اب کے ہم بچھڑے تو شاید ”کِسی دَھرنے“ میں ملیں

خان صاحب گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ بھیڑ دیکھی۔ پوچھا کیا ہو رہا ہے۔ بتایا گیا ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔ پوچھا کیسی ڈگری۔ کسی نے بتایا گریجویٹ کی ڈگری۔ خان صاحب آگے بڑھے اور ڈگریاں فروخت کرنے والے سے کہا دو ڈگری دو۔ اُس نے پوچھا دو کیوں؟ خان صاحب بولے۔ ”ایک ہمارا واسطے، ایک ہمارا گھوڑے کا واسطے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہے کہ گریجویٹ کے اوپر گریجویٹ بیٹھا ہے!“

وطن عزیز میں آجکل خان صاحب ہی کی منطق پر عمل ہو رہا ہے۔ ستم بالائے ستم کے مصداق دھرنا بالائے دھرنا کا موسم وارد ہوچکا ہے! جسے دیکھیے وہ دھرنے کے بخار میں مبتلا ہے۔ پچیس تیس سال قبل محترم اطہر شاہ خان (جیدی) نے ریڈیو اور ٹی وی پر ایک ”سینگ مار“ قسم کا شعر سُنایا تھا۔
جو بکرے نے مارا ہے بکری کے سینگ
تو بکری بھی مارے گی بکرے کے سینگ!

اہل سیاست بھی ایک دوسرے کو دھرنے کے سینگ چُبھونے پر تُل گئے ہیں اور جواز یہی ہے کہ طاہرالقادری نے دَھرنا دیا تو ہم کیوں نہیں دے سکتے! لوگ کہتے ہیں کہ طاہرالقادری کو پانچ سال بعد احتجاج کرنے کی کیوں سُوجھی۔ بھئی بات یہ ہے کہ وہ ملک میں تھے ہی نہیں۔ ہوتے تو کچھ کرتے۔

مسلم لیگ (ن) کو اچانک یاد آیا ہے کہ پانچ برس میں اور تو بہت کچھ (!) کرلیا، بس ایک دھرنا رہ گیا تھا سو دے لیتے ہیں۔ قوم حیران ہے کہ اب دَھرنا کیسا اور کیوں؟ ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ کیا پانچ برس تک مسلم لیگ (ن) کو اُن سانپوں نے سُونگھ رکھا تھا جن کا ذکر کے رحمٰن ملک نے طاہرالقادری اینڈ پارٹی کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی! ویسے رحمٰن ملک مارکہ اسلام آبادی سانپ ہیں بہت چالاک۔ سیاست دانوں کو وہ صرف سُونگھتے ہیں اور عوام کو ڈستے رہتے ہیں!

مسلم لیگ (ن) سے لوگوں کو توقع تھی کہ حکومت کے عوام دشمن اقدامات کو سانپ سمجھ کر اُن پر نیولے کی طرح ٹوٹ پڑے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ سیاسی سانپوں کی نفسیات پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے ایک جوگی نے ایسا منتر پُھونکا کہ سانپ اور نیولے سبھی ”مفاہمت“ کی پٹاری میں بند ہوگئے! مفاہمت وہ جادو ہے جو ازلی دشمنوں کو بھی ایک کردیتا ہے، شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتے ہیں اور کتے بلی کی دُشمنی بھی دم توڑ دیتی ہے!

طاہرالقادری کی خیر ہو کہ اُنہوں نے آکر احتجاج اور دھرنوں کے گھوڑے کو ایڑ لگائی ہے تو کچھ ہلچل ہوئی ہے اور سیاسی بازار میں دام کچھ اوپر نیچے ہوئے ہیں! دھرنوں کا فیشن ویک، بلکہ فیشن منتھ شروع ہوا ہے تو سبھی کے دِلوں میں دھرنا دینے کا ارمان مینڈک کی طرح پُھدک رہا ہے! سبھی کسی نہ کسی طرح، کہیں نہ کہیں دھرنا دینے کو بے تاب اور اُتاؤلے ہوئے جاتے ہیں۔
ہائے کیا کیجیے اِس دِل ک مچل جانے کو!

طویل نیند کے بعد صوبہ ہزارہ تحریک کے بابا حیدر زمان بھی جاگ اٹھے ہیں اور جاگتے ہی حکمرانوں کی نیندیں اُڑانے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک اور پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی صادر فرمائی ہے!

ایک طرف مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن جماعتوں کو جمع کرنا شروع کیا ہے اور دوسری طرف بابا حیدر زمان جیسے آؤ¿ٹ آف دی پارلیمنٹ ایکٹرز بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ طاہرالقادری کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے۔ اُن کا متعارف کرایا ہوا ”دھرنا ٹرینڈ“ مِل جُل کر ہائی جیک کیا جارہا ہے! اِس صورتِ حال کو ویسے تو سبھی انجوائے کر رہے ہیں مگر میڈیا والے تو واقعی مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو روزانہ نئے موضوعات ہاتھ لگ رہے ہیں اور دوسری طرف ٹی وی چینلز کو آسان کوریج کا آپشن ہاتھ آگیا ہے! کامیڈی ڈراموں اور پروگراموں کا دستر خوان سجا کا سجا رہ جاتا ہے اور لوگ سیاست دانوں کی کامیڈی سے پیٹ بھر لیتے ہیں!

مسلم لیگ (ن) نے پانچ برسوں میں ہر بس مِس کی ہے۔ جب میلہ ختم ہونے پر آتا ہے تب یہ پارٹی اپنے کرتب دِکھانے کا سوچتی ہے۔ غور کیجیے، آخری لمحات میں بھی زور ”سوچنے“ پر ہوتا ہے! اب سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ سِتم ظریفی یہ ہے کہ میڈیا کی مارکیٹ میں اِس دھرنے کا بھاؤ بڑھانے کے لیے رحمٰن ملک نے اب تک سانپوں اور سردی سے ڈرایا بھی نہیں۔ ثابت ہوا کہ طاہرالقادری کے دھرنا کیس میں رحمٰن ملک غیر جانبدار نہیں تھے! مسلم لیگ (ن) نیولوں کے ساتھ تیار بیٹھی ہے تو وزیر داخلہ یہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں کہ اسلام آباد میں کوئی سانپ ہے ہی نہیں! یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ اپوزیشن کے نیولوں کا بھی اِتنا تو استحقاق تو بنتا ہے کہ اُن کی کمپنی کی بھی تھوڑی بہت تو ”مشہوری“ ہو!

عوام کا بھی عجیب ہی مزاج ہے۔ یاران تیز گام تیزی سے دھرنا، بلکہ دھرنے دینے پر تُلے ہوئے ہیں اور یہاں یہ سوال داغا جارہا ہے کہ پانچ برسوں میں طرح طرح کے بحرانوں کے وارد یا نازل ہونے پر کوئی دھرنا کیوں نہیں دیا گیا! آٹا، تیل، گھی، چاول، دودھ اور پتہ نہیں کیا کیا مہنگا ہوگیا، توانائی کا بحران جادو کی طرح سَر چڑھ کر بولتا اور ناچتا رہا مگر اپوزیشن کا ”دھرنا ناگ“ کِسی صورت مفاہمت کی پٹاری سے باہر نہ آیا! اب حکومت کی میعاد ختم ہونے کو آئی ہے تو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اوپن ایئر تھیٹر سجایا جارہا ہے۔ عوام کے ساتھ یہ بڑی مشکل ہے کہ وہ جس چیز کو دیکھتے اور برداشت کرتے رہتے ہیں اُسی کو برداشت کرنے سے اچانک انکار کردیتے ہیں! حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں عوام کی پسند و ناپسند کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ اگر وہ بحران کو ابتدائی مرحلے میں مسترد کردیا کریں تو حکمرانوں کے لیے مارکیٹ میں نیا مال متعارف کرانا آسان ہو جائے! اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک دو نہیں، پورے پانچ برس تک کسی چیز کو برداشت اور ہضم کیا جائے اور جب حکومت وہ چیز پیش کرتے رہنے کی عادی ہو جائے تو اُسے مسترد کرکے نئے آئٹم مانگے جائیں!

اب مَنّت مُرادوں سے دھرنوں کا سیزن آیا ہے تو اُسے انجوائے کرنے کے بجائے عوام مائل بہ اعتراض ہیں۔ حکومت خاصی ڈراؤنی فلم کو تھوڑا سا ہیپی اینڈ دینا چاہتی ہے تو اُس کی راہ میں روڑے اٹکانا اچھی بات نہیں۔ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ انتخابات سے قبل اپوزیشن ایک آدھ اوٹ پٹانگ دھرنا دے اور حکومت اُسے روکنے کی اداکاری کے نام پر ذرا سی کامیڈی کا ارتکاب کرے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے! پانچ سالہ جمہوری فلم ڈراؤنی تھی تو کیا ہوا، دی اینڈ میں تو سب ہنستے گاتے نظر آنے چاہئیں جیسے پارلیمنٹ کے ارکان الوداعی فوٹو سیشن میں خوش و خرم دکھائی دیئے!
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483421 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More