پاکستان کے عوام حیرت زدہ ہیں کہ
پیپلز پارٹی کی حکومت کو اچانک کیا سوجھی کہ اس نے ملک وقوم کے تمام بنیادی
مسائل کو پیچھے چھوڑ کر پنجاب کی تقسیم کو اپنا سب سے بڑا مشن بنا لیا ہے ۔
اس سلسلے میں جس عجلت سے کام لیا جارہا ہے وہ ان کے لئے اور بھی حیران کن
ہے کیونکہ اقتدار کے پانچ سال کے دوران عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں
توکبھی حکومت کی جانب سے ایسی سنجیدگی اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے قائم ہونے والے کمیشن کا پہلا اجلاس تین ماہ
قبل ہوا تھا۔ اس وقت فضا میں اس کے حق اور مخالفت میں آوازیں اٹھیں تو
حکومت کو اسی وقت معلوم ہوگیا تھا کہ اس سے کس قسم کے سیاسی فوائد حاصل کئے
جاسکتے ہیں اور اس معاملے کو اچھالنے کا بہترین وقت کیا ہوگا۔
کمیشن کے پہلے اجلاس کے بعد تین ماہ کی خاموشی رہی۔ طاہر القادری کے لانگ
مارچ کی گرد چھٹنے کے فوراََ بعد کمیشن ایسا متحرک ہوا کہ چند روز میں ہی
صوبے کا نام تجویز اور سفارشات مرتب کرلی گئیں۔سفارشات کے مطابق نئے صوبے
کانام ’بہاولپور جنوبی پنجاب‘ تجویز کیا گیاہے۔ اس کی صوبائی اسمبلی کی 124
،قومی اسمبلی کی 59 اورسینیٹ کی 24 نشستیں مقررکرنے کی سفارش کی گئی
ہے۔صوبائی اسمبلی میں101 جنرل جبکہ23 خواتین اور اقلیتوں کے لیے نشستیں
مختص ہو ں گی۔تاہم قومی اسمبلی میں نئے صوبے کی 59 میں سے 47 جنرل اور 12
نشستیں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص ہوں گی۔ نئے صوبے کا جغرافیہ تین
ڈویژ ن پر مشتمل ہو گا۔ ڈی جی خان ، ملتان اور بہاولپور سمیت مزید دو اضلاع
بھکر اور میانوالی کو بھی شامل کر نے کی تجویزدی گئی ہے۔ رپوٹ میں سفارش کی
گئی ہے کہ نئے صوبے کا دارالحکومت اور گورنر ہاﺅس بہاولپور میں ہوں جبکہ
ملتان اور بہاولپور کو صوبے کے جڑواں شہر قراردینے کے حوالے سے بھی غور
جاری ہے جس کے بعد کچھ صوبائی محکمے ملتا ن میں بھی ہوسکتے ہیں اور کچھ
بہاولپور میں بھی۔ جھنگ کو نئے صوبے میں شامل کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی
کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا
گیا۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ( ن) نے نئے صوبوں کے قیام کے لیے بنائے گئے
کمیشن کی سفارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل طے کر لیا ہے جس کے
تحت پنجاب اسمبلی میں اس کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی جائے گی جبکہ قومی
اسمبلی میں حکومت کی جانب سے قرارداد پیش کرنے کی صورت میں اس کی بھر پور
مخالفت کی جائے گی جبکہ میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کا کہنا تھا
کہ ان کی جماعت کو جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کے حوالے سے کئی تحفظات ہیں۔
کمیشن کی تشکیل وفاقی حکومت نے نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری نے خود کی جس
کے سربراہ ایوان صدر کے عہدیدار ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن سے مشاورت ہی
نہیں کی گئی۔ کمیشن میں ارکان کی شمولیت کا مینڈیٹ سیاسی جماعت کو ہوتا ہے
لیکن پارلیمانی کمیشن میں جس صوبے کو تقسیم کیا جارہا ہے اس کے دو تہائی
حصے کا کوئی رکن شامل ہی نہیں۔ کمیشن میں ایم کیو ایم اور اے این پی کے
ارکان کو شامل کیا گیا جو کبھی جنوبی پنجاب میں اپنا کونسلر تک منتخب نہ
کراسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کا مسئلہ نیا صوبہ تشکیل دینا نہیں اگر نئے
صوبوں کی تشکیل ہی مسائل کا حل ہے تو دیگر صوبوں میں بھی اس سلسلے میں بڑی
واضح تحریکیں چل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب صوبہ بنانا ہی نہیں
چاہتی۔ ایک ایسے وقت میں پیپلز پارٹی اس کا بل اسمبلی میں پیش کررہی ہے جب
اس کی آئینی مدت ہی ختم ہورہی ہے۔ اس بل کی منظوری کے لئے حکومت کو مسلم
لیگ ن کی ضرورت ہے اور اس بل کو پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ پیپلز
پارٹی عام انتخابات میں ووٹ مانگنے کا جواز پیدا کرسکے اور اگر جنوبی پنجاب
الگ صوبہ بن بھی گیا تواس کا فائدہ عوام کو نہیں ہوگا۔
نئے صوبے کے قیام کے حوالے سے سیاسی منظر نامے میں جوگرماگرمی نظر آرہی ہے
اس سے ملک کا عام آدمی تذبذب کا شکار ہے۔ اکثریت کی رائے ہے کہ پیپلز پارٹی
نے اپنے پانچ سالہ دور میں عوامی مسائل سے نظریں چرائے رکھیں اورعوام کو بے
یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ مہنگائی، بدعنوانی اور لاقانونیت کی تمام حدیں
ٹوٹ گئیں۔ سیاسی مصلحت سے بلوچستان اور سندھ کے حالات بے قابو ہوگئے۔ بجلی،
گیس اور پٹرول کے بحران پر قابو پانے کے لئے کسی قسم کے اقدامات تو نہ کئے
گئے البتہ ان کے ٹیرف بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ حکومت نے پہلے
سے موجود صوبوں میں کسی قسم کی سرگرمی نہیں دکھا سکی تو نئے صوبوں کے قیام
سے کیا ہوگا۔ زرداری اپنے پانچ سالہ دورے میں شاید ہی کبھی بلوچستان گئے
ہوں۔ اسی طرح سندھ کے سیلاب زدگان ابھی بھی حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے صوبائی اور وفاقی حکومت کی ناکامی کا
منہ بولتا ثبوت ہیں۔ صوبہ سرحد میں لاقانونیت اور دہشت گردی نے تو وہاں کے
خواص تک کی جانوں کو خطرے میں ڈال رکھا ہے عوام کی تو حالت ہی ناگفتہ بیان
ہے۔ نئے صوبے بننے چاہئیں لیکن صرف عوامی مسائل کے حل کرنے کے لئے۔ اگر اس
کا مقصد صرف پاکستان کو تقسیم کرنا،کسی خاص شخصیت یا طبقے کو وہاں کی
حکمرانی سونپنا، وزیروں اور مشیروں کی نئی فوج قائم کرکے ملک کے وسائل
لوٹنا، منظور نظر افراد کو نوازنا، محض سیاسی ووٹ بینک میں اضافہ کرنا یا
پھر نئی لسانی اور علاقائی نفرتوں کو جنم دینا ہے تو کوئی بھی محب وطن اس
کی اجازت نہیں دے سکتا۔ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام سچے اور محب
وطن پاکستانی ہیں اور وہ اس تقسیم کے نعروں کے پیچھے چھپے سیاسی مقاصد کو
خوب جانتے ہیں۔ ان کو ادراک ہے کہ نئے صوبے کا بل شاید ہی منظور ہو پھر بھی
اگر بل کو پیش کیا جاتا ہے تو یہ محض پوائنٹ سکورننگ اور وہاں کے عوام
کوووٹ کے لئے ورغلانے کی ایک چال کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اس بات کا مکمل
شعوررکھتے ہیں کہ گیس، بجلی ملک کے کسی علاقے میں موجود نہیں کیونکہ نام
نہاد عوامی حکومت نے اس جانب کبھی توجہ ہی نہیں دی ، نئے صوبے کے قیام سے
بھی وہ انہی مسائل کا شکار رہیں گے۔ لہٰذا ضرورت عوامی مسائل کے حل کرنے کی
ہے نہ کہ ملک کو تقسیم کرنے کی۔ترقی اور خوشحالی کے تمام انڈیکیٹرز مثبت
سمت جارہے ہوں تو تقسیم در تقسیم بھی کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں مگر جب
نیت میں فتور ہو تو ایسے تمام اقدامات کے کڑوے لالی پاپ پر جتنی مرضی
خوبصورت ریپر چڑھا دیئے جائیں ، وہ بدذائقہ ہی رہے گا۔ سیاسی شعبدہ بازوں
سے اتنی عرض ہے کہ وہ پاکستان کو مختلف بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بجائے اس
کو جوڑنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر دل اعتماد ، ایثار اور بھائی چارے سے جڑ
جائیں تو ہمیں صوبائیت کے نام سے نفرت ہوجائے اور ہم صرف پاکستانی کہلوانے
پر فخر محسوس کریں۔ |