پاکستان کا جا گیر دار گروپ بہت
چالاک ہے،سرمایہ دار بڑا سیانا ہے اور وڈیرہ گروپ بڑاشاطر ہے اسے علم ہے کہ
اس کی بقا کس میں ہے لہذا وہ اسی راہ کا انتخاب کرتا ہے جس میں اس کی
بالاستی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے۔یہ وہی گروہ ہے جو فوجی جنتا کے شب خون میں
بھی ان کے دائیں بائیں کھڑا ہو جاتا ہے اور جمہوری جنگ میں بھی اگلی صفوں
میں کھڑ ا نظر آتا ہے۔ ان کا بنیادی ایشو صرف یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس
طرح انتطامی امور کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔وہ اپنی اس خوبی کا ہر وقت بر
ملا اظہارکرتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔آپ
پاکستان کی سیاسی قیادت کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں اور اس کے بعد فیصلہ
کریں کہ ان میں کون سا ایسا قائد ہے جو کہ فوجی اور سول ا اقتدار میں کسی
گو شہِ محرومی میں رہا؟یہ سارے کے سارے کسی نہ کسی رنگ میں فوجی جنتا کے
ہمنشین رہے۔یہ خوشی کا موقع ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر رہی ہے
لیکن اس سے قبل پچھلی اسمبلی نے بھی اپنی مدت پوری کی تھی ۔ یہ الگ بات کہ
اس اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو حزیمت کا سامان کرنا پرا تھا اور اس کے صرف
۵۱ ممبران اسمبلی منتخب ہو سکے تھے کیونکہ اس کے سارے گھوڑے جنرل پرویز
مشرف کی تخلیق کردہ جماعت مسلم لیگ (ق) کے دست و بازو بن گئے تھے۔اگر وہ
مسلم لیگ (ن) میں بھی ہوتے تو انھیں ہی منتخب ہونا تھا۔ان کے انتخاب میں تو
کوئی شک نہیں تھا ۔ صرف آشیانہ بدلا تھا پہلے وہ مسلم لیگ (ن) کے آشیانے
میں تھے لیکن مارشل لاءکے بعد وہ دوسرے آشیانے میں چلے گئے اور وہاں سے
پارلیمنٹ میں پہنچ گئے اور ایسا انھوں نے پہلی بار نہیں کیا تھا ۔یہ ان کا
پرانا مرض ہے اور وہ اس کا اظہار ہمیشہ کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی
رہتے ہیں۔آج کل وہ مسلم لیگ(ن) اور تحریکِ انصاف میں میں گھسے ہوئے ہیں اور
و ہی سے پارلیمنٹمیرین بن جائیں گئے ۔یہ سارے کے سارے کبھی جنرل محمد ایوب
کے ساتھی تھے کبھی جنرل ضیالحق کی اسمبلی میں بھی موجود تھے اورکبھی جنرل
پرویز مشرف کی اسمبلی میں موجود تھے ۔یہ وہی خو ش قسمت ہیں جو آ ئیندہ
اسمبلی میں بھی موجود ہو ں گئے۔انھیں روکنا بڑا مشکل ہے کیونکہ ان کے پاس
دولت کی طاقت ہے اور دولت کی طاقت اس وقت سب سے بڑی طاقت ہے۔انھیں اقتدار
کی راہدوریوں میں جانے کے راستے کا علم ہے اوروہ اتنے طاقتور ہیں کہ انھیں
ان راہداریوں میں جانے سے کوئی روک سکتا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں پنجاب
پر چوہدری برادران کا غلبہ تھا آج میاں برادران کا راج ہے ۔اس وقت چوہدری
برادران پنجاب پر حکو مت کی محرومی سے شعلوں پر لوٹ رہے ہیں وہ پنجاب پر
ایک دفعہ پھر اقتدار کا خواب سجائے ہوئے ہیں جس پر میاں برادران نے قبضہ
کیا ہوا ہے ۔میاں برادران پنجاب کے اقتدار سے کسی بھی صورت میں دست بردار
ہونے کو تیار نہیں ہیں۔چوہدری برادران اور میاں برادران میں ذہنی اور
نظریات طور پر کوئی بھی اختلاف نہیں ہے۔دونوں پی پی پی کے مخالفین میں شمار
ہوتے ہیں لیکن یہ پنجاب پر اقتدار کی خواہش ہے جس نے ان دونوں کو ایک دوسرے
کا حریف بنا رکھا ہے ۔چوہدری برادران نے کوشش کی تھی کہ وہ ہ ایک دفعہ پھر
میاں برادران کے ساتھ ہاتھ ملا لیں لیکن رکاٹ بن گیا تھا پنجاب کا قبضہ۔اگر
چوہدری بردران پنجاب کی خواہشِ اقتدار سے دست برداری کا اعلان کر دین تو
میاں برادران سے ان کے اختلافات چشمِ زدن میں ختم ہو سکتے ہیں ۔میاں
برادران نے اگر جنرل پرویز مشرف کے دوسرے سارے ساتھیوں کو قبول کر لیا ہے
تو پھر چوہدری برادران کو قبول کرنے میں کیا مضائقہ ہے لیکن پنجاب پر
عملداری انھیں ایک دوسرے سے دور کئے ہوئے ہے۔ چوہدری برادران کے لئے پی پی
پی کے دامن میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔پی پی پی کی بھی
مجبوری تھی کہ اسے پارلیمنٹ میں عددی کمی کا سامنا تھا جس نے پی پی پی کے
اقتدار کو بہت کمزور بنایا ہوا تھا اور پھر ایم کیو ایم کی فیصلہ کن حیثیت
نے بھی پی پی پی کو کافی پریشان کئے ہوئے تھی ۔پی پی پی کے لئے بھی چوہدری
برادران کو ساتھ ملانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔پی پی پی کے جیالے
اس اتحاد کو پسند نہیں کرتے کیونکہ چوہدری برادران کے کردار سے جیالے بڑی
اچھی طرح سے آگاہ ہیں لیکن اقتدار کی مجبوری سب کو خاموش کروائے ہوئے ہے۔۔
حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو پہیے ہیں لیکن یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے
کہ موجودہ اسمبلی میں اپوزیشن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کی
جماعت مسلم لیگ(ن) پاکستان کے 65 فیصد حصے پر قائم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ
اپوزیشن کا حقیقی کردارادا کرنے سے عاری ہے۔میڈیا اور بیانانات کی حد تو سب
کچھ ٹھیک ہے لیکن عملی طور پرکچھ بھی نظر نہیں آرہا ۔ یہی وجہ ہے کہ
فرینڈلی اوزیشن کی نئی اصطلاح بھی منظرِ عام پر آئی۔میں بھی ذاتی طور پر
اسی نظریے کا حا می ہوں کہ حکومتی مخالفت کی بجائے مسلم لیگ (ن) اپنے
اقتدار کو قائم رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملکی
مسائل پر دوٹوک موقف اختیار کرنے سے مسلم لیگ (ن) ہمیشہ احتراز برتی رہی ہے
۔جہاں بھی کبھی کوئی سخت مقام آیا میاں محمد نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے
ور اس طرح اپوزیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہوگئی ۔یہ پانچ سالہ دور
اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس دور میں کوئی جماعت بھی اپوزیشن میں نہیں ہے اور
نہ ہی اپوزیشن کے کسی بھی فرد سے کوئی باز پرس کی گئی یا اس کا کڑا احتساب
کیا گیا۔وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے کئی دفعہ میاں برادران کی کرپشن کے خلاف
بیانات تو ضرور دئے لیکن اس سمت میں کوئی عملی پیش قدمی نہیں کی۔ ایک دفعہ
تو وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بر ملا اعلان بھی کر دیا تھا کہ میاں برادران
کے خلاف ریفرنس تیار ہے اسے میں ایک ہفتے کے اندر نیب کو بھیج رہا ہوں لیکن
وہ ریفرنس آج تک نیب کو نہیں بھیجا گیا۔یہ ساری منصوبہ بندی اس طرح کی جا
تی تھی کہ اپوزیشن جما عت مسلم لیگ(ن) کو دباﺅ میں رکھا جائے تا کہ مسلم
لیگ (ن) حکومت کے خلاف کو ئی مورچہ بندی نہ کر سکے۔پاکستان مسلم لیگ (ن)
پنجاب میں حکمران ہے۔مسلم لیگ(ق) مرکز میں شریکِ اقتدار ہے۔ایم کیو ایم
مرکز اور سندھ میں بر سرِ اقتدار ہے۔عوامی نیشنل پارٹی مرکز اور خیبر
پختونخواہ میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔جمیت العلمائے اسلام( فضل الرحمان
گروپ) بلوچستان میں شریکِ اقتدار ہے۔ اس سے پہلے وہ کئی سالوں تک مرکز میں
بھی اقتدار کا حصہ تھی اور سینیٹ میں اپوزیشن کا عہدہ بھی انھیں عنائیت کیا
گیا تھاجس پر مسلم لیگ (ن) نے کافی احتجاج بھی کیا تھا ۔بلوچستان میں
سرداروں کی جماعتیں بلوچستان کے اقتدار میں سانجھے دار ہیں اور بلوچستان کی
کچھ اہم شخصیات مرکزی وزیر بھی ہیں۔ مسلم لیگ (فنگشنل) بھی چند ماہ قبل تک
مرکز اور سندھ میں شاملِ اقتدار تھی۔وہ جماعت جو اس وقت اقتدار سے باہر ہے
وہ عمران خا ن کی تحریکِ انصاف ہے کیونکہ اس کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی
نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اقتدار کے ایوانوں سے دور ہے ۔ تحریکِ انصاف نے اس
وقت اپنی نظریں پورے اقتدار پر جمائی ہوئی ہیں اور خود کو حقیقی اپوزیشن
سمجھ رہی ہے۔اس کی مقبولیت کا گراف بھی دھیرے دھیرے نیچے کی جانب جا رہا ہے
کیونکہ وہ عوامی وقعات پر پوری نہیں اتر رہی اور اس نے بھی صرف بیانات پر
اکتفا کیا ہوا ہے۔اس کے عملی اقدامات موجودہ استحصالی نظام میں کوئی دراڑ
یں ڈ النے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس نے ایک نئے پاکستان کا نعرہ ضرو بلند
کیا تھا جس پر نوجوان نسل اس کی جانب راغب بھی ہوئی تھی لیکن اس کے عملی
اقدانات اس کے اپنے نعروں کی نفی کرتے رہے ہیں۔علامہ ڈاکٹر طاہرالقا دری کے
لانگ مارچ کے موقع پر اس کی خاموشی نے اس کی مقبولیت کو سخت نقصان پہنچایا
ہے۔تحریکِ انصاف کے نوجوان اس لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک ہو نا چاہتے
تھے اور عمران خان بھی ایسا ہی چاہتے تھے لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا،کہاں
سے ڈوریاں ہلائی گئیں کہ عمران خا ن اس لانگ مارچ اور دھرنے سے پیچھے ہٹ
گئے۔ان کے شامل ہو جانے سے دھرنے اور لانگ مارچ میں مزید طاقت آجاتی او ر
انقلاب کی وہ راہ جس کا وہ صبح شام ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے زیادہ آسان ہو جاتی
لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور وہی پرانا نظام اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ
رو بعمل ہے اور رہے گا کیونکہ اسے رو بعمل لانے والے بہت طاقت ور ہیں۔دنیا
میں جہاں کہیں بھی تبدیلی رونما ہوئی عوامی طاقت سے ہی رونما ہوئی لیکن
عوامی قوت کا اظہار کرنے والے ہی تذبذب کا شکار ہو جائیں تو پھر تبدیلی
کیسے آئے گی؟
سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سیاسی کا ر کنوں کو بھی سامنے
آنے کا موقع دیں جھنوں نے اپنی ساری زندگی جمہوریت کی نذر کر رکھی ہے،جھنوں
ے قیدو بند کی صعوبتیں براشت کی ہیں ،معاشی مشکلات کو بھی جھیلا ہے اور
آمریت سے ٹکر لی ہے۔افسوس صد افسوس کہ جمہویت کے ثمرات ان کی زندگیوں میں
روشنی نہیں لا سکے وہ اب بھی تاریکی میں سانسیں لے رہے ہیں اور اپنی جدوجہد
اور وفاﺅں کا صلہ چاہتے ہیں۔ان کی بدقسمی یہ ہے کہ وہ آج بھی زندہ باد کے
نعروں کے لئے مخصوس کئے ہوئے ہیں ۔وہ نعرے مارتے مارتے داعیِ اجل کو لبیک
کہہ جاتے ہیں لیکن ان کے لئے اقتدار کے دروازے کبھی نہیں کھلتے۔پی پی پی تو
ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی بڑی معتوب جماعت رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے کارکنوں
نے جمہو ریت کے لئے بیش بہا قربانیااں دی ہیں لیکن بعض ناگزیر وجو ہات کی
وجہ سے یہ کارکن ا ب بھی جمہوری ثمرات کے حصول سے کوسوں دور ہیں۔کوئی ان کا
پرسانِ حال نہیں ہے اور وہ اب بھی مفلسی کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کو
اگر مضبوط بنانا ہے اور اس کے استحکام کو یقینی بنانا ہے تو جمہوریت کے
نغمے گانے والے انہی جانبازوں سے اقتدار کی راہداریوں کو سجا نا ہو گا
کیونکہ یہی چراغ جلیں گئے تو روشنی ہو گی۔۔بقولِ شاعر۔۔۔
یا نفرتوں کے ساتھ مجھے کر زمین بوس۔۔۔یااپنی خود سری میرے قدموں میں ڈال
دے (طاہر حنفی) |