اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ

جناب جاوید چوہدری صاحب روزنامہ ایکسپریس کے مشہورکالم نگار ہیں۔ ان کے” معرکة الآرا “کالم باقاعدگی سے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوتے ہیں۔ ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعدادہے جو ان کے کالم پڑھ کر آگے شیئر کرتے ہیں اور اس پر کمنٹس بھی دیتے ہیں۔ان کے کالم پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ سیاسیات ، معاشیات اور اقتصادی امور کے بارے میں کافی جانکاری رکھتے ہیں لیکن ایک بات جو کافی عرصہ سے میںنے محسوس کی ہے کہ جب بھی وہ خالص دینیات کے حوالے سے لکھتے ہیں تو شاید زیادہ مطالعہ کر کے نہیں لکھتے۔کیوں کہ ان کے ایسے کالم ہمیشہ بہت گنجلک اور کمزور ہوتے ہیں۔ جب کہ موضوع کی نزاکت اور حساسیت اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر لکھنے سے پہلے کسی بھی اور موضوع سے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کر لی جائے۔ ۰۲ جنوری بروز اتوار کو ان کا اسی طرح کا ایک کالم شایع ہوا، جس میں معنوی تضاد بھی تھا اور شاید کم علمی کی بنا پر کئی غلط فہمیاں بھی ۔ کالم کا مرکزی نکتہ وہ سوال تھا جو انہوں نے ایک عالم دین سے پوچھا تھا اور وہ انہیں مطمئن نہ کر سکے۔ پھر خود ہی انہوں نے اس کا جواب دیا ، اور اسے کالم کی شکل میں شایع بھی کر دیا۔ سوال یہ تھا کہ دین ِ اسلام میں وہ کیا خاص بات ہے کہ جس کی وجہ سے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر حیات میں ہی حجاز میں پھیل چکا تھا اور آگے عجم تک بھی چند سالوں میں پھیل گیا۔ مولانا نے اس کا ایک جواب یہ دیا کہ یہ دین فطرت کے قریب تھا۔چوہدری صاحب نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ تمام سابقہ ادیان بھی انسان کی فطرت سے قریب تھے، اور اس کے لیے یہ دلیل دی کہ” اللہ تعالیٰ کی ذات ارتقاءسے بالاتر ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے بھی (نعوذ باللہ) غلطیوں سے سیکھنا ہے، اپنی اصلاح کرنی ہے اور طویل ارتقائی عمل سے گزر کر اسلام تک پہنچنا ہے تو پھر انسان اور اللہ تعالیٰ میں کیا فرق رہا؟ یہ سوچ توہین خدا ہے، ہمار اللہ اور اس کا پیغام قطعی ہے، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کا پیغام ایک ہی تھا، اس میں بال برابر فرق نہیں آیا۔“

مولانا نے ان کی بات سے اتفاق کر لیا اور ان سے کہا کہ چلیں آپ ہی بتا دیجیے۔تو چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ دراصل اسلام دنیا کا آسان ترین دین تھا۔ دنیا میں اس سے آسان دین ہو نہیں سکتا۔ پھر اپنی بات کے حق میں انہوںنے کئی دلیلیں دیں، جو اپنی جگہ درست بھی ہیں لیکن مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ فطرت سے قریب اور آسان ترین میں کیا فرق ہے؟جو شے یا فعل جتنافطرت سے قریب ہوتاہے، وہ اتناہی سہل ہوتاہے اور جو شے یا فعل جتنافطرت سے دور ہوتا ہے وہ اتنا ہی مشکل اور بعض اوقات ناممکن العمل ہوتا ہے۔ یہودیت اور عیسائیت کی جتنی مشکلات انہوں نے گنوائیں، وہ دراصل فطرت سے دور ہونے کی بنا پر ہی مشکل ہیں اوریہ واضح رہے کہ ان مشکلات کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورِ دین نہیں نازل کیا گیا بلکہ خود اُن کے اسلاف نے اپنے دین کو مسخ کر کے مشکل کر دیا۔ باقی کچھ بظاہر مشکل احکام جو یہودیت اور عیسائیت میں ثابت بھی ہیں تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ وہ احکام دراصل اس زمانے ، علاقے اور اس قوم کے ساتھ مخصوص تھے جس پر وہ احکام اترے۔ اور چونکہ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ ہر قوم کے اپنے نسلی خصائل ہوتے ہیں، اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں،علاقے اور حالات بھی قوم کے مزاج اور اجتماعی فطرت پر اثر ڈالتے ہیں، اس لیے ہر قوم کے مخصوص نسلی خصائل، مزاج وفطرت اور زمانے و حالات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ان پر ایسے احکام نازل فرمائے جو ان کی اصلاح احوال کے لیے مناسب تھے۔اس لیے یہ کہنا کہ دینِ اسلام فطرت سے قریب ہے، یاآسان ترین، بہرحال ایک ہی بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بات یہ ضرور دھیان میںرکھنی چاہیے کہ ہم اپنی عقل سے اس آسانی کو متعین نہیں کر سکتے۔ جتنی آسانیاں ہمیں شریعت شرعی عذر کی بنا پردیتیہیں، ان کی بھی حدود طے ہیں کہ بہرحال ہم احکام کے پابند ہیں۔ چوہدری صاحب نے دوسرے مذاہب کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے چند ایسی چیزوں کا بھی ذکر ایسے پیرائے میں کیا ہے کہ جیسے ان کی اسلام نے چھوٹ دے دی ہے۔ مثلاً دوسرے مذاہب کی مشکلات گنواتے ہوئے وہ ایک انتہائی حساس بات بہت آسانی سے کہہ گئے ہیں، یہ کہ دوسرے مذاہب میں مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں، گویا کہ اسلام میں ہے۔ اسی طرح دوسرے مذاہب میں مخصوص حلیہ کا بھی ذکر انہوں نے اس طرح کیا ہے، جیسے کہ اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بلکہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ کسی دوسرے مذہب میں اپنا مذہب تبدیل کرنا اس طرح قابل جرم نہیں جس طرح اسلام میں ہے۔ کیامرتد کے بارے میں شریعت محمدی کا فیصلہ چوہدری صاحب نہیں جانتے ، اسی طرح کیا تشبہ بالکفار سے بچنا اور مسنون حلیے کی اسلام میں کیا حیثیت ہے، شاید اس سے بھی وہ ناواقف ہیں۔ داڑھی نہ رکھنے سے کوئی دین کے دائرے سے تو نہیں نکل جاتالیکن یہ جمہور کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔ بہرحال اپنے نقطہ نظر کو بیان کرتے وقت حدود کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں نیکی برباد گناہ لازم نہ ہو جائے۔ اور ان حدود کا علم انہی سے معلوم ہو گا جو اس علم کے ماہر ہیں۔

اب رہی یہ بات کہ سابقہ انبیاءکرام کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دعوت و تبلیغ میں اتنی کامیابی کیسے ہوئی کہ آپ علیہ السلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی حجاز میں اسلام پھیلتے دیکھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے پہلے تمام انبیاءایک مخصوص علاقے میں، ایک خاص قوم میں ایکمتعین وقت تک کے لیے مبعوث ہوتے تھے ۔ وہ اپنا کام کرتے ، اگر صاحبِ شریعت ہوتے تو اپنی شریعت کے مخصوص احکام کی تبلیغ کرتے اور دنیا سے چلے جاتے۔ ان کے بعد اللہ کی مشیت ہوتی تو کچھ عرصہ کے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہوتا، وہ یا تو پچھلے نبی کی شریعت پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرتا، یا اللہ اسے نئے احکام دے کر بھیجتے جو اس وقت کے حسب ِحال ہوتے۔ ان انبیاءکرام کا دائرہ عمل محدود ہوتا تھا۔ دوسری قوموں کے ایمان و عمل کے وہ ذمہ دار نہ تھے۔ اس لیے ان کی محنت بھی اپنی قوم تک محدود رہتی تھی۔ اورچونکہ نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا تھا، اس لیے کسی نبی کے پیروکار وں پر دعوت وتبلیغ کی ایسی ذمہ داری بھی نہ ہوتی تھی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقہ آپ کے جانثاروں پر عائد ہوئی۔سابقہ انبیاءکی بانسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالمی نبی تھے۔ آپ کا زمانہ مخصوص نہ تھا، بلکہ قیامت تک کے لیے تھا، آپ کا علاقہ مخصوص نہ تھا، بلکہ پوری دنیا پر آپ کی نبوت کا سورج طلوع ہوا تھا، اور اسی وجہ سے کسی خاص قوم پر بھی آپ مبعوث نہ ہوئے بلکہ آپ رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ۔ یہودیت جیسا کہ چوہدری صاحب نے بھی لکھا ہے نسلی مذہب تھا۔ آپ یہودی ماں کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تو آپ یہودی نہیں بن سکتے۔ بالکل اسی طرح عیسائیت بھی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول تھا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، انہوں نے عالمی تبلیغ کا دعویٰ ہی نہیں کیا،لیکن آپ کے رفع آسمانی کے کئی سو سالوں بعد عیسائیوں نے آپ کی تعلیمات کو مسخ بھی کیا اور ان مسخ شدہ مشکل احکام کو عالمی تبلیغی مذہب بنا دیا اور یوں پوری دنیا میں عیسائیت کو فروغ دیا۔جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عالمی نبی ہونے کی بنا پر ایسی شریعت عطا کی جس پر تمام قوموں کے لیے اپنے مخصوص نسلی امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے چلنا آسان تھا۔ہر ذہن کے لیے، ہر صلاحیت والے کے لیے، اس کو سمجھنا آسان، اس پر چلنا آسان تر تھا۔ آپ خیر البشر، سیدالانبیائ، وجہ کائنات اور خاتم النبیین تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق اور دوسری صفات حمیدہ کے اس کمال سے سرفراز فرمائے گئے کہ کوئی دوسرا تصور بھی نہ کر سکے۔ان صفات حمیدہ کی روشنی سے خوش نصیب ہدایت پاتے رہے اور چونکہآپ کی نبوت قیامت تک کے لیے تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے ساتھ آپ کے فیضان یافتہ صحابہ کرام کو بھی آپ کی محنت میں شامل کیاگیا۔ ان جانثاروں نے بنی اسرائیل کی طرح اپنے پیارے نبی سے بے وفائی نہ کی بلکہ ضرورت پڑنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے جسموں کو ڈھال بنا لیا اورراہِ خدا میں مثلہ کیے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام قبول کرنے کے دوسرے ہی روزآٹھ آدمیوں کو دعوت دے کر مسلمان کیا ۔ وہ آٹھ آدمی بھی محنت میں شامل ہو گئے اور یوں آپ اور آپ کے صحابہ کی بے مثال محنت کی وجہ سے اسلام اس تیزی سے پھیلا جس کی مثال سابقہ ادیان میں نہیں تھی۔

وہ خاص بات جو چوہدری صاحب جاننا چاہتے ہیں، وہ دراصل ختم نبوت کی برکت ہے ۔ اسی ختم نبوت کی برکتوں و رحمتوں سے اس امت کو اللہ نے اصحابِ رسول جیسی وہ چنیدہ ہستیاں عطا فرمائیںجن کی قربانیوں کی بدولت اسلام اپنے داعی اول صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں ہی تیزی سے حجاز سے باہر نکل کر دوسری مملکتوں کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا،اور آج چودہ صدیوں بعد پوری دنیا میں نہ صرف موجود ہے بلکہ سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین ہے ۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174142 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More

Islam key Tezi se Pelne ki Waja - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam key Tezi se Pelne ki Waja and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam key Tezi se Pelne ki Waja.