کہانی ایک لڑکی کی

شہناز کی آنکھیں نم تھیں ۔ وہ جھاڑن سے پھٹک پھٹک کے صوفوں کی صفائی میں مگن تھی کہ جیسے اپنا سارا غصّہ گدیوں کو پیٹ پیٹ کے نکال رہی ہو۔آواز کچھ بلند ہوئی تو سارہ نے کچن سے آواز لگائی۔ ’شہناز کیا کر رہی ہو کیا آج میرے گھر کے فرنیچر کو توڑنے کا ارادہ ہے‘۔ سارہ کی آواز کان میں پڑتے ہی شہناز چونک گئی اور جواب میں بس ’جی بی بی جی معاف کردیں ‘ کہہ کہ اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے زار و زار رونے لگی وہ ابھی تیرہ سال کی تو تھی آنکھ کھلتے ہی ماں باپ کو جھگڑتے دیکھا اور بھائی بہنوں کو روٹی پہ ٹوٹتے ۔ اُس کی ساری بہنیں اور ماں گھروں میں کام کرنے جاتیں اوراپنا نام تو اسے کم ہی سننے کی عادت تھی زیادہ تر بنگلے والی سیٹھانیاں اسے ماسی کی بیٹی کہہ کر بلاتیں تھی۔ شروع میں ماں کے ساتھ ہی کام پہ جایا کرتی پھر آٹھ سال کی ہوئی تو اُسے اپنا علیحدہ کام کرنے کے لئے گھر ملا۔ آج اُسے وہ دن یاد آرہا تھا کہ جب اُس کی ماں مختاراں ایک بنگلے میں یہ کہہ کہ چھوڑ گئی تھی کہ ’بی بی آپ فکر نہ کرو یہ اب میری جگہ کام کرے گی کوئی بھول ہو جائے تو اپنی دھی سمجھ کر معاف کر دینا آپ سکھا دینا اِس کو سب کچھ آپ مارو گی بھی تو میکوں قسم ہے مالک دی میں کچھ کائناں اکھیساں۔‘

اس کے ساتھ ہی مختاراں نے شہناز کے سر پہ ہاتھ رکھا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔ شہناز معصومیت سے گھر کی دیوارو ں کو دیکھ رہی تھی کہ سیٹھانی کی آواز نے اسے ہلا کے رکھ دیا۔ اب کیا کھڑی ہی رہو گی وہاں رکھی ہے جھاڑو جلدی کام کرو میرے بچے اسکول سے آنے والے ہیں۔ جھاڑو کا وزن اس کے چھوٹے ہاتھ اُٹھا نہیں پا رہے تھے لیکن وہ یہاں وہاں ہاتھ مار کر کسی طرح اپنا کام پورا کرنے میں لگی رہی ۔ اُسی وقت ٹی وی پر کارٹون کی آواز سن کر وہ چپکے سے سیٹھانی سے نظریں بچائے پردے کی آڑ سے کارٹون دیکھتی رہی ۔ وہ بڑی معصومیت سے مگن چوہے بلّی کی جنگ پہ مسکرا اٹھی کہ ایک بھاری ہاتھ اُس کے سر پہ پڑا۔ یہ اُ س کی بنگلے والی سیٹھانی تھی۔ ’او ما سی کی اولاد تو یہاں کام کرنے آئی ہے یا تفریح کرنے چل کام کر۔‘ اور شہناز کے نا پختہ ذہن کو اُسی وقت اپنی حیثیت کا احساس ہو گیا کہ آخر وہ کیا ہے۔ وقت گزرنا گیا لوگوں کی ڈانٹ پھٹکار کی اب وہ عادی ہو چکی تھی۔باسی کھانا کھانا اور اُترن پہننا اُس کی زندگی کا حصّہ بن گیا تھا اُس سے آگے بھی کوئی دنیا ہے وہ اِن باتوں سے بے خبر تھی۔ لیکن اب وہ بڑی ہو رہی تھی۔ آج اُسے رونا کسی کی مار یا پھٹکا ر سننے کی وجہ سے نہ آیا تھا بلکہ آج اُس کی نئی مالکن سارہ نے اُسے کچھ ایسا کہا کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے پہ مجبور ہو گئی۔ وہ رو رہی تھی کہ سارہ نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے ہی روتی ہوئی شہناز کے پاس آکر اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’کیا ہو ا شہناز میری کوئی بات بری لگ گئی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں‘ شہناز نے گھبرائی ہوئی آواز میں جھٹ سے جواب دیا ’نہیں بی بی جی آپ میری مالکن ہی نہیں بڑی بہن جیسی ہو۔ آپ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کرو۔ آپ نے تو مجھے بہت پیار دیا ہے کہ آج تک کوئی میرے بارے میں ایسا نہ سوچ سکا جیسا آپ سوچتی ہو۔ میں پڑھو گی بی بی جی میں ۔۔۔ آپ نے کہا میرا دماغ بڑا تیز ہے میں پانچ مہینے میں پانچویں جماعت تک پڑھ سکتی ہوں آپ آپ پڑھاﺅ گی مجھے۔ آپ کی بات سن کہ میں پچھلے تین دن سے ہو اﺅں میں اُڑ رہی تھی کہ میں بھی پڑھو گی میں بھی سیٹھا نی والی زندگی گزاروں گی میں کچھ کر دکھاﺅں گی کہ میری امّاں اور بہنوں کو گھروں میں کام نہ کرنا پڑیگا۔ آپ جانتی ہیں ہم میں سے ہر ایک کی آنکھوں میں کوئی نہ کوئی خواب بسا رہتا ہے ۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم غریب پیدا ہوئے ہم جیسا ہر بچّہ ڈاکٹر ، اداکار ، سیٹھ بننا چاہتا ہے۔ میڈا خواب استانی بنن دا ھئی۔ پر میڈے خواب حقیقت نہیں بنے گا۔ میں نے اگر پڑھ بھی لیا تو کیا ہوگا کچھ نہیں میں رہوں گی تو ماسی کی بیٹی نہ‘اور وہ پھر سے رونے لگی۔ سارہ شہناز کے لئے پانی لائی اور اُسے خاموش ہونے کا کہتی رہی جب شہناز چپ ہو گئی تو سارہ نے کہنا شروع کیا۔ ’دیکھوشہناز ماسی کی بیٹی ہونا کوئی جرم نہیں۔ تمھیں تو فخر ہونا چاہےے کہ تمھاری ماں ایک محنتی عورت ہے۔ ذرا سوچو اگر ہر بچہ جس کے ماں باپ اُنھیں پڑھا نہیں سکتے اگر وہ یہ سوچنے لگے کہ میں پڑھ لکھ کر کیا کروں گا تو یہ معاشرہ تبدیل کیسے ہوگا۔۔۔ اگر خدا نے تمیں موقع دیا ہے کہ تم آگے پڑھو تو تمھیں اپنے جیسے ہر بچے کے لئے مثال بننا چاہےے۔ اور اسی طرح تبدیلی آئیگی ۔ تمھیں دیکھ کر تم جیسے کتنے بچّے آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے۔ جو محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کو اپنا مصرف بنائینگے۔ تم ہو یا کوئی عام نوجوان ہر کوئی آگے بڑھنے کو صرف دولت کمانے سے تعبیر کر رہا ہے لیکن شہناز ایک بات عمر بھر یاد رکھنا آگے بڑھنا صرف دولت کمانا یا بہترین منصب کا پانا نہیں ۔ ضروری نہیں کہ تمھاری پڑھائی تمھارے گھر والوں کی زندگی کو بدل دے۔ لیکن ہاں تمھاری پڑھائی بہت سے بچوں کے لئے آگے بڑھنے کی نوید ضرور ہوگی۔ اِس دنیا کی رنگارنگی اِن کے دم سے ہے جو اپنے آپ کو بدلتے ہوئے اِس معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اوراِس بات کی پرواہ تک نہیں کرتے کہ اِس محنت کا انہیں کیا صلہ ملے گا اور کچھ مل بھی سکے گا یا نہیںوہ ہر معاملے کو صرف دولت کے ترازو میںنہیں تولتے بلکہ کچھ کر دکھانے کا جذبہ لئے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔۔ تمھیں بھی ایسے ہی آگے بڑھتے رہنا ہے۔ میں جانتی ہوں ہماری قوم کے ہر بچے ہر نوجوان پر خدا کا خاص سایہ ہے۔ ایک قدم تو آگے بڑھاﺅ تم اپنے اندر توانائی اور ولولہ محسوس کرو گی۔ اور یہی جوش تمھیں بڑے کاموں پر اُکسائے گا۔ تم جو اپنے طبقے کے ہر بچے اور نو جوان کی فکر کرتی ہو سب کی زندگیاں بدل سکتیں ہیں۔ تبدیلی کے لئے کچھ سوچنا ہی کافی نہیں بلکہ عملی اقدام بھی ضروری ہے اور اِس کے لئے دل میں عزم درکار ہے تاکہ خوابوں کو حقیقت کا روپ دیا جاسکے۔ ہر انسان کو اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اِس کے لئے کسی بڑے باپ کی اولاد ہونا یا پیسے کی فراوانی ضروری نہیں بس قدم بڑھاﺅ اپنے مقصد کی طرف راستے خود بہ خود بنتے چلے جائینگے۔ آج پاکستان کا ہر نوجوان مایوس نظر آتا ہے۔ کیوں آخر کیوں، آج کا بچّہ، آج کا نوجوان چاہے تو سب کر سکتا ہے۔ اِس ملک کو مایوسی سے نکال سکتا ہے۔ آگے بڑھو خود تبدیل ہو جاﺅ۔ مقصد کو اپناﺅ تو دوسروں میں بھی تبدیل ہونے کی تحریک پیدا ہوگی۔‘

شہناز کی آنکھوں میں عجب چمک تھی کی اُسے اپنی زندگی کی اہمیت کا علم ہو گیا ہو۔آج اُسے احساس ہو ا کہ وہ کتنی اہم ہے وہ کمزور اور غریب نہیں اُس میں ہمت ہے۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے جسم میں بجلی سرایت کر گئی ہو۔ وہ اپنے اندر ایسی توانائی محسوس کر رہی تھی جس سے اُس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی میں کروں گی میں آگے بڑھو گی میں ہمت نہیں ہاروں گی اگر ہم سب اپنی اپنی خواہشات ، تمناﺅں اور آرزوﺅں کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے تھوڑی تھوڑی تبدیلی بھی لائیں گے تو یہ دنیا واقعی ایک جنت نظیر جگہ ہو جائیگی۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 312046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.