لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک ہی نظر یا ملاقات میں دوسروں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل ہم کو ان کی نگاہوں، باتوں اور رویئے سے خود اپنے بارے میں غور کرنا چاہئے اور نتیجہ اخذ کرکے ایسا عمل کرنا چاہئے کہ اپنی کمزوریاں بھی دور ہوجائیں اور دوسرے کی بھی اصلاح ہوجائے۔بدنیتی یا پھر جلدبازی اور مصروفیت کے باعث ہمارے پاس صرف دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے اور تنقید کرنے کا وقت ہے ۔لیکن اپنے آپ کو دیکھنے ، جانچنے اور اپنی اصلاح کرنے کا سبق ہم بھول چکے ہیںاور اگر ایسی بات یاد آجائے تو پھر وقت نہیں ہے۔۔۔۔دوسروں کی برائی کرنے میں جو مزا ہے وہ بھلا خود اپنی اصلاح کرنے میں کہاں؟۔
” یار ہم کیا کریں ، اکیلا آدمی بھلا کیا کرسکتا ہے؟“ کسی نے اس طرف توجہ دلائی تو فوری” زبان دراز کردی“۔ اگلا بھی خاموش چل پڑا، آگے جاکر ایک دوسرے ساتھی نے یوں منہ کھولا ” اور سمجھا اس کو “ ایک ہی جملے میں اس نے خاموش کردیا تجھے“۔

یہ ہے ہم اور ہمارا معاشرہ ، اسی طرح خوب پھل پھول رہا ہے۔بلکہ یہ کہنا چاہئے بگڑ تا جارہا ہے۔آپ میں طاقت اور ہمت ہے اسے سدھارنے کی؟ ارے رکیں بھائی جواب مت دیں ، اس تحریر کے آغاز پر جو کچھ لکھا کیااس پر آپ عمل کرچکے ہیں؟۔۔۔یہ لو ۔۔۔آپ تو میرے بارے میں سوچنے لگے۔۔۔۔!

ہم صدر آصف زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز ، وزرا ءاور دیگر سیاسی شخصیات کے بارے میں خوب دل کھول کر اظہارِخیال کرتے ہیں۔بلکہ ہر شخص کے بارے میں ہماری زبان ایسے انگارے اگلتی ہے جیسے ہماری ذاتی دشمنی ہو۔ویسے اگر دیکھا جائے تو ہم سب کا دلچسپ موضوع ” برائی کرنا ہوتا ہے“۔کسی بھی طرح ازخود محفل برائی کی جانب بڑھ جاتی ہے اور پھر دل کھول کر بھڑاس نکالنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس دوران کسی میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو غیبت کرنے سے روکے۔بغیر سوچے سمجھے ہم بلاوجہ ہی بس دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیئے برائی کرتے رہتے ہیں۔

یہ ایک بظاہر چھوٹی سی لیکن بہت بری عادت ہماری زندگی اور آخرت دونوں ہی کو تباہ کررہی ہے۔

ہم ہر معاملے میں جھوٹ بولنے اور بے ایمانی کرنے والی دنیا کی واحد مخلوق بن چکے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا سب سے ڈرنے والے بن گئے ہیں۔ہمارے دل و دماغ مین دنیا کے خداﺅں کو خوف سرایت کرگیا ہے۔

عام انتخابات کی آمد ہے۔سارے ہی سیاست دانوں کو ایک ہی جملے میں برا بھلا کہہ دینے والوں ہی کو ووٹ دینے کا موقع آنے والا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم جب کسی کو جانچنے ، پرکھنے اور سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے تو ووٹ دینے کا اہم فریضہ ادا کرنے کے قابل بھی ہیں؟معمولی مفاد یا پھرخوف ہمیںکسی کو بھی ووٹ دینے کے لیئے مجبور کرسکتا ہے۔یہ ہی ہوتا ہے ایسے معاشروں میں جہاں شیطان کا راج ہو نتیجے میں پھر مفاد پرست منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے سمجھنے کی بات یہ ہے اورمیری اس تحریر کامقصد بھی یہ ہی ہے واضع کرنا ہے۔معاشرے میں بے ایمانی ، جعلسازی اور جھوٹ عام ہوجائے تو پھر بڑے جھوٹے ، بے ایمان اور جعلسازوں کا غلبہ ہوجاتا ہے ۔وہ ہر ایک کو باآسانی دبااور ڈراسکتے ہیں،کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہمارے ووٹرز بھی ” دودھ کے دھلے “ نہیں ہیں۔یہ سب لوگ بھی تو کنڈے یا میٹر کو ٹمپر کرکے بجلی حاصل کرتے ہیں، یہ بھی تو پانی تک کا بل ہی نہیں بلکہ حقوق العباد ادا ہی نہیں کرتے۔ ان میں دیگروہ تمام برائیاں بھی ہیںجو پورے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ معاشرے میں جب برائی بڑھتی ہے تو برے لوگ اور ظالم لوگ حکمران بن جاتے ہیں۔بس اگر ہمیں اپنے لیئے اچھے حکمرانوں کی ضرورت ہے اور پورے معاشر ے کو سدھارنا ہے تو ہم سب کو انفرادی طور اللہ سے ڈرنے والے بننا ہوگا۔جب ہم سب اللہ سے ڈرنے والے بن جائیں گے تو کوئی کسی کو ڈرا دھمکا نہیں سکے گا۔بس یہ ہی ایک صورت ہے ملک اور معاشرے کو تباہی سے بچانے کی۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165942 views I'm Journalist. .. View More