مملکتِ خداد اد کا مستقبل کیا
ہوگا؟ کیا پہلی بار اسمبلیاں اپنی مدت کار کی تکمیل کی راہ پر گامزن ایک
جمہوری حکومت زوال پذیر ہو جائے گی؟کیا سرحدوں کے محافظ فوج ایک بار پھر
اقتدار اعلیٰ پر قبضہ جما لے گی؟ یا جمہوری حکومت کی قیادت کو ایک بار پھر
تبدیل کرکے بے یقینی پر مبنی حالات کا خاتمہ کر لیا جائے گا؟ یہ اور اس
جیسے درجنوں سوالات ہیں جو اس مملکتِ خدا داد کے باشندے سوچنے پر مجبور ہیں۔
یہ سوچ اُس وقت زیادہ پروان چڑھی جب وزیر اعظم پاکستان کی گرفتاری کا فرمان
سپریم کورٹ نے جاری کیا۔ مگر اس فرمان اور ایسے کسی سوال کا جواب دینا صائب
الرائے افراد کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ مملکتِ خدا داد پاکستان کی
سیاست کا اونٹ کب کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ
کا جائز اور عوامی سوچ کا فیصلہ پاکستان کے حالیہ بحران کو کہاں لے جائے گا
اس کا مشاہدہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر تغیر و
تبدل کے بڑے امکانات کو مسترد کئے جانے کی گنجائش نہیں، لہٰذا دیکھنے کی
بات یہ ہوگی کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ پر عمل در آمد کی کاروائی سے قبل
سیاست کا قبلہ کس طرح تبدیل ہوتا ہے تو دوسری جانب یہ بھی قابلِ دید ہوگا
کہ عدالتی فیصلے پر عمل در آمد آگے چل کر کیا گل کھلاتی ہے۔
ہر چند کہ ہماری سپریم عدالت نے مملکتِ خدا داد کے وزیراعظم بشمول اُن سولہ
افرادکے جو اس کیس سے منسلک رہے ہیں کی گرفتاری کا حکم جاری کئے جانے کے
بعد بھلے ہی دنیا حیران و پریشان ہو کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں صادر
کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے ملک کی تمام ہی
انتظامیہ پر عملاً یہ واضح کیا ہے کہ عدلیہ کا کوئی بھی فیصلہ طاقِ نسیاں
کے سپرد کرنے کیلئے نہیں ہوا کرتا بلکہ اس پر عمل درآمد لازمی ہوا کرتا ہے۔
اب چونکہ سیاسی صورتحال ہمارے ملک کی انتہائی دگر گوں ہے اس لئے وقت کا
انتظار ضروری ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کیا اس حکم نامے پر عمل در
آمد کو ممکن بھی بنایا جائے گا یا نہیں۔ ویسے بھی ہماری عوام جانتی ہے کہ
پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ اللّٰہ“ مگر کچھ سازشی عناصر اس کے مطلب کو
تبدیل کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں جیسا کہ پاکستان کا مطلب ”
اب سب کچھ“مگر ایسی مضحکہ خیزی سے قطع نظر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ
عدالتِ عالیہ نے ان تمام افراد کو گرفت میں لینے کا فیصلہ آخر کیوں صادر
کیا۔ مخالفت برائے مخالفت سے قطع نظر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا جائزہ لیا
جائے تو یہ کہنا بعید از علت نہیں ہوگا کہ عدالتِ عظمیٰ نے پورے نو ماہ کے
انتظار کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ عالیہ پر فائز کی گرفتاری کا فیصلہ
صادر کیا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ عدالت کے سابقہ فیصلوں اور خواہشوں
کے بر خلاف پاکستان کے متعلقہ اداروں نے غیر معمولہ تساہلی، غفلت اور بے
توجہی کا کھلا مظاہرہ کیا جو درحقیقت عدالتِ کے فیصلے کو پسِ پشت ڈالنے کے
محرکات ہو سکتے ہیں۔
ہر چند کہ اسلام اابد کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا عہد کرنے والی تحریک کے
قائد قادری صاحب کے عقیدتمندوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہارِ مسرت کرتے
ہوئے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں اور اسے بظاہر اپنی جیت سے بھی تعبیر کیا مگر
یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ قادری صاحب کے لانگ مارچ اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ
میں کسی طرح کا کوئی ربط نہیں ہے پھر بھی پاکستان کے بعض سیاسی جماعتوں کے
قائدین نے سپریم کورٹ کی حالیہ پیشِ رفت کو ایک دوسرے سے مماثلت سے دیکھنے
کی کوشش کی ہے۔عدالت کے فیصلہ پر تشویش کا اظہار کرنے والی بعض مقتدر
شخصیات نے سپریم کورٹ پر تلخ و تند تبصرہ بھی کیا ہے مگر یہاں پر سوال یہ
اٹھتا ہے کہ جب عدالتِ عظمیٰ کے وقار کو کسی ملک کی حکومت اور انتظامیہ
جوتیوں تلے روندنے کی کوشش کرے گی تو ایسی صورتحال میں عدالتوں کا فیصلہ
کیا اسلام ااباد کی عدالت سے مختلف ہوگا؟یہ بات اپنی جگہ ضرور درست ہے کہ
پاکستان کی عدالت کا شمار بھی دنیا کی چند سریع الحرکت عدالتوں میں ہوتا ہے
مگر اس کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں کو احترام کی نگاہ سے
نہ دیکھا جائے اور اس کے فیصلوں پر عمل در آمد نہ کیا جائے۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستان کی عدالتِ عظمی نے اپنے سخت ترین
یا یوں کہہ لیں کہ غیر متوقع فیصلوں کے ذریعے اربابِ اقتدار کو غنودگی کی
نیند سے جگانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ جو جمہوریت کانغمہ تو پچھلے پانچ برسوں
سے گنگناتے رہے ہیں مگر جمہور اس سے پوری طرح بے زار ہے۔ یہ راجہ صاحب کے
لئے ستم ظریفی سے کم نہیں کہ انہوں نے چند روز قبل ہی سانحہ کوئٹہ کے بعد
بلوچستان کی صوبائی حکومت کو معزول کیا تھا۔ اب خود ان کی معزولی و گرفتاری
کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری سیاست کا تازہ تھپیڑا
انہیں جیل کی کوٹھریوں کا مہمان بنائے گا یا آگے چل کر جاں بخشی ہو جائے گی
، یا کوئی خاص جہاز اُڑان بھر کر انہیں ہماری سرحدوں سے دور لے جائے گا،
مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار اپنی معیاد مکمل کرنے جا رہی
پاکستان کی جمہوری حکومت کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا ہے۔ بہرحال اب دیکھنے اور
محسوس کرنے والی اصل بات یہ ہوگی کہ کیا راجہ صاحب گرفتار ہوتے ہیں اور اگر
نہیں تو پھر عدلیہ کی حکم عدولی کی صورت میں یہ واقعہ کیا رُخ اختیار کرتی
ہے۔
اس کے برخلاف پاکستانی میڈیا میں اس واقعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
شاید اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت ملک کئی داخلی خلفشاروں میں
مبتلا ہے اور وہی موضوعات میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ مثلاً کوئٹہ میں مسلکی
دہشت گردی میں ایک سو کے قریب عزاداروں کی شہادت پر ہر معقول انسان سوگوار
ہے۔ ادھر ایک مذہبی پیشوا نے، جو اب تک تصوف کے راستے پر اصلاح کے داعی
تھی، کینڈا سے آکر پڑوسی ملک کے انّا ہزارے اور رام دیو کے طرز کی سیاست
شروع کر دی جسے پاکستان میں بھی کافی سپورٹ ملی اس کی خاص وجہ تو یہی ہے کہ
جو کچھ انہوں نے تقریروں میں اور آئین کی روشنی میں کہا اور جو تبدیلیاں
لانے کی بات کی وہ آسان طریقے سے عوام کے سمجھ میں آگئی اور چونکہ عوام بھی
اس خواہش کی متمنی ہے کہ تبدیلی ملک کے لئے ضروری ہے اس لئے ان کا ساتھ
دینے پر آمادہ ہوگئی۔ اب خدا کرے کہ ان کی متعدد تبدیلوں کی بات سچ ثابت ہو
جائے تو عوام کو کچھ سکون میسر ہو سکے۔افغانستا ن سے امریکی فوج کے
انخلاءکی خبر بھی ہمارے ملک کے لئے کم اہم نہیں ہے اور سب سے اہم آئندہ آنے
والے مہینوں میں پارلیمانی انتخابات کی گہما گہمی بھی عروج پر ہے۔ ایسے میں
سپریم کورٹ کا فیصلہ راجہ صاحب کی گرفتاری کا آگیا جس وقت قادری صاحب کا
دھرنا بھی جاری تھا۔ ہم سب اس دلیل کی معقولیت پر حیران ہیں کہ جس معاشرے
میں سیاستدان بدعنوان ہیں اس میں افسران کیسے فرشتہ صفت ہو سکتے ہیں؟ ہمارے
یہاں ویسے بھی مضبوط قیادت کا فقدان ہے جو بیدار مغز قیادت کی طرح ملک کو
مضبوط دوش پر دنیا کی بڑی معاشی طاقت بنانے کا چیلنج قبول کرکے ہم سب کو
دنیا بھر میں سرخرو کرے۔
اپنا ضمیر بیچ کے سب کچھ ملا اگر
سمجھو کہ کچھ ملا ہی نہیں سب ہی کھو دیا
کانٹوں بھرا درخت ہی پھوٹے گا اس سے اب
ایک بیج ایسا دل کی زمیں پر جو بو دیا |