1998 میں رام گوپال ورما کی
ڈائریکشن میں بننے والی بالی وڈ فلم ”ستیہ“ ریلیز ہوئی۔ ممبئی کے جرائم
پیشہ گروہوں کی باہمی لڑائی کے بارے میں بنائی جانے والی اِس فلم کا اسکرین
پلے انوراگ کشیپ اور سوربھ شکلا نے لکھا تھا۔ مرکزی یعنی ستیہ کا کردار جے
ڈی چکرورتی نے ادا کیا تھا۔ سائڈ ہیرو (بھیکو ماترے) کا کردار منوج باجپائی
کے حصے میں آیا۔ ارمیلا ماتونڈکر اِس فلم کی ہیروئن (ودیا) تھی۔ ویسے تو
پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے ممبئی کے انڈر ورلڈ پر بنائی جانے والی
بیشتر فلمیں کارآمد ہیں مگر ”ستیہ“ کی بات ہی کچھ اور ہے۔
”ستیہ“ کے ایک سین میں ہیرو یعنی ستیہ اپنی محبوبہ ودیا کے ساتھ فلم دیکھنے
جاتا ہے۔ وقفے کے دوران وہ ودیا کے لیے چپس اور کولڈ ڈرنک لینے کی غرض سے
سنیما ہال کے اندر بنے ہوئے اسٹال پر پہنچتا ہے تو پولیس کا مخبر اُسے دیکھ
لیتا ہے۔ ستیہ کولڈ ڈرنگ وغیرہ لیکر ہال میں واپس چلا جاتا ہے اور مخبر
پولیس کو مطلع کردیتا ہے۔ پولیس بر وقت پہنچ کر سنیما ہال کا محاصرہ کرلیتی
ہے مگر فلم کو مکمل ہونے دیا جاتا ہے۔ اندر ستیہ کو معلوم نہیں کہ باہر
پولیس کی بھاری نفری اُس کے سواگت کے لیے موجود ہے! فلم ختم ہوتی ہے تو
لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا جاتا ہے کہ سب لوگ ایک دروازے سے باہر جائیں گے!
ستیہ کے لیے اشارا کافی تھا۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ باہر پولیس تیار کھڑی ہے۔
اب سنیما سے باہر نکلنے اور پولیس کی گرفت سے بچنے کا اُس کے پاس ایک ہی
طریقہ بچا تھا۔۔ یہ کہ کوئی ہنگامہ برپا کیا جائے۔ اُس نے جیب سے پستول
نکالا اور سیٹ کی نیچے دو تین گولیاں داغ دیں۔ بس، ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہال
میں قطار بند لوگ بھاگ کھڑے ہوئے اور جب ریلہ باہر نکلا تو ستیہ بھی نکل
گیا!
ہماری جمہوری حکومت بھی پانچ برس سے یہی کچھ کر رہی ہے۔ جب وہ کسی صورتِ
حال کے جال میں پھنسنے لگتی ہے تو گولیاں داغ کر یعنی کوئی نہ کوئی ہنگامہ
برپا کرکے بچ نکلتی ہے! جو لوگ بالی وڈ میں بنائی جانے والی ”بھائی لوگ“ کی
فلمیں دیکھنے کے عادی، بلکہ ”دَھتّی“ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے
حکمران بھی فلمی منظر ناموں جیسے ماحول میں جی رہے ہیں اور اس ماحول کو
برقرار رکھنے پر پوری توانائی صرف کر رہے ہیں! چند شہروں کو منتخب کرکے اُن
کے حالات کو باری باری خراب ہونے دیا گیا ہے تاکہ میڈیا کے پاس اُچھالنے کے
لیے کوئی تو بات ہو، سیاست دانوں کے پاس چیخنے کے لیے کوئی تو موضوع ہو!
ممبئی کے underworld کو بعض لوگ ”un ڈر world“ بھی سمجھ بیٹھتے ہیں یعنی
ایسی دُنیا جس میں ڈرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مگر یہ محض نظر کا
دھوکا ہے۔ جو لوگ جرائم کی دلدل میں گلے تک ڈوبے یا دھنسے ہوئے ہوتے ہیں وہ
درختوں پر پَتّوں کے ہلنے سے بھی ڈرتے ہیں! کسی پر محض بال برابر بھی شک ہو
تو اُسے ”ٹھوکنے“ سے رتّی بھر گریز نہیں کرتے۔ یعنی انڈر ورلڈ میں جینا ہے
تو ٹھوک ڈال! 1975 کی فلم ”شعلے“ میں ولن گبّر سنگھ کا یہ جملہ تو آپ کو
یاد ہی ہوگا۔ ”جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا!“ انڈر ورلڈ میں اِس جملے کا مفہوم
یہ ہے کہ دوسروں کو جس قدر ڈرا سکتے ہو، ڈراتے رہو!
”بھائی لوگ“ کے بارے میں بنائی جانے والی فلموں میں جو کچھ ہوتا ہے وہی کچھ
ہمیں پانچ برس سے جمہوری تماشے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس طرح ”بھائی لوگ“
کی فلموں میں مخالفین کو ”ٹھوکنے“ یا پھر اُن کی ”واٹ“ لگانے سے کم کا سوچا
ہی نہیں جاتا، بالکل اُسی طرح ہمارے ہاں بھی اقتدار و اختیار پر گرفت مضبوط
رکھنے کے لیے ٹھوکنے اور واٹ لگانے ہی پر اکتفا کیا جاتا رہا ہے! فرق
البتّہ یہ ہے کہ ”بھائی لوگ“ کی فلموں میں گینگ آپس میں لڑتے ہیں اور پبلک
تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں پبلک کو بھی اسکرپٹ کا حصہ بنادیا گیا ہے
اور مخالفین کی واٹ لگانے میں ناکامی ہو تو ”خُنّس“ پبلک پر اُتاری جاتی ہے!
جمہوری ڈرامے کے اسکرپٹ میں تازہ ترین اضافہ ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ کا
شوشا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کا اجلاس ہفتے کو
چیئرمین فرحت اللہ بابر کی صدارت میں ہوا جس کا مسلم لیگ (ن) نے بائیکاٹ
کیا۔ اجلاس میں مجوّزہ ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ صوبے سے متعلق بل کی کی
منظوری دی گئی۔ یہ بل پیر کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا اور ممکن
طور پر منگل کو ایوان میں پیش ہوگا۔ اِس نئے صوبے کی اسمبلی 124 نشستوں پر
مشتمل ہوگی اور قومی اسمبلی میں اِس کی نشستیں 59 ہوں گی۔ دوسری طرف چوہدری
نثار علی خان نے اعلان کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی صورتِ حال پر
اپوزیشن جماعتیں آئندہ ہفتے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گی۔ دیکھا آپ
نے؟ وہی اسکرپٹ چل رہا ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنا بھی اِس سیاسی ڈرامے ہی کا
ایک اہم ایکٹ تھا۔ وہ اِشو ختم ہوا تو ووٹ بینک تگڑا کرنے کے لیے بہاولپور
جنوبی پنجاب کا اِشو پھر کھڑا کیا جارہا ہے! یعنی ایک اِشو ختم ہو تو دوسرا
کھڑا کردو اور دوسرا بیٹھ جائے تو تیسرے کی طرف چل دو۔ اِسی غزل اور جواب
آں غزل میں منتخب حکومت کی میعاد بیت گئی ہے اور عوام سیٹوں پر بیٹھے بس
تماشا دیکھتے آئے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ بھارت
کے وزیر خارجہ، مرکزی وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ نے راشٹریہ سویم سیوک
سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہشت گردی کی تربیت اور وارداتوں کا مرتکب
قرار دیکر ہمیں گویا پلیٹ میں حلوہ پیش کیا ہے۔ مگر جمہوری حکومت کے ذمہ
داران کو ”اندر ورلڈ“ سے فرصت ملے تو ”باہر ورلڈ“ کی طرف دیکھیں!
اقتدار کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے بھان متی کا کنبہ جوڑنے کا عمل اِس قدر
خشوع و خضوع سے جاری ہے کہ عوام دیکھ کر مستقل حالتِ حیرت میں ہیں کہ اِس
کے سوا کچھ کر بھی تو نہیں سکتے! مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں کل تک قوم
پرست جماعتوں سے الرجک تھیں مگر انتخابی کامیابی یقینی بنانے کی غرض سے
ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اگر اِن ٹھکرائی ہوئی جماعتوں کو بھی گلے لگانا پڑے تو
کوئی ہرج نہیں! اخلاقی اقدار اور نظریات کا جنازہ اُٹھ چکا ہے۔ جو چیزیں
مستقل غیر استعمال شدہ رہیں اُن سے جان چھڑالینا ہی دانش مندی ہے! ایسے میں
اگر پیر پگارا کی فنکشنل لیگ اور رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک نے مل کر
آئندہ الیکشن کو سندھ دوست اور سندھ دشمن قوتوں کے درمیان مقابلہ بنانے کا
عزم ظاہر کیا ہے تو حیرت کیسی؟
بالی وڈ نے ”بھائی لوگ“ کو فلموں کا موضوع بناکر ہمارے حکمرانوں کو آسانیاں
فراہم کیں۔ بہت شکریہ۔ اب بالی وڈ کے فلم میکرز کو ہمارے جمہوری ڈرامے سے
بھی چند موضوعات اخذ کرنے پر توجہ دینی چاہیے! |