اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ عرصہ دراز سے روایتی سیاستدانوں کے خوبصورت نعروں سے اپنا مقدر
پھوڑتے اور استحصالی نظام کے ہاتھوں لٹتے پٹتے عوام” نظام“ سے مکمل طور پر
بیزار ہوچکے ہیں مگر چونکہ پاکستان میں دو جماعتی نظام رائج ہے اور عوام کے
پاس ”چوائس “ نہیں ہے اسلئے گزشتہ دو دہائیوں سے یہی دو جماعتیں بار بار
اقتدار میں آرہی ہیں حالانکہ عوام اس بات کو جانتے ہی نہیں بلکہ مانتے بھی
ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں پاکستان اور عوام کیلئے کچھ بہتر کرنے میں ناکام
رہی ہیں اور ان میں شامل سرمایہ داروں ‘ جاگیرداروں و اشرافیہ کے مفادات کے
تحفظ کی پالیسیوں نے عوام کا بھرکس نکالنے کے ساتھ قومی سلامتی کو بھی خطرے
سے دوچار کردیا ہے جبکہ کرپشن کے بے قابو جن اور لسانیت و صوبائیت کے
زہریلے ناگ نے وطن عزیز میں توانائی کے بحران کو جنم دےکر ملکی معیشت کا
جنازہ نکال دیا ہے اور عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتے دکھائی دے
رہے ہیں ‘ کمزور خارجہ پالیسی ‘ نااہل مگر منظور نظر افراد کی اعلیٰ عہدوں
پر تعیناتی کی روایت نے عالمی سطح پر ہمیں تنہا کردیا ہے اور ہم اس مقام پر
آن پہنچے ہیں کہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ہماری آواز نقار خانے میں
طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے اور اگر بھارت کشمیر سے آنے والے پانی پر
مکمل پہرے لگانے میں کامیاب ہوگیا تو یقینا دو وقت کی روٹی کیلئے ترستی
عوام پانی کا ایک گھونٹ خریدنے کیلئے بھی چوری ‘ ڈکیتی ‘ قتل اور عصمت
فروشی تک پر مجبور دکھائی دے گی۔ انہی خدشات و خطرات کے پیش نظر محب وطن
حلقوں نے پاکستان کو روایتی سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے اپنا
کردار ادا کرنا چاہا مگر اقتدار مافیا کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور کوٹہ
سسٹم کے خاتمے کے نعرے کی طرح سونامی کا جھاگ بھی جلد بیٹھ گیا جبکہ انقلاب
کے سونامی کی لہروں کو تیز کرنے کے الزام میںتحفظ پاکستان کے ضامن ادارے کے
سربراہ کو سیاستدانوں کی شاطرانہ چالوں کا شکار ہوکر گھر جانا پڑگیا اور
سونامی سے خوفزدہ سیاستدان ایک بار پھر اپنے گرد تمام مفاد پرستوں کو جمع
کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں مگر ان کی یہ کامیابی یقیناعوام کے مقدر
پر مزید کالک پوتنے کا باعث بن جائے گی کیونکہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو
ناکام و غیر جمہوری قرار دیئے جانے کے باوجود اس ناکام لانگ مارچ سے آئین
کی شق 62اور63 پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کے ذریعے چوروں اور لٹیروں
کو نااہل قرار دینے کا جو مطالبہ طاہرالقادری نے رکھ کر قوم کو آئین کی اس
شق سے روشناس کراکر اس مطالبے کی عوامی حمایت و پذیرائی کی جو بنیاد رکھی
ہے اس نے سیاستدانوں کو بڑی مشکل سے دوچار کردیا ہے اوروہ اس سے بچنے کی
راہ تلاش کررہے ہیں دوسری جانب جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن
کمشنر آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہوئے شفاف انتخابات کرانے کے جس
عزم کا اظہار کیا تھا وہ آج بھی اس کا اعادہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور
انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات کا
ایک بل بھی بنواکر اپنی تمام تر تجاویزکے ساتھ حتمی منظوری کیلئے پارلیمنٹ
کو بھجوادیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی دیانتداری ‘ فرض شناسی اور شفاف
انتخابات کرانے کا عزم اپنی جگہ مگر انتخابی اصلاحات کے بل کے حوالے سے کئی
حلقوں کی جانب سے متفرق اعتراضات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں ۔
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کی جماعت کی جانب سے انتخابات میں کامیابی
کیلئے 50فیصد ووٹوں کے حصول کی شرط پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
سیاستدانوں کے کردارو اعمال اور حکمرانوں کی پالیسیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی
دہشت گردی اور بد امنی نے ووٹرز کو انتخابی عمل سے دور کردیا ہے جس کی وجہ
سے ووٹ ڈالنے کی شرح بتدریج کم ہورہی ہے ایسے حالات میں صورتحال کو ووٹرز
کیلئے موزوں و پرامن بنائے اور عوام میں ووٹ کے یقینی استعمال کا شعورپیدا
کئے بغیر عجلت میں50فیصد متناسب نمائندگی کی شرط مسائل کو جنم دے گی اور
اکثر حلقوں میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا باعث بنے گی کیونکہ پورے
پاکستان میں چند ہی ایسے حلقے ہوں گے جہاں درجنوںسیاسی جماعتوں کے غبار میں
کسی ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ یا کوئی آزا د امیدوار 50فیصد ووٹ حاصل
کرکے کامیاب تصور کیا جاسکے ۔
روشن پاکستان پارٹی کے قائد امیر پٹی نے انتخابی کاغذات نامزدگی فیس صوبائی
اسمبلی کیلئے2ہزار سے بڑھاکر25ہزاراورقومی اسمبلی کیلئے 4ہزار سے
بڑھاکر50ہزار کرنے کی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے طبقاتی تضاد
اور اشرافیہ کا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش قرار دیا ہے اس حوالے سے ان کا
کہنا ہے کہ قومی وصوبائی امیدوار بننے کی فیس میں پانچ گناہ اضافہ عملاً بے
وسیلہ عام آدمی کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کے راستے بند کرکے کرپٹ عناصر
‘ روایتی سیاستدانوں اور مقتدر خاندانوں کو دوبارہ اقتدار میںلانے کا سبب
بنے گا اور ایسے ہی کچھ تاثرات پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئر پرسن غنویٰ
بھٹو صاحبہ کے بھی ہیں ۔
بعض سیاسی و جمہوری حلقوں کی جانب سے بیلٹ پیپر میں خالی خانے کی موجودگی
کی تجویز پر بھی اعتراض اٹھایا جارہا ہے ان حلقوں کا موقف ہے کہ خالی خانے
کی موجودگی ووٹ استعمال کرنے والے رائے دہندگان کو انتخابات مسترد کرنے کا
اختیار ہی نہیں بلکہ اس کی ترغیب بھی دے گی اور اگر عوام اس ترغیب کی جانب
راغب ہوگئے تو یقینا خالی خانے پر مہر کی تعداد انتخابی نشانوں پر مہر سے
کہیں زیادہ ہوگی جس نتیجے میں انتخابات کی تمام مشق لاحاصل ہوجائے گی اور
نظام تلپٹ ہوجائے گا جو یقینا آمرحلقوں کو اپنے کردار کی ادائیگی کا جواز
فراہم کرے گا ۔
الیکشن کمیشن کے انتخابی اصلاحاتی بل کے حوالے سے سیاسی حلقوں کے اعتراضات
و تاثرات سامنے آنے سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی
اصلاحات کا جو بل اور اس بل میں تجاویز مرتب کی ہے ان میں سے 50فیصد شرح
نمائندگی کے حصول کی شرط اور بیلٹ پیپر میں خالی خانے کی موجودگی یقینا
پاکستان میں اصلاح و انقلا ب کیلئے موثر کردار ادا کرسکتی ہیں مگر موجودہ
حالات میں موزوں و مناسب نہیں کیونکہ انتخابات نزدیک ہیں اور بہت سے حلقے
انہیں ملتوی کرانے کے درپے ہیں لہٰذا انتخابات کو انقلابی بنانے کی بجائے
شفاف و غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے پر توجہ دی جائے تو یقینامنصبے
فریضے کی دیانتداری سے ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جبکہ کاغذات
نامزدگی کی فیس میں اضافہ حقیقی معنوں میں عام آدمی اور چھوٹی سیاسی
جماعتوں کو پہلے ہی قدم پر کانٹ چھانٹنے کا باعث بن کر اقتدار کے کھیل میں
عام آدمی کی شرکت پر پابندی لگانے کے مترادف ہوگا جس کا فائدہ یقینا روایتی
و موروثی سیاستدانوں اوردولتمند مگر کرپٹ عناصر کو ہوگا ۔
اسلئے الیکشن کمشنر اگر حقیقی معنوں میں ملک و قوم کیلئے اپنے فرائض منصبی
کو دیانتداری سے ادا کرتے ہوئے مثبت تاریخی کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں
تو انہیں آئین و قوانین کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے تمام کرپٹ مافیاز
کو آئین کی شقوں کے مطابق اسکروٹنی کے عمل میں نااہل قرار دیکر اہل ‘ با
صلاحیت ‘ دیانتدار اور حقیقی معنوں میں اس عوامی قیادت کا راستہ صاف کرنا
ہوگا جو ملک و قوم سے مخلص ہے اور پاکستان کیلئے حقیقی معنوں میں کچھ کرنا
اور اس ملک کو کچھ دینا چاہتی ہے اگر ایسا ہوگیا تو پھرپاکستان کو سنہرے
مستقبل کی جانب گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا اور تاریخ میں چیف
الیکشن کمشنر کا نام سنہری حروف سے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا ! |