”عام“ آدمی اور اس کے مطالبات

مجھے ناظم آباد جانا تھا۔ کافی دیر سے کشمیرروڈ پرکھڑا کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا۔بڑی دیر بعد ایک خالی رکشہ آتا نظر آیا تو اسے اشارہ کیا ۔ ڈرائیور ایک بزرگ تھے۔ان سے معاملہ طے کیااور رکشہ ناظم آباد کی راہ چل پڑا۔حسبِ عادت ڈرائیور بابا سے تعارفی بات شروع کی۔وہ بھی باتونی تھے یا شایداندر سے بھرے ہوئے۔ ان کا نام شوکت علی تھا۔ساٹھ کے پیٹے میں تھے اوربلدیہ کے رہنے والے تھے۔ بات سی این جی کی کمیابی سے شروع ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ حالاتِ حاضرہ پر آ گئی۔ وہی مہنگائی اور شہر کے بدترین حالات کا ہم رونا رویا کیے۔ڈرائیوربابا اپنی کہتے رہے، ہم اپنی۔ اسی اثنا میں انہوں نے ایک بات ایسی کہی کہ ہماری صحافیانہ رگ پھڑک اٹھی۔ کہنے لگے: ”اس سے اچھا تو فوجی دور تھا۔“ہم چونک گئے۔ بے چارے کچھ پڑھے لکھے تھے لیکن اتنی مشہور بات نہ جانتے تھے جسے چند دن پہلے صدر زرداری بھی دہرا چکے ہیں یعنی ”بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔“ ہم نے انہیں یہ مقولہ سنایا اور پھر ان کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بڑی سلیس اردو میں انہیں بتایا کہ جمہوریت تو دراصل عوام کی حکومت کو کہتے ہیں یعنیآپ کی اپنی حکومت،پھرآپ آمریت کو پسند کیوں کر رہے ہیں؟وہ جواب میں بڑے مضحکہ خیز انداز میں ہنس دیے مگر چپ رہے۔ اپنی اس بات کے خالی پن کا ہمیں خود بھی احساس تھا سو ہم بھی خاموش ہو گئے۔

جمہوریت یعنی عوامی حکومت پاکستان جیسے ممالک میں کتنی عوامی ہوتی ہے، ہم خوب جانتے ہیں۔جتنی سیاسی جماعتیں ہیں،ان میں سے ایک دو چھوڑ کرباقی نہ صرف اپنی تشکیل میں آمرانہ خصوصیات رکھتی ہیںبلکہان میں سےکسی کیبھی ترجیحات میں”عام آدمی“کہیں نہیں ہے۔وہ عام آدمی جو ان کی پارٹی یا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا، وہ تو خیر کسی گنتی میں ہی نہیں ہے لیکن خود ’پارٹی کارکنان‘ کی حیثیت بھی سربراہ پارٹی کے نزدیک ایک کل وقتی غلام کی سی ہے، جسے صرف عام انتخابات سے پہلے ہی اپنے درشن کرانے کی سعادت بخشی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریتکو اب کسی نعرے اور کسی نظام سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔جس کا واضح ثبوت عوام کی اکثریت کاانتخابات سے لاتعلق رہنا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بمشکل تمام 30 سے 35 فیصد رہتا ہے۔ یعنی 65 سے 70فیصد ووٹرز جنہیں ”اصل“ عوام کہا جا سکتا ہے، وہ ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔ اورپھر کسے پتا ہے کہ جو تیس سے پینتیس فیصد ووٹ پول کیے جاتے ہیں، ان میں سے کتنے حقیقی ووٹ ہوتے ہیںاور کتنے بوگس؟چلیے حقیقی اور بوگس ووٹ کی بات چھوڑئیے، یہ تیس فیصد ووٹ جو پول کیے گئے، ان میں سے جیتنے والی پارٹی کو کتنے فیصد ملتے ہیں ، جن کی مدد سے وہ حکومت بناتی ہے؟ان اعدادوشمار کے عجب گورکھ دھندے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو حکومت انتخابات کے بعد بنتی ہے، وہ عوامی حکومت ہوتی ہے یا دوسرے الفاظ میں عوام کی اکثریت کی نمایندگی کرتی ہے!

حقیقت تو یہ ہے کہ بار بار کے منفی تجربات کی وجہ سے اب عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کون کرسی پر متمکن ہے اور کون جلوس فرما رہا ہے؟ انہیں اس سے بھی کچھ لینا دینا نہیں کہ انقلاب کا نعرہ لگا کر کون لانگ مارچ کر رہا ہے۔ بابا شوکت علی بہت کم پڑھا لکھا ہے، اس لیے پارلیمانی، صدارتی ، آمریت اورجمہوریت کی اصطلاحات سے واقف نہیں ہے۔ وہ جدید سیاسی نظریات کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔ وہ تو صرف یہ جانتا ہے کہ اسے شام میں اپنے بچوں کے لیے روزی کما کر لے جانا ہے اوراسے اپنی بچی کی مناسب جگہ شاد ی کرنی ہے ،ٹین کی چھت پختہ کرنی ہے اور بچوں کو کچھ پڑھانا ہے۔

اور صرف کراچی کا رکشہ ڈرائیور شوکت علی ہی نہیں بلکہ بہاولپور کا مزدور بشیراجٹہو،مردان کاموچی سمندر خان ہو یا خضدار کادکاندار محمد علی بروہی، کسی کو بھی حکومت کے آنے جانے یا کسی پارٹی سے کوئی سروکار نہیںہے ۔ وہ توروز اپنے ”عام“ ہونے کے جرم کی سزا پاتے ہیں۔ انہیں بیچ چوراہے پرگن پوائنٹ پر لوٹا جاتا ہے اور ذرا سی مزاحمت کرنے پر بے دریغ گولی مار دی جاتی ہے۔ان کی تذلیل کی جاتی ہے، انہیںمہنگائی کے عذاب تلے کچلا جاتا ہے، انہیں رشوت ستانی کے ذریعہ ستایا جاتا ہے اور ان کو پانی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے اتنا رگڑ دیاجاتا ہے کہ انہیں کسی قائدِ انقلاب کی خوش بیانی سے متاثر ہونے کا وقتہی نہیں ملتا ۔

اس عام آدمی کی توقعات اور مطالبات بہت تھوڑے اوربے حد سادے ہوتے ہیں، اس کا کچھ اندازہ اس دلچسپ واقعہ سے ہوتا ہے جو پاکستان کے سابق وزیراعظم فیزوز خان نون نے اپنی آپ بیتی ”چشم دید“ میں اپنی انتخابی مہم کے ذیل میں لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”میرے پہلے انتخاب کے دوران ایک شخص نواحی گاؤں سے میرے والد کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ دو سال ہوئے میری گدھی کھو گئی ہے اور میراپورا شک ایک کمہار پر ہے جو نور پور نون میں رہتا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا کہ یا تو کمہار سے وہ گدھی واپس لے دیں یا پھر اس کی تلافی میرے والد کریں، بصورت دیگر وہ مجھے ووٹ نہیں دے گا۔اس شخص نے میرے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا اور نہ ہی اسے میری پارٹی سے کوئی غرض تھی۔“

غرض اس عام آدمی کے مطالبے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ بس عزت محفوظ رہے، انصاف ملنے کا یقین ہواور اشیائے خورونوش کی قیمت اس کی پگڑی سے زیادہ بلند نہ ہو، یعنی روٹی، کپڑا اورمکان کے ساتھ عزت اور انصاف کی ضمانت .... بس یہ اشیائے خامسہ اسے چاہئیںاوربس۔اب جو بھی ان مطالبوں کو پورا کر دے وہ اس کے لیے دیدہ و دل فرش ِراہ کرنے کے لیے تیار ہے۔چاہے مطالبہ پورا کرنے والا جمہوریت کی راہ سے آئے یا ”کسی“ اور راہ سے.... وہ سب کو جھک کر کورنش بجا لانے کو تیار ہے۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186439 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More