پیارے بچوں ہمیں ظالم حکمرانوں
اور غلط مشیروں سے بچنا،رحم دلی اور عقل مندی سے کالینا چاہیے۔آج میں آپ کو
ایک کہانی سناتا ہوں جس میں ایک شخص کی رحم دلی اور دوسرے کی عقل مندی پوری
ریاست کو ایک بڑی مشکل سے باآسانی بچالیتی ہے۔کسی ریاست میں تین صدیوں تک
ظالم حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آکر عوام نے بغاوت کردی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ
عوام نے حکمران خاندانوں کے ایک ایک فرد کو چن چن کر مار ڈالااور فیصلہ کیا
کہ اب حکمران اس کو بنایا جائے جو ریاست کا سب زیادہ نرم دل شخص ہواور اُس
کے خاندان میں بھی کبھی کسی نے ظلم نہ کیا ہو۔بڑی تلاش کے بعد آخرکار اُس
ریاست کے عوام کو ایساحکمران مل گیا جس کی پچھلی سات نسلوں میں کوئی ظالم
پیدا نہیں ہواتھا۔اُس کی رحم دلی کے چرچے دور دور تک پھیلے تھے ،پورا
خاندان عدل انصاف کا پیکر تھا سواُس شخص کو رحم دل کا خطاب دے بادشاہ
بنادیاگیا۔جلد ہی آس پاس کی ریاستوں میں بھی رحم دل بادشاہ کی رحم دلی
مشہور ہونے لگی اور ریاست تیزی سے ترقی کرنے لگی ،چاروں طرف بہار ہی بہار
نظرآنے لگی عوام بہت خوش تھے کہ اُن کی ظالم حکمرانوں سے جان چھوٹ گئی ۔لیکن
بدقسمتی سے چند برسوں میں ہی ریاست میں جرائم کا تناسب بڑنے لگااور امن
وامان کی صورت حال خراب ہونے لگی اور حالات رحم دل بادشاہ کے قابومیں نہ
رہے ۔وہ پریشان تھا کیونکہ اگر وہ سخت سزاؤں کااعلان کرتا تواُس کی رحم دلی
پر حرف آتا تھا اور اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو جرائم کی روک تھام ممکن
نہیں رہتی ۔رحم دل بادشاہ نے اپنے وزیروں اور سفیروں کو مشورے کے لیے بلا
لیا ۔تمام وزیروں اور سفیروں نے سخت سزاؤں کی حمایت کردی ،صرف ایک بزگ مشیر
چپ تھا ،رحم دل بادشاہ نے اُس بزرگ مشیر کے علاوہ سب کو جانے کا کہا جب سب
چلے گئے توبادشاہ نے مشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میاں جی اگرمیں کسی مجرم
کو سزائے موت دوں تو میری رحم دلی کا بھرم قائم نہیں رہتا اور اگر سزانہ دی
جائے توجرم نہیں رکتا آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟کیا مجھے حکومت چھوڑ دینی
چاہیے ؟مشیر نے خاموشی توڑی اور بادشاہ کومشورہ دیا کہ آپ سخت سزاؤں کا
اعلان کردیں گے توکاقی حد تک جرائم کم ہوجائیں گے ۔اور جو باقی بچیں گے وہ
بھی کسی مجرم کو سزائے موت دیے ختم ہوجائیں گے۔اس طرح آپ کی رحم دلی کا
بھرم بھی قائم رہے گااورریاست بھی جرائم سے پاک ہوجائے گی ۔بادشاہ کی سمجھ
میں کچھ نہ آیااور اس نے حیران ہوکر مشیر سے پوچھایہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے
کہ سخت ترین سزاؤں کا اعلان کرنے کے بعد ان پرعمل کئے بغیر جرائم ختم
ہوجائیں؟مشیرنے کہا بادشاہ سلامت میرااعتبار کریں اور سخت ترین سزاؤں کا
اعلان کردیں میراآپ سے وعدہ ہے کہ ایک بھی شخص کومارے بغیر موت کی سزاپر
عمل ہوجائے گا۔رحم دل بادشاہ نے اگلے ہی دن ریاست میں ہر چھوٹے بڑے جرم کی
سزاموت کا اعلان کردیااور مشیر کے مشورے کے مطابق اگلے ہی دن 10مجروں
کاسرعام سرقلم کرنے کے بعد ان کی لاشیں جلا دیں۔اس دن کے بعد ہر مجرم نے
جرم سے توبہ کرلی اوراس طرح ریاست میں ہر چھوٹا بڑا جرم ختم ہوگیا۔ امن
ومان کی صورت حال بحال ہوگئی اور ریاست پہلے کی طرح تیزی سے ترقی کرنے لگی
عوام پھر سے خوشحال ہوگئے۔اب آپ حیران ہوں گے کہ 10لوگوں کا سرقلم کرنے پر
بھی سزائے موت پر عمل نہیں کیا گیا آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟بچومشیربہت
سمجھدار تھا اُس نے 10کے10مجر م خود بناے تھے جی ہاں وہ 10انسان نہیں پتلے
بنائے گئے اور ان کو اانسانی روپ اور جانوروں کا خون لگا کر مجرموں کو سبق
سکھانے اور جرم سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔10لوگوں کو سزاموت دی
گئی لیکن ریاست میں کسی ایک گھرکا فرد بھی کم نہ ہوا ،اتنی بڑی ریاست میں
عوام اس بات کی خبر بھی نہ ہوئی کہ رحم دل بادشاہ نے اپنے عقل مند مشیر کے
مشورے سے بغیر کسی کی جان لیے ریاست کو تمام جرائم سے پاک کردیا۔پیارے
بچودیکھا آپ نے اگر ہم رحم دلی اور عقل مندی سے کام لیں تومشکل سے مشکل
مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوسکتاہے: |