اجرک والی نمبر پلیٹ ثقافت کا فروغ ہے یا جانے انجانے میں ثقافتی بے ادبی

حکومت کی نیت ممکنہ طور پر ثقافت کے فروغ کی ہو، اور اس نے اجرک کو بطور "برینڈ" استعمال کر کے عالمی سطح پر سندھ کی نمائندگی کا راستہ کھولنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن کسی بھی علامت کو اپنانے کے لیے اس کے اصل مفہوم، مقام، اور تقدس کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
ثقافت صرف ظاہری اظہار کا نام نہیں بلکہ ایک احساس، وابستگی اور تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ اگر اجرک کا استعمال ایسے مقام پر کیا جائے جہاں اس کی توہین کا خطرہ ہو، تو یہ نیت جتنی بھی اچھی ہو، عمل قابلِ اعتراض ہو سکتا ہے۔
اجرک کو ہمیشہ سر پر، کندھوں پر، یا بطور تحفہ و اعزاز پیش کیا گیا ہے۔ جب اسے ایک ایسی جگہ جیسے نمبر پلیٹ پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مٹی، گرد، گندگی اور ٹکراؤ کا سامنا ہوتا ہے اور پھر اس پر جرمانہ بھی لگایا جائے اگر کوئی شہری ایسا نہ کرے تو یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ثقافت کی اصل روح کو سمجھے بغیر صرف اس کا "ڈیزائن" نافذ کیا جا رہا ہے۔
شہری حلقوں اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،
"اجرک کو سر پر رکھا جاتا ہے، نمبر پلیٹ پر نہیں۔ یہ عزت ہے، ڈیزائن نہیں۔" "حکومت کو اجرک والی نمبر پلیٹ کی فکر ہے، سڑک پر گٹر کا پانی بہتا رہے تو بھی کوئی پرواہ نہیں۔" وغیرہ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اقدام پر سب سے زیادہ زور کراچی میں دیا جا رہا ہے۔ کیا ثقافت صرف کراچی کے لیے ہے؟شہری سندھ پر ثقافت کے نام پر زبردستی کیوں؟کراچی کے شہری پہلے ہی ٹوٹی سڑکوں، ناقص ٹریفک نظام اور صفائی کے مسائل کا شکار ہیں۔ اب ان پر ایک اور جرمانے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔کسی ثقافتی نشان کو "لازمی" قرار دینا اور پھر اس پر جرمانہ عائد کرنا، شہری آزادی کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ ثقافت زبردستی سے نہیں، محبت، فخر اور شعور سے زندہ رہتی ہے۔شہریوں پر جرمانہ عائد کرنا، اور وہ بھی ایسی حالت میں جب عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوںثقافت نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔
اگر سندھ حکومت واقعی ثقافت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے: اسکولوں اور کالجوں میں ثقافتی دن منائے جائیں، اجرک کی اہمیت اور تاریخ پر آگاہی دی جائے، اجرک کو عزت اور وقار کے ساتھ عوامی تقریبات میں نمایاں کیا جائے، نہ کہ اسے سڑک کی دھول میں شامل کر دیا جائے۔

اجرک سندھ کا فخر ہے، مگر اسے نمبر پلیٹ پر زبردستی لگوانا، خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں جہاں عوام پہلے ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، سراسر زیادتی، بے ادبی اور شہری آزادی کے خلاف ہے۔
ثقافت کو نافذ نہیں کیا جاتا، اسے سمجھایا، سراہا اور اپنایا جاتا ہے۔ثقافت کا احترام محبت، آگاہی، اور فخر سے ہوتا ہے، نہ کہ قانون اور جرمانے سے۔
"اجرک کی عظمت اس میں نہیں کہ اسے ہر گاڑی پر چسپاں کیا جائے، بلکہ اس میں ہے کہ ہر دل میں اس کی عزت ہو۔"
اگر حکومت واقعی اجرک اور ثقافت سے مخلص ہے، تو جرمانوں کے بجائے تعلیمی اور شعوری مہم شروع کرے، تاکہ عوام خود فخر سے اپنی ثقافت کو اپنائیں — نہ کہ ڈر سے۔ اور سب سے بڑھ کراجرک کا اصل مقام سینے پر، کندھے پر یا مہمان کے سر پر ہے نہ کے گاڑی کی نمبر پلیٹ پر.
 

 

Muhammad Arslan Shaikh
About the Author: Muhammad Arslan Shaikh Read More Articles by Muhammad Arslan Shaikh: 11 Articles with 3465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.