سردی جب بھی شِدّت اختیار کرتی
ہے، دِل کی اُداسی اور بیزاری بڑھ جاتی ہے۔ اِس بار پاکستان میں سردی نے
شاید قیامت ڈھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ شدید سردی نے اُداسی بھی بڑھائی ہے۔
مگر خیر، اللہ نے اِس کا تریاق بھی عطا فرمایا ہے۔ عام انتخابات کا موسم
بھی وارد ہوچکا ہے۔ اور اِس موسم میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے قوم کے
”قائدین“ روزانہ کچھ نہ کچھ فرماکر اُداسی کا توڑ پیش کر رہے ہیں۔ بعض
بیانات میں اہل سیاست کا معصومیت اور سادگی سے مُزیّن لہجہ دیکھ کر ہونٹوں
پر ہنسی ڈیرے ڈال لیتی ہے! پشاور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے
اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے فرمایا کہ پانچ برسوں کے دوران صرف جے
یو آئی (ف) نے اسلامی نظام کے لیے آواز بلند کی ہے! ہماری سادگی اور تغافل
ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پانچ برسوں میں جے یو آئی (ف) کی اِتنی بڑی دینی
خدمت دکھائی نہیں دی۔ دکھائی دیتی بھی کیسے؟ ہم جے یو آئی (ف) سے زیادہ فضل
الرحمٰن صاحب پر نظریں گاڑے ہوئے ہوئے تھے کہ کب کب اُنہوں نے حکومتی
اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا اور وہ تحفظات کِس طور دور کئے گئے!
فضل الرحمٰن پارٹی کے کارنامے گنوانے تک محدود نہیں رہے بلکہ قوم کی
معلومات میں بھی یہ کہتے ہوئے اضافہ کیا کہ پانچ برسوں کے دوران غیر
اعلانیہ مارشل لا نافذ رہا ہے! بات غلط نہیں۔ پانچ برسوں میں حکومت نے جو
کچھ بھی کیا وہ ایک ایسے منفرد قانون (لا) کا درجہ رکھتا ہے جس نے مار مار
کر ہمارے اعصاب شل کردیئے! اِس اعتبار سے دیکھیے تو پانچ برس سے
”مار۔شل۔لا“ ہی نافذ رہا ہے!
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے جلسے کے شرکاءسمیت پوری قوم کو ایک اور پتے کی
بات بتائی، یہ کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرکے
مداخلت کرنا چاہتا ہے! اچھا ہوا جو فضل الرحمٰن صاحب نے بتادیا ورنہ اب تک
تو ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ امریکا ہمارے معاملات میں مداخلت کرتا آرہا ہے۔
اب اندازہ ہوا کہ اب تک جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ مداخلت کی محض تیاری ہے!
”زمانہ ما قبل مداخلت“ کا یہ حال ہے تو پتہ نہیں مداخلت کیا گل کھلائے گی!
فضل الرحمٰن کے ”انکشاف“ سے حواس باختہ ہوکر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!
موسم سے بھی زیادہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ گزشتہ عام
انتخابات کا بائیکاٹ غلط فیصلہ تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اُنہیں نہر والے
پُل پر چھوڑ کر چلی گئی! عمران صاحب کو مسلم لیگ (ن) کا شکر گزار ہونا
چاہیے کہ وہ نہر والے پُل تک آئی تو سہی، نور جہاں کے ”خورے ماہی“ جیسی
نہیں نکلی جس نے مٹیار کو نہر والے پُل تک بلایا مگر خود آنے کی زحمت گوارا
نہیں کی! عمران خان نے اپنے بیان میں موروثی سیاست کا رونا روتے ہوئے یہ
بھی کہا ہے کہ حکومت نے سیاست دانوں کی قیمت لگادی۔ ملک نیچے جارہا ہے اور
سیاست دان اوپر جارہے ہیں۔ مزید یہ کہ آصف زرداری اچھے سیاست دان نہیں۔
انہوں نے قیمت لگاکر کسی کو کراچی اور کسی کو پنجاب پکڑا دیا۔ تحریک انصاف
کے سربراہ کو معلوم ہی نہیں کہ عوام کی دُعا اب تک قبول نہیں ہوئی یعنی
سیاست ”اوپر“ نہیں جارہے! اور حکمرانوں نے قیمت لگاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش
کی ہے کہ اُن کی برادری کے لوگوں کی بہر حال تھوڑی بہت تو قدر و قیمت ہے!
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دس دن قبل جو ڈراما اسٹیج کیا تھا اس کا ایک اور ایکٹ
اتوار کی شام شائقین یعنی قوم کے سامنے پیش کیا گیا۔ حکومتی ٹیم تحریک
منہاج القرآن کے مرکزی دفتر گئی۔ طاہرالقادری نے مذاکرات کے دوران فرمائش
کی کہ صدر، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز منجمد کردیئے
جائیں تاکہ الیکشن میں اُن کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا جاسکے۔ اِس کے جواب
میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے وضاحت فرمائی کہ این
ایف سی ایوارڈ کے تحت فنڈز صوبوں کے پاس ہیں جن پر وفاق کا اختیار نہیں رہا۔
کائرہ صاحب نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ آئین کی اصل شکل نہیں بگاڑی جائے
گی اور ساتھ ہی کوشش کی جائے گی کہ تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن
ہوں۔
طاہرالقادری صاحب صرف صوابدیدی فنڈز منجمد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں
پانچ برس سے سبھی کچھ منجمد ہے۔ صواب دید ہی نہیں ثواب دید اور عذاب دید
بھی یخ بستہ ہیں! ویسے فنڈز منجمد کرنے کی فرمائش قومی مزاج کے یکسر برعکس
ہے کیونکہ ہمارے ہاں اب سبھی کچھ فنڈنگ کے تحت ہو رہا ہے! ویسے ہمارا خیال
ہے ڈاکٹر صاحب کے سامنے فنڈنگ کی توضیح سُورج کو چراغ دِکھانے کے مترادف
ہے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی پڑھے لکھے ہیں، ہر طرح کی فنڈنگ کا سیاق و سباق
اچھی طرح جانتے ہیں!
کائرہ صاحب کی وضاحت کا بھی جواب نہیں۔ کتنی خوب صورتی سے اُنہوں نے گیند
صوبوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اور وفاق کو تو ایسا بے بس ظاہر کیا ہے جیسے
اُس بے چارے کے بس میں کچھ ہے ہی نہیں! تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی
دن کرانے کی بات قوم کے حلق سے شاید نہ اُترے۔ لوگ کچھ دن شغل میلہ چاہتے
ہیں اور آپ سارا تماشا ایک ہی دن نمٹانا چاہتے ہیں! آئین سے متعلق یقین
دہانی کراتے وقت کائرہ صاحب کو کہنا چاہیے تھا کہ آئین کی اصل شکل مزید
نہیں بگاڑی جائے گی۔ ویسے اب آئین کی اصل شکل تو خود اُس کے لکھنے والوں کو
بھی یاد نہیں! ایسے میں کوئی بھی کھلواڑ کیجیے، کسی کو کہاں معترض ہونا
ہے!ً
سردی کے لشکارے کو لگام دینے کے لیے چند گرما گرم باتیں سابق صدر پرویز
مشرف نے بھی کی ہیں۔ نیو یارک میں آل پاکستان مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب
کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اپنی بات پر قائم رہنے کا ثبوت دیا، یعنی
یہ کہا کہ فی الحال وہ وطن واپسی کی حتمی تاریخ نہیں دے سکتے مگر ہاں اِتنا
ضرور ہے کہ عام انتخابات سے قبل وہ وطن پہنچیں گے۔ پرویز مشرف عمر اُس
مرحلے میں ہیں جہاں اُن پر ”ڈیٹنگ“ کسی بھی طرح سُوٹ نہیں کرتی اِس لیے
اخبار نویسوں کو اُن سے وطن واپسی کی حتمی ڈیٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے!
ہمارا خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان واپس لانے کا ایک اچھا طریقہ یہ
ہوسکتا ہے کہ اُن کے لیے یہاں لیکچرز کا اہتمام کیا جائے! جہاں اِتنے لوگ
منجن بیچ رہے ہیں، تھوڑا بہت سابق صدر بھی بیچ ہی جائیں تو کیا قباحت ہے!
اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کرکے
بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں مذموم عزائم و مقاصد نے
سبھی کو بے لباس ہونے پر اُکسا رکھا ہے وہاں اگر کسی چور لنگوٹی سے بھی
سیاست کی کچھ سَتر پوشی ہو جائے تو اِسے قوم کی خوش نصیبی سمجھیے! |