ہندوستان میں سچ بولنا ’سوئی کے
ناکے سے اونٹ نکالنا ‘کے مترادف ہے۔ سچ بولنے والا عام طور پر مطعون
ہوجاتاہے۔ یہ کتنا مشکل کام ہے یہ آج کل وزیر داخلہ سشیل کمار شندے سے
دریافت کیا جاسکتا ہے۔ سارا میڈیا، پوری پارٹی، پورا سنگھ پریوار ان کے خون
کا پیاسا ہوگیاہے۔ملک گیر سطح پرہی نہیں تمام سوشل نیٹ ورک سائٹ پر ان کے
خلاف مہم چل رہی ہے۔ پانی پی کر سشیل کمار شندے کو کوسا جارہے اور ساتھ ہی
ہندوؤں کوان کے خلاف بیداری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندؤں کو طرح طرح
کے طعنے دئے جارہے ہیں۔ اس طرح کے عناصر کا بس چلے تو وہ نہ صرف وزیر داخلہ
کا بلکہ گاندھی خاندان کا خاتمہ کردیں۔ اب تک میڈیا ،وزراء اور یہاں تک
وزارت داخلہ مسلم دہشت گردی کی بات کر رہی تھی جو انہیں بہت اچھا لگ رہا
تھا۔اس کے حوالے سے انہیں مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کا سنہری موقع میسر
آجاتاتھا۔ دیش بھکتی کے نام پر مسلمانوں کو ہر سطح پر تباہ و برباد کرنا ان
کا محبوب مشغلہ تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہے کہ پہلی بار کسی مرکزی وزیر نے
دہشت گردی کی سرگرمی میں ہندؤں کے ملوث ہونے کے بارے میں انکشاف کیا ہے۔ اس
سے پہلے بھی موجودہ مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بھگوا تنظیموں کا نام
لیا تھاجس کے بعد ہندؤں کے ایک دانشوراور ہارڈورڈ یونیورسٹی کے فیض یافتہ
نے نہ صرف مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی بات کی بلکہ چدمبرم کے
خلاف کئی مقدمات بھی درج کرائے۔ یہی نہیں وکی لیکس نے اپنے انکشافات میں
ہندؤں کے دہشت گرد ی کا نام لیا تھا۔ اس پر سنگھ پریوار اور اس کی سیاسی
بازو بھارتیہ جنتا پارٹی چراغ پا ہوگیا تھا۔ بابارام دیو نے یہاں تک کہہ
دیا تھا کہ ہندو کبھی دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتے ۔ پہلے اس پر غور کریں کہ
ان لوگوں میں یہ سوچ کہاں سے پیدا ہوئی ہے کہ ہندو کبھی دہشت گرد نہیں
ہوسکتے ۔کیوں کہ جس ہندو فلسفہ میں قدرت کی پوجا کرنا، چینٹی کو آٹا کھلانا
اور ناگ کو بھی دودھ پلانا شامل ہے اس ماحول میں پرورش پانے والاکوئی شخص
کیا دہشت گردی کی راہ پر چل سکتا ہے؟۔ دراصل آزادی کے بعد ہندوستان میں
مسلمان ہندو شر پسند عناصر کے لئے مسلمان’ لقمہ تر‘ رہے ہیں۔ہندوستانی
مسلمانوں کو چوراہے پر گری پڑی چیز تصور کیاگیا جس کی مرضی میں آیا وہ
ٹھوکر مارتا ہوا آگے نکل گیا۔ کبھی کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا مگر
جب مسلمان اس سلوک پر اعتراض کرنے لگے تو مسلمانوں کی زبان بند کرنے اور
انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع کیاگیا اور اس پر
جی نہیں بھرا تو مسلم دہشت گردی کا کھیل کھیلا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف مظالم
ڈھانے والے عام طور پر کارپوریٹر سے ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ تک بنتے
رہے۔ کسی کو سزا نہیں دی گئی اس لئے مسلمانوں پرظلم کرنے والے خصوصاً اگر
سنگھ پریوار یا اس کی اتحادی تنظیم یا سیاسی بازو سے ہے تو انہیں ملک میں
ہیرو کا درجہ حاصل ہوا۔ مسلمانوں کے خلاف جرائم کو جرائم شمار نہیں کیا گیا
ورنہ فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہندؤں کو سزا دی جاتی ۔
اس لئے مکہ مسجد، مالیگاؤں، اجمیر، سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر مقامات پر
مسلمانوں کو نشانہ بناکر کئے گئے دھماکے کو ہندوستانی معاشرہ میں جرم تصور
نہیں کیاگیا۔مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کو دیش بھکتی کے زمرے میں جگہ دی
گئی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو نریندر مودی، پروین توگڑیا، اشوک سنگھل، ورون
گاندھی اور ان جیسے لیڈروں کو ہندوستانی معاشرہ میں ہیرو کا درجہ حاصل نہیں
ہوتا اور نہ ہی لگاتار تیسری بار نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی بنتے۔ یہی
وجہ ہے کہ جب بھی ہندو دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے تو پورا ہندوستانی
معاشرہ چراغ پا ہوجاتاہے کہ مسلمانوں کو مارنا دہشت گردی کے کیسے ہوسکتا ہے۔
اس لئے ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔ سشیل کمار شندے نے آر ایس ایس اور
بی جے پی کے کیمپوں میں ہندو دہشت گردی کے فروغ کا اقرار کرکے ان طبقوں کو
ناخوش کردیا ہے ۔
وزیر داخلہ نے گزشتہ روز جے پور میں منعقدہ کانگریس کے چنتن کیمپ میں آر
ایس ایس اور بی جے پی پر ہندو دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگایا
تھا۔ساتھ ہی کہا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے دہشت گردی پھیلانے کے
لئے ٹریننگ کیمپ چلائے ۔جس کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی چراغ پا ہیں ہی
ہندوسانی معاشرہ بھی غصہ سے ابل رہا ہے۔حالانکہ بعد میں صفائی دیتے ہوئے
شندے نے کہا تھاکہ ان کا مطلب بھگوا دہشت گردی سے تھا۔وزیر خارجہ سلمان
خورشید نے بھی ’مبینہ ہندو دہشت گردی‘ پر وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے
بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ پوری طرح سے جانچ ایجنسیوں کی طرف سے
فراہم کرائے گئے حقائق پر مبنی ہے۔مرکزی وزیر داخلہ کے بیان کے بعد داخلہ
سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس کم سے کم ایسے 10 لوگوں کے
نام ہیں جو سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور اجمیر شریف درگاہ دھماکوں میں
شامل تھے اور جن کا تعلق کسی نہ کسی وقت آر ایس ایس سے رہا ہے۔قومی تفتیشی
ایجنسی یعنی این آئی اے نے اس معاملے میں جن 10 افراد کے نام دیئے ہیں، ان
میں سے کچھ درج ذیل ہیں:سوامی اسیماند 1990 سے 2007 کے درمیان راشٹریہ سوئم
سیوک سنگھ سے وابستہ تنظیم ونواسی کلیان آشرم کے صوبے پرچارک سربراہ رہے۔
راجستھان اے ٹی ایس کے مطابق سنیل جوشی اجمیر دھماکوں کے اہم محرک تھے اسے
29 دسمبر، 2007 کو مدھیہ پردیش کے دیواس میں پراسرار حالات میں قتل کیا گیا
تھا۔دیویندر گپتاکے خلاف اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں ملوث ہونے
کے الزامات ہیں۔ وہ 2003 سے 2006 کے درمیان جھارکھنڈ واقع جامتاڑا میں آر
ایس ایس کے ضلع پرچارک تھے۔ لوکیش شرما دیوگڑھ میں آر ایس ایس سے وابستہ
رہے لوکیش شرما سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد معاملے میں گرفتار ہے۔سندیپ
ڈانگے فی الحال وہ مفرور ہیں انہیں سمجھوتہ ایکسپریس اور مسلمانوں سے
وابستہ دو مذہبی مقامات پر ہوئے بم دھماکوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ وہ
مبینہ طور پر مؤ، اندور اور شاجاپور ( شجاع پور مدھیہ پردیش) میں آر ایس
ایس پرچارک تھے۔کمل چوہان سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے معاملے میں گرفتار
ہیں انہیں آر ایس ایس کا پرچارک بتایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاجاپور ایس
ایس پرچارک رہے چندر شیکھر لیوے،راجندر، رام جی کلساگرا اور مالیگاؤں
دھماکے میں ملزم سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے نام بھی اس فہرست میں شامل
ہیں۔مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں
ہونے والے حملوں کے سلسلے میں پکڑے گئے کم سے کم دس افراد کا تعلق راشٹریہ
سوئم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں سے ہے۔مسٹر سنگھ نے کہا "ہمارے پاس
ان کے خلاف ثبوت ہیں۔ ہمارے پاس عینی شاہدین کے بیانات ہیں۔اجمیر بم دھماکے
میں بھی جن لوگوں کو گرفتار کیاگیا وہ سب آر ایس ایس کے عہدیدار تھے۔ اجمیر
دھماکے میں ملزموں سے پولیس نے ایک ڈائری برآمد کی تھی جس اندریش کمار کا
نام سامنے آیا تھا جو آرایس ایس کے پرچارک ہیں۔
ایک معروف ہندی روزنامہ نے گزشتہ اپریل میں ایک خبر شائع کی تھی۔ یہ جموں
کی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستانی فوج نے ایک ہندو لڑکی جس کا نام
نینا (18)تھا ہندو دہشت گردوں کی مددگار کی شکل اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
تفتیش میں اس نے کئی ہندو نوجوانوں کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے
اودھم پور اور پونچھ سے آٹھ ہندو دہشت گرد نوجوانوں کو گرفتار کیاتھا۔
ایریا کمانڈر کا نام منوج کمار تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے ساتھ امتیاز
کیسے برتا جاتاہے ۔ اسے اس خبر سے سمجھیں۔ کرناٹک پولیس نے بہت طمطراق سے
گزشتہ ستمبر میں 12 مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا جن میں ڈاکٹر، انجینئر،
سائنس داں، ایم بی اے، بی سی اے، ایم سی اے شامل تھے اور ان پر دہشت گردی
کے الزامات لگائے تھے لیکن ابھی تک ان کے خلاف فرد جرم داخل نہیں کی گئی ہے
کیوں کہ ثبوت کے نام پران لوگوں کے پاس سے نریندر مودی کا فوٹو برآمد ہوا
ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کے پاس ان لوگوں کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث
ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے باوجود اس کے ان لوگوں پر ملک سے بغاوت سمیت کئی
الزامات لگائے گئے ہیں۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کا اس کے علاوہ کوئی مقصد
نہیں ہے کہ ہندو دہشت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مسلمانوں پر دہشت گردی کا
ٹھپہ لگایا جائے۔ دوسری طرف کرناٹک بی جے پی حکومت نے بھگوا دہشت گردی پر
اپنی آنکھ موند رکھی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں ضلع کنور کے کٹوا جانچ چوکی پر
ایک جیپ سے دھماکہ خیز مادہ کا بڑا ذخیرہ برآمد کیا تھا ساتھ ہی دو ہندو
نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا جس کے نام ایم پی بلو (35) اور ٹی رنجن (32)
تھے۔ اس جیپ سے 300 کلو گرام امونیم نائٹریٹ ، 100 کلو گرام دھماکہ خیز
مادہ اور فیوج وائر کے تین بنڈل برآمد کئے تھے۔ یہ دھماکہ خیز مادہ کسی بھی
کو بڑے گاؤں کو اڑانے کے لئے کافی تھا۔ یہ دھماکہ خیز مادہ سبزی کے نیچے
چھپاکر رکھا گیا تھا۔ کیوں کہ یہ نوجوان ہندو تھے اس لئے انہیں دہشت گرد
قرار نہیں دیا گیا ۔ میڈیا نے بھی اس خبر کو اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ملک
کی خفیہ ایجنسی کو کسی طرح کی کوئی تخریب کاری نظر آئی۔جب کہ کرناٹک میں
گرفتار کئے گئے افراد مسلمان تھے اس لئے انہیں نہ صرف خونخوار دہشت گرد
قرار دیاگیابلکہ ان کے خلاف ملک سے جنگ کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔
اب جب کہ آر ایس ایس کے کئی بڑے لیڈروں کے نام دہشت گردی کو فروغ دینے میں
آچکا ہے ، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جس کا سیاسی بازو بھارتیہ
جنتا پارٹی ہے ، کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
راجستھان اے ٹی ایس نے سنیل جوشی کی ڈائری برآمد کرکے ان تمام لوگوں کے
گھناؤنے چہرے سے نقاب الٹ دیا تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، اجمیر،
مالیگاؤں، نانڈیڑ ، کانپور اور دیگر مقامات پر بم سازی اور دھماکہ کے
ملزمین اس وقت تک گرفت میں نہیں آئے تھے جب تک مہاراشٹر اے ٹی اس کے سربراہ
آنجہانی ہیمنت کرکرے نے ان کا پردہ فاش نہیں کردیا تھا۔ اس کے پاداش میں
انہیں فوری طور پر سزا دی گئی اورہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا خاتمہ کردیا گیا
لیکن جتنا کام وہ کرگئے تھے وہ ان ہندو دہشت گردوں کی گردن تک پہنچنے کے
لئے کافی تھا جسے ان کے جانشینوں نے آگے نہیں بڑھایا اور اس کا دائرہ کار
صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہا۔ کرکرے کی تفتیش کے سہارے راجستھان اے ٹی ایس
نے سنگھ پریوار کے ان لیڈروں کا کردار سامنے لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
آر ایس ایس کی تنظیمیں اس سے بوکھلائی ہوئی ہیں اور اپنے لیڈروں کو کلین چٹ
دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ سنگھ پریوار کے دل
میں نہ قومی جھنڈے کااحترام ہے نہ ہی ہندوستانی آئین کو وہ صدق دل سے تسلیم
کرتاہے۔اس کا اظہار انہوں نے کئی موقعوں پر کھل کر کیا ہے۔ وہ ایساہندوستان
کا خواب دیکھ رہا ہے جہاں صرف ہندو ہوں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے کوئی
جگہ نہ رہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے
خون کاپیاسا ہے اسی طرح آنجہانی ہیمنت کرکرے کے بھی خون کے پیاسے تھے۔
اڈوانی سے لیکر بی جے پی کے دیگر سینئر لیڈروں تک پرگیا سنگھ اور ٹھاکر
دیگر لوگوں کی گرفتاری پر سخت اعتراض کیا تھا اور اس گرفتاری کو ہندؤں کے
خلاف جنگ سے تعبیر کیا تھا۔پرگیا سنگھ ٹھاکر سے ملاقات کرنے کیلئے بی جے پی
کے موجودہ صدر راج ناتھ جیل تک میں گئے تھے۔ اس سے بڑھ کر دہشت گردی کی
حمایت کیا ہوسکتی ہے۔ ایک تصویر میں پرگیا سنگھ ٹھاکر کے ساتھ مدھیہ پردیش
کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور راج ناتھ سنگھ نظر آرہے ہیں۔ اسلامک
موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر صرف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزاما ت لگے
تھے تو اس پر اس وقت کی قومی جمہوری اتحاد حکومت نے فوری طور پر پابندی
عائد کردی تھی اور پورے ہندوستان سے سیمی کارکنان کو جس طرح گرفتار کیاگیا
اور جس قدر شدید ایذائیں دی گئیں اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا اس سے
ہزاروں مسلم خاندان برباد ہوا ہے۔ اب تک سیکڑوں کارکنان جیل میں بغیر کسی
سزا کے بند ہیں۔ ان پر اسی طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں کہ ان کے پاس سے
اردو لٹریچر، اردو کی کتابیں یا اردو میں کوئی مواد برآمد ہوا تھاجب کہ
سنگھ پریوار کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے نہ صرف ثبوت ہیں
بلکہ اسیمانند کا اعتراف گناہ بھی ہے جو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے کافی
ہے۔ تو پھر حکومت کو اب کس بات کا انتظار ہے۔ حکومت نے صرف مسلمانوں کو خوش
کرنے کے لئے یہ بیان دیا ہے یا نشانہ آئندہ ہونے والے 9 اسمبلی اور لوک
سبھا کے عام انتخابات ہیں۔ یہ آئندہ چند ماہ میں ثابت ہوجائے گا کیوں کہ
حکومت کا منشا کبھی بھی مسلمانوں پر ظلم کرنے والے کو سزا دینے کا نہیں رہا
ہے۔ |