پاکستان میں حب وطن اور محنتی و
قابل افراد کو کہیں بھی صلاحیتوں کے مطابق اول تو کام دیا ہی نہیں جاتا ہے
اگر دے بھی دیا جائے تو انکی راہ میں کئی روڑے اتکائے جاتے ہیں تاکہ وہ دل
برداشتہ ہوکر اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کی دھن میں نہ رہے اور مفاد
پرست لوگوں کو انکا فائدے بدستور ملتے رہیں۔بعض اوقات اگر وہ اس طرح سے بھی
کام سے پہچھے نہ ہٹے تو پھر اسکا کام ہی تمام کر دیا جاتا ہے کہ نہ رہے
بانس نہ بجے بنسری۔ابھی حال ہی میں نیب کے نوجوان افسر کامران فیصل کو بھی
جانفشانی سے کام کرنے کا صلہ جان سے مار دینے کی صورت میں دیا گیا ہے۔کہ
پاکستان میں سب سے بڑا جرم یہاں سچ بولنا یا اپنے حق کی بات کرنا یا وطن سے
محبت ہے۔
پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کے تفیشی افسر کامران فیصل کے والد
حاجی عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا زندگی بھر نہیں بکا تو اب اس کی
لاش پر برائے فروخت کیسے لکھ دوں؟ انہوں نے یہ بات کیوں کی ہے آپ سب باشعور
سمجھ دار لوگ ہیں بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے بھی
لوگ در بدر پھرتے ہیں اور بیشتر معاملات میں انصاف اگلی نسلوں تک بھی نہیں
مل پاتا ہے۔ اس قتل کے بارے میں بہت سی باتیں زبان زد عام ہیں لیکن انکے
قتل کا فائدہ کس کو سب سے زیادہ پہنچا سکتا ہے یہ بات اب ایک چھوٹی سے
ریٹرھی لگانے والا شخص بھی جانتا ہے مگر یہاں پر ایک بار پھر سیاست کر کے
خون کو بیچنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اسی وجہ سے کامران فیصل کے والد نے
اسطرح کا بیان دیا ہے جو کہ ایسے افراد کےمنہ پر طمانچہ ہے جو اسکو اسطرح
سے دبانا چاہ رہے تھے۔
نیب افسر کامران فیصل کی موت کا مقدمہ چھ روز بعداسلام آباد کے تھانہ
سیکریٹریٹ میں درج کرلیا گیا ہے۔نیب کے افسران کا موقف ہے کہ کامران فیصل
کی موت خود کشی نہیں بلکہ قتل ہے۔اب اتنے روز کی تاخیر کی وجہ بھی بہت سے
شکوک و شہبات پیدا کر رہی ہے لیکن سب کو اپنی پڑی ہوئی ہے کہ کیس جلد از
جلد ختم ہو اور انکی سیاسی ساکھ خراب نہ ہو۔مگر اس بار میڈیا نے کسی قدر حق
کا ساتھ دے کر کامران فیصل کے قتل کے ذمہ داروں کو کہٹرے میں لانے کے اپنی
سعی تو کردی ہے۔اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ کیسے حقائق کو سامنے رکھ کر
اس کیس کا فیصلہ کرتی ہے۔
کامران کاپوسٹ مارٹم کرنے والا میڈیکل بورڈ ناتجربہ کار ہونے کا انکشاف بھی
ہوا ہے جو کہ اس کیس کو مشکوک بنا چکا ہے جبکہ پمز اسپتال میں اعلیٰ
ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود بھی پوسٹ مارٹم پولی کلینک میں کیا گیا ہے جو
کہ سب کو حیران کر چکی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے رینٹل
پاورعملدرآمد کیس کی سماعت کامران فیصل کی موت کی تحقیقات تک روکنے کی
استدعا مستردکردی۔یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ قتل کی تحقیقات روکنے کا
مقصد کیا ہے۔جبکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وزیراعظم پرویزاشرف صاحب نے
شدید ذہنی دبائو کی وجہ سے اپنی بیٹے کی ولیمے کی تقریب میں بھی مہمانوں کے
چھبتے ہوئے سوالوں سے بچنے کے لئے شرکت نہیں کی ہے۔جو کہ تصویر کا دوسرارخ
بھی سامنے کر رہی ہے۔
جبکہ کامران فیصل کی ابھی تک سامنے آنے والی تصاویر بھی خودکشی کے مفروضے
کو یکسر رد کرتی ہے اور اس بات کی جانب کھلا نشاندہی کرتی ہے کہ اس بار پھر
ایک اونچا کھیل کھیلا گیا ہے۔حالانکہ کے قوم کے اس بیٹے نے محض ملک و قوم
کے اربوں روپے کی کرپشن کو بے نقاب کرنے اور مجرموں کو سامنے لانے میں اپنی
ایمانداری دیکھائی ہے۔اب یہ پوری پاکستانی قوم پر منحصر ہےکہ وہ اسکو سچا
ثابت کرنے میں اپنا کردار سرانجام دیتے ہیں یا نہیں ابھی تک کسی سیاسی
جماعت یا لیڈر نے اس بار ے میں کھل کر بیان جاری نہیں کیا ہے جو کہ ہمارے
لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یوں ہی ملک میں کرپٹ لوگ اپنی جیبیں گرم کرتے
رہے اور ہونہار نوجوان قتل ہوتے رہے تو پھر اس ملک میں بہت بڑی تباہی سامنے
آئے گی۔
آئندہ آنے والے وقت میں اس کیس کے بارے میں بہت کچھ سامنے آئے گا ہو سکتا
ہے کہ اس بارانصاف ہوتا دکھائی دے اگر ایسا ہوا تو ایک بڑا انقلاب کا راستہ
ہموار ہو جائے گا اور پاکستان کے حالات بھی بہترہونا شروع ہو جائیں گے۔اور
اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس ملک میں ہر کسی کو اپنی من مانی کرنے کا ایک
اجازت نامہ مل جائے گا اور ملک تباہی و قتل وغارت کا شکار ہو جائے گا۔اللہ
تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کو ہر لحاظ سے اپنوں اور غیروں کی سازشوںسے
بچائے رکھے آمین۔ |