدھر کا کھیل کھیل رہے ہیں یعنی اپنے لئے تو ہجرتوں کا موسم بنا
لیا ہے اور عوام بے چارے کو اب بھی وہی تذبذب میں رکھا گیا ہے۔ خدا ہم سب
کو اپنے وطن سے اور اپنے وطن کے باسیوں سے میل جول، پیار و محبت سے مل جل
کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ملک میں پھیلے ہوئے بے چینی، افرا تفری ، قتل
و غارت گری سے اور اس کے اثرات سے بھی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔آج کی سیاست
اور اور آج کی نسل کو فکر عطا فرمائے۔ آمین |