تحریر: میاں ارشد بزمی
مانا کہ اس جہاں کو نہ گلزار کرسکے
کچھ خار کم تو کر گئے جدھر سے ہم
جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ جو قویں
اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے جس طرح ہوا،
پانی، بجلی، گیس اور دیگر نعمتیں قدرت کا انمول عطیہ خداوندی ہیں۔ اسی طرح
قوموں کی زندگی میں دکھی انسانیت کی خدمت کے علمبردار خدائی خدمتگار ہمارے
لیے روشنی کا مینار ہیں۔ اپنی خاطر جینے والوں کو دنیا جلد فراموش کردیتی
ہے جبکہ دوسروں کیلئے اپنی زندگی وقف کرنیوالے انسان دوست رہنما تاریخ کی
کتابوں میں ستاروں کی طرح جھلملاتے رہتے ہیں۔ جس طرح کچھ لوگ کھاتے ہیں
جینے کیلئے بالکل اسی طرح کچھ لوگ جیتے ہیں کھانے کیلئے بعینہ کچھ لوگ جیتے
ہیں مرنے کیلئے اور کچھ لوگ مرتے ہیں جینے کیلئے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاﺅں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاﺅں گا
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
جنت مکانی خواجہ نعمت اﷲ مرحوم کا شمار گوجرانوالہ شہر کے صف اوّل کے سماجی
اور تجارتی رہنماﺅں میں ہوتا تھا ان کی سماجی خدمات کا دائرہ پورے پاکستان
میں پھیلا ہوا تھا۔ دینی مدارس، ہسپتالوں، مستحق یتیموں، بیواﺅں، معذوروں،
مجبوروں اور ناداروں کی امداد اور اعانت ان کی زندگی کا مشن تھا۔ دکھی
انسانیت کی خدمت ان کا نصب العین اور مفلوک الحال بزرگوں ضعیفوں کی دلداری
ان کا مشغلہ تھا۔ رضائے الٰہی کیلئے دینی مدارس اور سکولوں کا قیام ان کا
شوق اور عشق تھا۔ مخلوقِ خدا کے مصائب اور مسائل کا خاتمہ وہ اپنی ذمہ داری
سمجھتے تھے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور سچ ہے کہ موت سے کس کو رستگاری ہے۔ آج
تم کل ہماری باری ہے۔ خواجہ نعمت اﷲ کی خودی مسلمان تھی اور ان کے دریا میں
ہمیشہ طوفان موجزن رہتے تھے۔ وہ تقدیر کا شکوہ کرنے کی بجائے خود خدا کی
تقدیر بن کر محروموں کی مسیحائی کرتے تھے۔
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟
عبث ہے شکوئہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
خدا تعالیٰ کی دکھی محروم اور مظلوم مخلوق سے ہمدردی کا جذبہ خواجہ نعمت اﷲ
میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ انہوں نے گوجرانوالہ کے کچلے پسے اور بے
یارومددگار لاوارث مستحقین کیلئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ انسان
سے محبت کا انہوں نے حق ادا کردیا۔ حقوق اﷲ کیساتھ ساتھ انہوں نے حقوق
العباد میں ممتاز مقام پیدا کیا۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کیلئے دن
رات محنت کی۔
جس نے انساں سے محبت ہی نہ کی ہو اقبال
درحقیقت وہ خدا کا بھی طلبگار نہیں ہے
خواجہ نعمت اﷲ جیسے انمول ہیرے معاشرے کا حسن اور تنوع ہوتے ہیں۔ ان کے ہم
نشین یارِ غار ملک نذیر احمد عرف میاں صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اور
خواجہ صاحب مرحوم و مغفور اپنے دوست مجید کشمیری کی عیادت کیلئے علامہ
اقبال ہسپتال گوجرانوالہ گئے تو چپکے سے ان کی ایسے امداد کی کہ کسی کو کان
وکان خبر نہ ہوئی۔ خواجہ نعمت اﷲ دکھاوے سے بے حد پرہیز کرتے تھے۔ مرض
الموت کے دوران عالمی ریفری سعید احمد لون اور حاجی جاوید خان کاکڑ خواجہ
صاحب کی تیمارداری کیلئے نواز شریف ہسپتال لاہور گئے۔ افاقہ ہونے پر انہیں
واپس گھر شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ لایا گیا۔ جہاں وہ اپنے بیوی بچوں غریب
وظیفہ خواروں اور عزیزواقارب کو روتا دھوتا چھوڑ کر اجل کر لبیک کہہ گئے۔
اناﷲوَاِناالیہ راجعون۔
چمن اجاڑ کے آندھی تو جاچکی لیکن
پرندے شاخ پہ بیٹھے ہیں سوگوار ابھی
شدید سرد موسم کی خون جمانے والی خنک راتوں میں گوجرانوالہ کا حاتم طائی
مستحق غریبوں، مزدوروں اور لاچار ضعیفوں کے گھر جاکر انہیں کمبل، رضائیاں
اور دیگر سہولتیں فراہم کرکے دعائیں لیتا تھا۔ مسجد و منبر اور حقوق اﷲ کی
ادائیگی سے کس کافر کو انکار ہے؟ عبادات کے علاوہ حقوق العباد اور دکھی
انسانیت کی خدمت ان کا جنون اور عشق تھا
کچھ بغض دی ریت وچ نئیں ملدا
اوہ ہارتے جیت وچ نئیں ملدا
مخلوق خدا نال پیار وی کر
رب صرف مسیت وچ نئیں ملدا
خواجہ نعمت اﷲ کے انتقال کی خبر سن کر شہر میں سوگ چھا گیا۔ دوست احباب اور
عزیزواقارب کے علاوہ وظیفہ خواروں کی آہ و بکا کا منظر قیامت صغریٰ کی طرح
تھا۔ ہزاروں لوگوں کے جنازوں میں خشوع و خضوع سے شراکت کرنے والے کا اپنا
جنازہ جب اٹھا تو شہر کا شہر ہی امنڈ لایا۔ گوجرانوالہ کے حاتم طائی کا
جنازہ بڑی دھوم سے نکلا۔ ہزاروں کی تعداد میں چاہنے والوں کا ہجوم عاشقانِ
خواجہ صاحب کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے اور لواحقین کو پرسہ دینے کیلئے امڈ
آیا۔
تمہاری لحد پہ ہم سب کو مل کے رونا تھا
یہ حادثہ بھی میری زندگی میں ہونا تھا
خواجہ نعمت اﷲ کی وفات سے یہ راز بھی فاش ہوگیا کہ وہ کن کن لوگوں اداروں
اور مستحق افراد کو خفیہ وظائف اور خاموش امداد سے ہمکنار کرتے تھے۔
لواحقین کی گریہ زاری اور مستحقین کی اشکباری سے پہلوانوںاور صنعتکاروں کا
شہر گوجرانوالہ سوگ میں ڈوب گیا۔
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
زندگی کے المناک کرب زاروں میں موت ایک ایسی زندہ حقیقت اور سچائی ہے ہر
نفس اور ذی روح کا زیرو پوائنٹ ہے اس تلخ کڑوے سچ سے کسی کو مفر اور انکار
نہیں کہ ہر شخص اور نفس نے ہر حال میں موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے۔ غفلت کی
چادر کو دماغ سے اتار کر روح کو بیدار کرکے زندگی اور موت کے قرآنی فلسفے
پر عمل پیرا ہونا ہی مقصد حیات اور مطلب خودی ہے۔
ہتھ میرے وچ تیریاں لیکاں، اِک اِک وچ لکھ اڈیکاں
تیرے باہجوں دن دے چانن راتیں اُٹھ اُٹھ مارن چیکاں
خواجہ نعمت اﷲ مرحوم اگرچہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کا فلسفہ ان
کا ویژن اور ان کا مشن خواجہ شجاع اﷲ، خواجہ ذکاءاﷲ اور خواجہ ضیاءاﷲ کی
صورت میں جاری و ساری ہے اور انشاءاﷲ تمام عمر جاری رہے گا۔
شکوئہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
خواجہ نعمت اﷲ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی ان کے بیٹوں
نے جاری رکھی ہے۔ خواجہ نعمت اﷲ ایسے شجر سایہ دار تھے کہ ہزاروں پرندے ان
کی شاخوں پر بسیرا کرتے تھے۔
اِک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
اِن کی پندرہویں برسی پر میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ خواجہ نعمت اﷲ کو جنت
الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے اور
خواجہ صاحب کے مشن پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین ۔ یا رب
العالمین
اہل ہستی کو عدم کا مرحلہ درپیش ہے
موت کو نزدیک جو سمجھے وہ دور اندیش ہے |